(موقوف) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حماد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان عمر" اشترط في وقفه ان ياكل من وليه، ويؤكل صديقه غير متمول مالا".(موقوف) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ عُمَرَ" اشْتَرَطَ فِي وَقْفِهِ أَنْ يَأْكُلَ مَنْ وَلِيَهُ، وَيُؤْكِلَ صَدِيقَهُ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ مَالًا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے وقف میں یہ شرط لگائی تھی کہ اس کا متولی اس میں سے کھا سکتا ہے اور اپنے دوست کو کھلا سکتا ہے لیکن وہ دولت نہ جوڑے۔
Narrated Ibn `Umar: When `Umar founded an endowment he stipulated that its administrator could eat from it and also feed his friend on the condition that he would not store anything for himself from it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 38
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2777
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وقف پر کام کرنے والے لوگ، خواہ وہ مزدور ہوں یا نگران، وکیل ہوں یا دیگر کارندے ان تمام کے اخراجات وقف جائیداد سے پورے کیے جائیں گے۔ پہلی حدیث میں عاملین سے مراد فے والی زمین کے کارندے ہیں، یعنی بنو نضیر، فدک اور خیبر کی زمین کا انتظام جن کے سپرد تھا، ان کی تنخواہیں اور اخراجات ان زمینوں کی پیداوار سے ادا کیے جاتے تھے۔ اسی طرح ازواج مطہرات ؓ کے اخراجات بھی اسی سے پورے کیے جاتے تھے کیونکہ آپ کے بعد انہوں نے کسی سے دوسرا نکاح نہیں کرنا تھا، اس لیے ان کے لیے خرچہ جاری کیا گیا اور حجرات بھی ان کے لیے چھوڑ دیے گئے، اس کے علاوہ جو باقی بچتا اسے صدقے کی مد میں جمع کر دیا جاتا۔ (2) حضرت عمر ؓ کی روایت میں صراحت ہے کہ جو کوئی وقفی جائیداد کا اہتمام کرے گا وہ اپنی محنت کا واجبی سا معاوضہ وقفی جائیداد سے لے سکتا ہے جس سے اخراجات پورے ہو سکیں۔ دوسرے لفظوں میں خصوصیات اور سہولیات و تعیشات کے بجائے ضروریات پوری کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اپنے لیے ماہانہ تنخواہ مقرر کر لی جائے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2777