صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
The Book of Conditions
15. بَابُ الشُّرُوطِ فِي الْجِهَادِ وَالْمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ:
15. باب: جہاد میں شرطیں لگانا اور کافروں کے ساتھ صلح کرنے میں اور شرطوں کا لکھنا۔
(15) Chapter. The conditions of Jihad and peace treaties with (non-Muslim) warriors, and the writing of the conditions.
حدیث نمبر: 2733
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال عقيل: عن الزهري، قال عروة: فاخبرتني عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمتحنهن، وبلغنا انه لما انزل الله تعالى ان يردوا إلى المشركين ما انفقوا على من هاجر من ازواجهم، وحكم على المسلمين ان لا يمسكوا بعصم الكوافر، ان عمر طلق امراتين قريبة بنت ابي امية، وابنة جرول الخزاعي، فتزوج قريبة معاوية، وتزوج الاخرى ابو جهم، فلما ابى الكفار ان يقروا باداء ما انفق المسلمون على ازواجهم، انزل الله تعالى وإن فاتكم شيء من ازواجكم إلى الكفار فعاقبتم سورة الممتحنة آية 11 والعقب ما يؤدي المسلمون إلى من هاجرت امراته من الكفار، فامر ان يعطى من ذهب له زوج من المسلمين ما انفق من صداق نساء الكفار اللائي هاجرن، وما نعلم ان احدا من المهاجرات ارتدت بعد إيمانها، وبلغنا ان ابا بصير بن اسيد الثقفي قدم على النبي صلى الله عليه وسلم مؤمنا مهاجرا في المدة، فكتب الاخنس بن شريق إلى النبي صلى الله عليه وسلم يساله ابا بصير، فذكر الحديث.(مرفوع) وَقَالَ عُقَيْلٌ: عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ: فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُهُنَّ، وَبَلَغْنَا أَنَّهُ لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدُّوا إِلَى الْمُشْرِكِينَ مَا أَنْفَقُوا عَلَى مَنْ هَاجَرَ مِنْ أَزْوَاجِهِمْ، وَحَكَمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ لَا يُمَسِّكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ، أَنَّ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَيْنِ قَرِيبَةَ بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ، وَابْنَةَ جَرْوَلٍ الْخُزَاعِيِّ، فَتَزَوَّجَ قَرِيبَةَ مُعَاوِيَةُ، وَتَزَوَّجَ الْأُخْرَى أَبُو جَهْمٍ، فَلَمَّا أَبَى الْكُفَّارُ أَنْ يُقِرُّوا بِأَدَاءِ مَا أَنْفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ، أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَإِنْ فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ سورة الممتحنة آية 11 وَالْعَقْبُ مَا يُؤَدِّي الْمُسْلِمُونَ إِلَى مَنْ هَاجَرَتِ امْرَأَتُهُ مِنَ الْكُفَّارِ، فَأَمَرَ أَنْ يُعْطَى مَنْ ذَهَبَ لَهُ زَوْجٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مَا أَنْفَقَ مِنْ صَدَاقِ نِسَاءِ الْكُفَّارِ اللَّائِي هَاجَرْنَ، وَمَا نَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ ارْتَدَّتْ بَعْدَ إِيمَانِهَا، وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَصِيرِ بْنَ أَسِيدٍ الثَّقَفِيَّ قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤْمِنًا مُهَاجِرًا فِي الْمُدَّةِ، فَكَتَبَ الْأَخْنَسُ بْنُ شَرِيقٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ أَبَا بَصِيرٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
عقیل نے زہری سے بیان کیا ‘ ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کا (جو مکہ سے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں) امتحان لیتے تھے (زہری نے) بیان کیا کہ ہم تک یہ روایت پہنچی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مسلمان وہ سب کچھ ان مشرکوں کو واپس کر دیں جو انہوں نے اپنی ان بیویوں پر خرچ کیا ہو جو (اب مسلمان ہو کر) ہجرت کر آئی ہیں اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں قریبہ بنت ابی امیہ اور ایک جرول خزاعی کی لڑکی کو طلاق دے دی۔ بعد میں قریبہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی تھی (کیونکہ اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور دوسری بیوی سے ابوجہم نے شادی کر لی تھی لیکن جب کفار نے مسلمانوں کے ان اخراجات کو ادا کرنے سے انکار کیا جو انہوں نے اپنی (کافرہ) بیویوں پر کئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «وإن فاتكم شىء من أزواجكم إلى الكفار فعاقبتم‏» اور تمہاری بیویوں میں سے کوئی کافروں کے ہاں چلی گئی تو وہ معاوضہ تم خود ہی لے لو۔ یہ وہ معاوضہ تھا جو مسلمان کفار میں سے اس شخص کو دیتے جس کی بیوی ہجرت کر کے (مسلمان ہونے کے بعد کسی مسلمان کے نکاح میں آ گئی ہو) پس اللہ نے اب یہ حکم دیا کہ جس مسلمان کی بیوی مرتد ہو کر (کفار کے یہاں) چلی جائے اس کے (مہر و نفقہ کے) اخراجات ان کفار کی عورتوں کے مہر سے ادا کر دئیے جائیں جو ہجرت کر کے آ گئی ہیں (اور کسی مسلمان نے ان سے نکاح کر لیا ہے) اگرچہ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ کوئی مہاجرہ بھی ایمان کے بعد مرتد ہوئی ہوں اور ہمیں یہ روایت بھی معلوم ہوئی کہ ابوبصیر بن اسید ثقفی رضی اللہ عنہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مومن و مہاجر کی حیثیت سے معاہدہ کی مدت کے اندر ہی حاضر ہوئے تو اخنس بن شریق نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تحریر لکھی جس میں اس نے (ابوبصیر رضی اللہ عنہ کی واپسی کا) مطالبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا۔ پھر انہوں نے حدیث پوری بیان کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Az-Zuhri: `Urwa said, "Aisha told me that Allah's Apostle used to examine the women emigrants. We have been told also that when Allah revealed the order that the Muslims should return to the pagans what they had spent on their wives who emigrated (after embracing Islam) and that the Mushriks should not. keep unbelieving women as their wives, `Umar divorced two of his wives, Qariba, the daughter of Abu Urhaiya and the daughter of Jarwal Al-Khuza`i. Later on Mu'awiya married Qariba and Abu Jahm married the other." When the pagans refused to pay what the Muslims had spent on their wives, Allah revealed: "And if any of your wives have gone from you to the unbelievers and you have an accession (By the coming over of a woman from the other side) (Then pay to those whose wives have gone) The equivalent of what they had spent (On their Mahr)." (60.11) So, Allah ordered that the Muslim whose wife, has gone, should be given, as a compensation of the Mahr he had given to his wife, from the Mahr of the wives of the pagans who had emigrated deserting their husbands. We do not know any of the women emigrants who deserted Islam after embracing it. We have also been told that Abu Basir bin Asid Ath-Thaqafi came to the Prophet as a Muslim emigrant during the truce. Al-Akhnas bin Shariq wrote to the Prophet requesting him to return Abu Basir.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 891


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2733 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2733  
حدیث حاشیہ:
تشریح:
یہ واقعہ 6 ھ کا ہے آنحضرت ﷺ پیر کے دن ذی قعدہ کے آخر میں مدینہ سے عمرہ کا ارادہ کر کے نکلے۔
آپ ﷺ کے ساتھ سات سو مسلمان تھے اور ستر اونٹ قربانی کے‘ ہر دس آدمی میں ایک اونٹ۔
ایک روایت میں آپ کے ساتھیوں کی تعداد چودہ سو بتلائی ہے۔
آپ نے بسر بن سفیان کو قریش کی خبر لانے کے لئے بھیجا تھا‘ اس نے واپس آکر بتلایا کہ قریش کے لوگ آپ کے آنے کی خبرسن کر ذی طویٰ میں آگئے ہیں اور خالد بن ولید ؓ ان کے سواروں کے ساتھ کراع الغمیم نامی جگہ میں آٹھہرے ہیں‘ یہ جگہ مکہ سے دومیل پر ہے۔
اس روایت میں واقعہ حدیبیہ کی تفصیلات موجود ہیں۔
روایت میں قصویٰ اونٹنی کا ذکر ہے‘ اس پر آنحضرت ﷺ سواری کرتے تھے‘ یہ تمام اونٹوں میں آگے رہتی‘ آپ نے اس پر سوار ہو کر ہجرت کی تھی۔
روایت میں تہامہ کا ذکر ہے‘ یہ مکہ اور اس کے اطراف کی بستیوں کو کہتے ہیں۔
تہم گرمی کی شدت کو کہتے ہیں۔
یہ علاقہ بے حد گرم ہے‘ اسی لئے تہامہ نام سے موسوم ہوا۔
کعب بن لوی قریش کے جداعلیٰ ہیں۔
عوذ المطا فیل کا لفظ جو روایت میں آیا ہے اس کے دو معنی ہیں ایک بچہ دار اونٹنیاں جو ابھی بچہ جنی ہوں اور کافی دودھ دے رہی ہوں۔
دوسرے انسانوں کے بال بچے۔
دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ قریش کے لو گ ان چشموں پر زیادہ دنوں تک رہنے کے لئے اپنے اونٹ اور اونٹنیاں اور بال بچے لے کر آئے ہیں تاکہ وہ عرصہ تک آپ سے جنگ کرتے رہیں۔
عروہ بن مسعود جو قریش کے نمائندہ بن کر آپ ﷺ سے صلح کی گفتگو کرنے آئے تھے‘ یہ چھ سال بعد خود مسلمان ہوکر مبلغ اسلام کی حیثیت سے اپنی قوم میں گئے تھے۔
آج یہ آنحضرت ﷺ کو سمجھنا سمجھنانے کاخیال لے کر آئے تھے حضرت ابو بکر ؓ نے جب اس کا یہ جملہ سنا کہ یہ متفرق قبائل کے لوگ جو مسلمان ہو کر آپ کے ارد گرد جمع ہیں‘ در صورت شکست آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
جواباً ازراہ غصہ کہا تھا کہ تو واپس جا کر اپنے معبود لات کی شرمگاہ چوس لے‘ یہ خیال ہرگزنہ کرنا کہ ہم لوگ آنحضرت ﷺ کوچھوڑ کر چلے جائیں گے۔
مغیرہ بن شعبہ ؓجس کو عروہ نے غدار قرار دیا تھا۔
کہتے ہیں یہ عروہ کے بھتیجے تھے‘ ایک ہونے والی جنگ میں جو مغیرہ کی قوم سے متعلق تھی‘ عروہ نے بچ بچاؤ کرادیا تھا۔
اس احسان کو جتلا رہے تھے۔
بنو کنانہ میں سے آنے والے کا نام حلیس بن علقمہ حارثی تھا۔
وہ حبشیوں کا سردار تھا‘ آپ نے اس کے بارے میں جو فرمایا وہ بالکل صحیح ثابت ہواکہ اس نے قربانی کے جانور کو دیکھ کر‘ مسلمانوں سے لبیک کے نعرے سن کر بڑے اچھے لفظوں میں مسلمانوں کا ذکرخیرکیا اور مسلمانوں کے حق میں سفارش کی۔
صلح حدیبیہ کا متن لکھنے والے حضرت علی کرم اللہ وجهه تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2733   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2733  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کے مفاد کے پیش نظر ایک معین مدت تک کے لیے کفار سے صلح کرنا جائز ہے اور ان کے درمیان جو شرائط طے ہوں انہیں لکھ لینا چاہیے، ان پر گواہی بھی تحریر کر لی جائے تاکہ فریقین میں سے جو صلح توڑنا چاہے اس کے خلاف گواہی دی جا سکے۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت ابو بصیر ؓ ساحل سمندر پر عیص نامی مقام پر ٹھہرے اور ابو جندل ؓ بھی بھاگ کر وہاں آ گئے۔
اس طرح وہاں ستر سوار جمع ہو گئے قریش کا جو تجارتی قافلہ آتا اسے لوٹ لیتے۔
آخر کار قریش نے تنگ آ کر معاہدے کی آخری شرط ختم کر دی اور رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کیا کہ ابو بصیر ؓ کی کاروائیوں کو بند کیا جائے۔
آخر کار رسول اللہ ﷺ نے اپنا ایک خط حضرت ابو بصیر ؓ کے نام روانہ فرمایا۔
انہیں جب خط ملا تو وہ حالت نزع میں تھے۔
انہوں نے آپ ﷺ کا گرامی نامہ ہاتھ میں پکڑا اور اسے پڑھتے پڑھتے اپنی جان، جانِ آفریں کے حوالے کر دی۔
۔
۔
رضي اللہ عنه۔
۔
۔
(عمدةالقاري: 647/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2733   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.