مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا مجھ کو معمر نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے زہری نے خبر دی ‘ کہا مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان نے ‘ دونوں کے بیان سے ایک دوسرے کی حدیث کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے موقع پر (مکہ) جا رہے تھے ‘ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم راستے ہی میں تھے ‘ فرمایا خالد بن ولید قریش کے (دو سو) سواروں کے ساتھ ہماری نقل و حرکت کا اندازہ لگانے کے لیے مقام غمیم میں مقیم ہے (یہ قریش کا مقدمۃ الجیش ہے) اس لیے تم لوگ داہنی طرف سے جاؤ ‘ پس اللہ کی قسم خالد کو ان کے متعلق کچھ بھی علم نہ ہو سکا اور جب انہوں نے اس لشکر کا غبار اٹھتا ہوا دیکھا تو قریش کو جلدی جلدی خبر دینے گئے۔ ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی پر پہنچے جس سے مکہ میں اترتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری بیٹھ گئی۔ صحابہ اونٹنی کو اٹھانے کیلئے حل حل کہنے لگے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ قصواء اڑ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قصواء اڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے ‘ اسے تو اس ذات نے روک لیا جس نے ہاتھیوں (کے لشکر) کو (مکہ) میں داخل ہونے سے روک لیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو بھی ایسا مطالبہ رکھیں گے جس میں اللہ کی محرمات کی بڑائی ہو تو میں اس کا مطالبہ منظور کر لوں گا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اٹھ گئی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے آگے نکل گئے اور حدیبیہ کے آخری کنارے ثمد (ایک چشمہ یا گڑھا) پر جہاں پانی کم تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی استعمال کرنے لگے، انہوں نے پانی کو ٹھہرنے ہی نہیں دیا، سب کھینچ ڈالا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر دیا کہ اس گڑھے میں ڈال دیں بخدا تیر گاڑتے ہی پانی انہیں سیراب کرنے کے لیے ابلنے لگا اور وہ لوگ پوری طرح سیراب ہو گئے۔ لوگ اسی حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی رضی اللہ عنہ اپنی قوم خزاعہ کے کئی آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا۔ یہ لوگ تہامہ کے رہنے والے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم راز بڑے خیرخواہ تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ میں کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی کو پیچھے چھوڑ کر آ رہا ہوں۔ جنہوں نے حدیبیہ کے پانی کے ذخیروں پر اپنا پڑاؤ ڈال دیا ہے ‘ ان کے ساتھ بکثرت دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے نئے نئے بچوں کے ساتھ ہیں۔ وہ آپ سے لڑیں گے اور آپ کے بیت اللہ پہنچنے میں رکاوٹ بنیں گے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں صرف عمرہ کے ارادے سے آئے ہیں اور واقعہ تو یہ ہے (مسلسل لڑائیوں) نے قریش کو بھی کمزور کر دیا ہے اور انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے ‘ اب اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت ان سے صلح کا معاہدہ کر لوں گا ‘ اس عرصہ میں وہ میرے اور عوام (کفار مشرکین عرب) کے درمیان نہ پڑیں پھر اگر میں کامیاب ہو جاؤں اور (اس کے بعد) وہ چاہیں تو اس دین (اسلام) میں وہ بھی داخل ہو سکتے ہیں (جس میں اور تمام لوگ داخل ہو چکے ہوں گے) لیکن اگر مجھے کامیابی نہیں ہوئی تو انہیں بھی آرام مل جائے گا اور اگر انہیں میری پیش کش سے انکار ہے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میرا سر تن سے جدا نہیں ہو جاتا، میں اس دین کے لیے برابر لڑتا رہوں گا یا پھر اللہ تعالیٰ اسے نافذ ہی فرما دے گا۔ بدیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قریش تک آپ کی گفتگو میں پہچاؤں گا چنانچہ وہ واپس ہوئے اور قریش کے یہاں پہنچے اور کہا کہ ہم تمہارے پاس اس شخص (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے یہاں سے آ رہے ہیں اور ہم نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے ‘ اگر تم چاہو تو تمہارے سامنے اسے بیان کر سکتے ہیں۔ قریش کے بے وقوفوں نے کہا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ تم اس شخص کی کوئی بات ہمیں سناؤ۔ جو لوگ صائب الرائے تھے ‘ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے جو کچھ تم نے سنا ہے ہم سے بیان کر دو۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یہ کہتے سنا ہے اور پھر جو کچھ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ‘ سب بیان کر دیا۔ اس پر عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (جو اس وقت تک کفار کے ساتھ تھے) کھڑے ہوئے اور کہا اے قوم کے لوگو! کیا تم مجھ پر باپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے۔ سب نے کہا کیوں نہیں ‘ ضرور رکھتے ہیں۔ عروہ نے پھر کہا کیا میں بیٹے کی طرح تمہارا خیرخواہ نہیں ہوں ‘ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ عروہ نے پھر کہا تم لوگ مجھ پر کسی قسم کی تہمت لگا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے پوچھا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری مدد کے لیے کہا تھا اور جب انہوں نے انکار کیا تو میں نے اپنے گھرانے ‘ اولاد اور ان تمام لوگوں کو تمہارے پاس لا کر کھڑا کر دیا تھا جنہوں نے میرا کہنا مانا تھا؟ قریش نے کہا کیوں نہیں (آپ کی باتیں درست ہیں) اس کے بعد انہوں نے کہا دیکھو اب اس شخص (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز رکھی ہے ‘ اسے تم قبول کر لو اور مجھے اس کے پاس (گفتگو) کے لیے جانے دو ‘ سب نے کہا آپ ضرور جایئے۔ چنانچہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو شروع کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی باتیں کہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدیل سے کہہ چکے تھے ‘ عروہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہا۔ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! بتائیے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو تباہ کر دیا تو کیا اپنے سے پہلے کسی بھی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کا نام و نشان مٹا دیا ہو لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی (یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب ہوئے) تو میں اللہ کی قسم تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ مختلف جنسوں لوگ یہی کریں گے۔ اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے «امصص بظر اللات» ۔ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ عروہ نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ عروہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا اب تک میں بدلہ نہیں دے سکا ہوں تو تمہیں ضرور جواب دیتا۔ بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے ‘ تلوار لٹکائے ہوئے اور سر پر خود پہنے۔ عروہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کی طرف اپنا ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ تلوار کی نیام کو اس کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھ۔ عروہ رضی اللہ عنہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ۔ عروہ نے انہیں مخاطب کر کے کہا اے دغا باز! کیا میں نے تیری دغا بازی کی سزا سے تجھ کو نہیں بچایا؟ اصل میں مغیرہ رضی اللہ عنہ (اسلام لانے سے پہلے) جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ رہے تھے پھر ان سب کو قتل کر کے ان کا مال لے لیا تھا۔ اس کے بعد (مدینہ) آئے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے (تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کا مال بھی رکھ دیا کہ جو چاہیں اس کے متعلق حکم فرمائیں) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تیرا اسلام تو میں قبول کرتا ہوں، رہا یہ مال تو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیونکہ وہ دغا بازی سے ہاتھ آیا ہے جسے میں لے نہیں سکتا ‘ پھر عروہ رضی اللہ عنہ گھور گھور کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی نقل و حرکت دیکھتے رہے۔ پھر راوی نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی اگر کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ کسی کام کا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کی بجا آوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی پر لڑائی ہو جائے گی (یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو کرنے لگے تو سب پر خاموشی چھا جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نظر بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ خیر عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جا کر ملے تو ان سے کہا اے لوگو! قسم اللہ کی میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں ‘ قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں۔ قسم اللہ کی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو پر لڑائی ہو جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھلی صورت رکھی ہے ‘ تمہیں چاہئے کہ اسے قبول کر لو۔ اس پر بنو کنانہ کا ایک شخص بولا کہ اچھا مجھے بھی ان کے یہاں جانے دو ‘ لوگوں نے کہا تم بھی جا سکتے ہو۔ جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قریب پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص ہے ‘ ایک ایسی قوم کا فرد جو بیت اللہ کی قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس لیے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دیئے اور لبیک کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا جب اس نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا کہ سبحان اللہ قطعاً مناسب نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو کعبہ سے روکا جائے۔ اس کے بعد قریش میں سے ایک دوسرا شخص مکرز بن حفص نامی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے بھی ان کے یہاں جانے دو۔ سب نے کہا کہ تم بھی جا سکتے ہو جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مکرز ہے ایک بدترین شخص ہے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آ گیا۔ معمر نے (سابقہ سند کے ساتھ) بیان کیا کہ مجھے ایوب نے خبر دی اور انہیں عکرمہ نے کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (نیک فالی کے طور پر) فرمایا تمہارا معاملہ آسان (سہل) ہو گیا۔ معمر نے بیان کیا کہ زہری نے اپنی حدیث میں اس طرح بیان کیا تھا کہ جب سہیل بن عمرو آیا تو کہنے لگا کہ ہمارے اور اپنے درمیان (صلح) کی ایک تحریر لکھ لو۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب کو بلوایا اور فرمایا کہ لکھو «بسم الله الرحمن الرحيم» سہیل کہنے لگا رحمن کو اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز ہے۔ البتہ تم یوں لکھ سکتے ہو «باسمك اللهم.» جیسے پہلے لکھا کرتے تھے مسلمانوں نے کہا کہ قسم اللہ کی ہمیں «بسم الله الرحمن الرحيم» کے سوا اور کوئی دوسرا جملہ نہ لکھنا چاہئے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ «باسمك اللهم.» ہی لکھنے دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے صلح نامہ کی دستاویز ہے۔ سہیل نے کہا اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ آپ رسول اللہ ہیں تو نہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ سے روکتے اور نہ آپ سے جنگ کرتے۔ آپ تو صرف اتنا لکھئے کہ ”محمد بن عبداللہ“ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ گواہ ہے کہ میں اس کا سچا رسول ہوں خواہ تم میری تکذیب ہی کرتے رہو ‘ لکھو جی ”محمد بن عبداللہ“ زہری نے بیان کیا کہ یہ سب کچھ (نرمی اور رعایت) صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا نتیجہ تھا (جو پہلے بدیل رضی اللہ عنہ سے کہہ چکے تھے) کہ قریش مجھ سے جو بھی ایسا مطالبہ کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم مقصود ہو گی تو میں ان کے مطالبے کو ضرور مان لوں گا ‘ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل سے فرمایا لیکن صلح کے لیے پہلی شرط یہ ہو گی کہ تم لوگ ہمیں بیت اللہ کے طواف کرنے کے لیے جانے دو گے۔ سہیل نے کہا قسم اللہ کی ہم (اس سال) ایسا نہیں ہونے دیں گے ورنہ عرب کہیں گے ہم مغلوب ہو گئے تھے (اس لیے ہم نے اجازت دے دی) آئندہ سال کے لیے اجازت ہے۔ چنانچہ یہ بھی لکھ لیا۔ پھر سہیل نے لکھا کہ یہ شرط بھی (لکھ لیجئے) کہ ہماری طرف کا جو شخص بھی آپ کے یہاں جائے گا خواہ وہ آپ کے دین ہی پر کیوں نہ ہو آپ اسے ہمیں واپس کر دیں گے۔ مسلمانوں نے (یہ شرط سن کر کہا) سبحان اللہ! (ایک شخص کو) مشرکوں کے حوالے کس طرح کیا جا سکتا ہے جو مسلمان ہو کر آیا ہو۔ ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ابوجندل بن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آ پہنچے ‘ وہ مکہ کے نشیبی علاقے کی طرف سے بھاگے تھے اور اب خود کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا تھا۔ سہیل نے کہا اے محمد! یہ پہلا شخص ہے جس کے لیے (صلح نامہ کے مطابق) میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اسے واپس کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے (صلح نامہ کی اس دفعہ کو) صلح نامہ میں لکھا بھی نہیں ہے (اس لیے جب صلح نامہ طے پا جائے گا اس کے بعد اس کا نفاذ ہونا چاہئے) سہیل کہنے لگا کہ اللہ کی قسم پھر میں کسی بنیاد پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح نہیں کروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا مجھ پر اس ایک کو دے کر احسان کر دو۔ اس نے کہا کہ میں اس سلسلے میں احسان بھی نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ہمیں احسان کر دینا چاہئے لیکن اس نے یہی جواب دیا کہ میں ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔ البتہ مکرز نے کہا کہ چلئے ہم اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان کرتے ہیں مگر (اس کی بات نہیں چلی) ابوجندل رضی اللہ عنہ نے کہا مسلمانوں! میں مسلمان ہو کر آیا ہوں۔ کیا مجھے مشرکوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا؟ کیا میرے ساتھ جو اذیتیں پہنچائی گئیں تھیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، کیا یہ واقعہ اور حقیقت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں! میں نے عرض کیا، کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں! میں نے کہا پھر اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں ‘ اس کی حکم عدولی نہیں کر سکتا اور وہی میرا مددگار ہے۔ میں نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ اسی سال ہم بیت اللہ پہنچ جائیں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا نہیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قید کے ساتھ نہیں فرمایا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تم بیت اللہ تک ضرور پہنچو گے اور ایک دن اس کا طواف کرو گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا اور ان سے بھی یہی پوچھا کہ ابوبکر! کیا یہ حقیقت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں؟ انہوں نے بھی کہا کہ کیوں نہیں۔ میں نے پوچھا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں! میں نے کہا کہ پھر اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا جناب! بلا شک و شبہ وہ اللہ کے رسول ہیں ‘ اور اپنے رب کی حکم عدولی نہیں کر سکتے اور رب ہی ان کا مددگار ہے پس ان کی رسی مضبوطی سے پکڑ لو ‘ اللہ گواہ ہے کہ وہ حق پر ہیں۔ میں نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے یہ نہیں کہتے تھے کہ عنقریب ہم بیت اللہ پہونچیں گے اور اس کا طواف کریں گے انہوں نے فرمایا کہ یہ بھی صحیح ہے لیکن کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ اسی سال آپ بیت اللہ پہنچ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپ ایک نہ ایک دن بیت اللہ پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔ زہری نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بعد میں میں نے اپنی عجلت پسندی کی مکافات کے لیے نیک اعمال کئے۔ پھر جب صلح نامہ سے آپ فارغ ہو چکے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ اب اٹھو اور (جن جانوروں کو ساتھ لائے ہو ان کی) قربانی کر لو اور سر بھی منڈوا لو۔ انہوں نے بیان کیا کہ اللہ گواہ ہے صحابہ میں سے ایک شخص بھی نہ اٹھا اور تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ فرمایا۔ جب کوئی نہ اٹھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ کے خیمہ میں گئے اور ان سے لوگوں کے طرز عمل کا ذکر کیا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے اللہ کے نبی! کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ باہر تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ نہ کہیں بلکہ اپنا قربانی کا جانور ذبح کر لیں اور اپنے حجام کو بلا لیں جو آپ کے بال مونڈ دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔ کسی سے کچھ نہیں کہا اور سب کچھ کیا ‘ اپنے جانور کی قربانی کر لی اور اپنے حجام کو بلوایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مونڈے۔ جب صحابہ نے دیکھا تو وہ بھی ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے ‘ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رنج و غم میں ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (مکہ سے) چند مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا «يا أيها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن» اے لوگو! جو ایمان لا چکے ہو جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کا امتحان لے «بعصم الكوافر» تک۔ اس دن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں کو طلاق دی جو اب تک مسلمان نہ ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک نے تو معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے نکاح کر لیا تھا اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو قریش کے ایک فرد ابوبصیر رضی اللہ عنہ (مکہ سے فرار ہو کر) حاضر ہوئے۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے۔ قریش نے انہیں واپس لینے کے لیے دو آدمیوں کو بھیجا اور انہوں نے آ کر کہا کہ ہمارے ساتھ آپ کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا۔ قریش کے دونوں افراد جب انہیں واپس لے کر لوٹے اور ذوالحلیفہ پہنچے تو کھجور کھانے کے لیے اترے جو ان کے ساتھ تھی۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک سے فرمایا قسم اللہ کی تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ دوسرے ساتھی نے تلوار نیام سے نکال دی۔ اس شخص نے کہا ہاں اللہ کی قسم نہایت عمدہ تلوار ہے ‘ میں اس کا بارہا تجربہ کر چکا ہوں۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ اس پر بولے کہ ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ اور اس طرح اپنے قبضہ میں کر لیا پھر اس شخص نے تلوار کے مالک کو ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کا دوسرا ساتھی بھاگ کر مدینہ آیا اور مسجد میں دوڑتا ہوا۔ داخل ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو فرمایا یہ شخص کچھ خوف زدہ معلوم ہوتا ہے۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو کہنے لگا اللہ کی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا (اگر آپ لوگوں نے ابوبصیر کو نہ روکا) اتنے میں ابوبصیر بھی آ گئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی! اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کر دی ‘ آپ مجھے ان کے حوالے کر چکے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تیری ماں کی خرابی) اگر اس کا کوئی ایک بھی مددگار ہوتا تو پھر لڑائی کے شعلے بھڑک اٹھتے۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر کفار کے حوالے کر دیں گے اس لیے وہاں سے نکل گئے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اپنے گھر والوں (مکہ سے) چھوٹ کر ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ بھی ابوبصیر رضی اللہ عنہ سے جا ملے اور اب یہ حال تھا کہ قریش کا جو شخص بھی اسلام لاتا (بجائے مدینہ آنے کے) ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے یہاں (ساحل سمندر پر) چلا جاتا۔ اس طرح سے ایک جماعت بن گئی اور اللہ گواہ ہے یہ لوگ قریش کے جس قافلے کے متعلق بھی سن لیتے کہ وہ شام جا رہا ہے تو اسے راستے ہی میں روک کر لوٹ لیتے اور قافلہ والوں کو قتل کر دیتے۔ اب قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں اللہ اور رحم کا واسطہ دے کر درخواست بھیجی کہ آپ کسی کو بھیجیں (ابوبصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے یہاں کہ وہ قریش کی ایذا سے رک جائیں) اور اس کے بعد جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں جائے گا (مکہ سے) اسے امن ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں اپنا آدمی بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم ببطن مكة من بعد أن أظفركم عليهم» ”اور وہ ذات پروردگار جس نے روک دیا تھا تمہارے ہاتھوں کو ان سے اور ان کے ہاتھوں کو تم سے (یعنی جنگ نہیں ہو سکی تھی) وادی مکہ میں (حدیبیہ میں) بعد میں اس کے کہ تم کو غالب کر دیا تھا ان پر یہاں تک کہ بات جاہلیت کے دور کی بے جا حمایت تک پہنچ گئی تھی)۔“ ان کی حمیت (جاہلیت) یہ تھی کہ انہوں نے (معاہدے میں بھی) آپ کے لیے اللہ کے نبی ہونے کا اقرار نہیں کیا اسی طرح انہوں نے «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں لکھنے دیا اور آپ بیت اللہ جانے سے مانع بنے۔
Narrated Al-Miswar bin Makhrama and Marwan: (whose narrations attest each other) Allah's Apostle set out at the time of Al-Hudaibiya (treaty), and when they proceeded for a distance, he said, "Khalid bin Al-Walid leading the cavalry of Quraish constituting the front of the army, is at a place called Al-Ghamim, so take the way on the right." By Allah, Khalid did not perceive the arrival of the Muslims till the dust arising from the march of the Muslim army reached him, and then he turned back hurriedly to inform Quraish. The Prophet went on advancing till he reached the Thaniya (i.e. a mountainous way) through which one would go to them (i.e. people of Quraish). The she-camel of the Prophet sat down. The people tried their best to cause the she-camel to get up but in vain, so they said, "Al-Qaswa' (i.e. the she-camel's name) has become stubborn! Al-Qaswa' has become stubborn!" The Prophet said, "Al-Qaswa' has not become stubborn, for stubbornness is not her habit, but she was stopped by Him Who stopped the elephant." Then he said, "By the Name of Him in Whose Hands my soul is, if they (i.e. the Quraish infidels) ask me anything which will respect the ordinances of Allah, I will grant it to them." The Prophet then rebuked the she-camel and she got up. The Prophet changed his way till he dismounted at the farthest end of Al-Hudaibiya at a pit (i.e. well) containing a little water which the people used in small amounts, and in a short while the people used up all its water and complained to Allah's Apostle; of thirst. The Prophet took an arrow out of his arrow-case and ordered them to put the arrow in that pit. By Allah, the water started and continued sprouting out till all the people quenched their thirst and returned with satisfaction. While they were still in that state, Budail bin Warqa-al- Khuza`i came with some persons from his tribe Khuza`a and they were the advisers of Allah's Apostle who would keep no secret from him and were from the people of Tihama. Budail said, "I left Ka`b bin Luai and 'Amir bin Luai residing at the profuse water of Al-Hudaibiya and they had milch camels (or their women and children) with them, and will wage war against you, and will prevent you from visiting the Ka`ba." Allah's Apostle said, "We have not come to fight anyone, but to perform the `Umra. No doubt, the war has weakened Quraish and they have suffered great losses, so if they wish, I will conclude a truce with them, during which they should refrain from interfering between me and the people (i.e. the 'Arab infidels other than Quraish), and if I have victory over those infidels, Quraish will have the option to embrace Islam as the other people do, if they wish; they will at least get strong enough to fight. But if they do not accept the truce, by Allah in Whose Hands my life is, I will fight with them defending my Cause till I get killed, but (I am sure) Allah will definitely make His Cause victorious." Budail said, "I will inform them of what you have said." So, he set off till he reached Quraish and said, "We have come from that man (i.e. Muhammad) whom we heard saying something which we will disclose to you if you should like." Some of the fools among Quraish shouted that they were not in need of this information, but the wiser among them said, "Relate what you heard him saying." Budail said, "I heard him saying so-and-so," relating what the Prophet had told him. `Urwa bin Mas`ud got up and said, "O people! Aren't you the sons? They said, "Yes." He added, "Am I not the father?" They said, "Yes." He said, "Do you mistrust me?" They said, "No." He said, "Don't you know that I invited the people of `Ukaz for your help, and when they refused I brought my relatives and children and those who obeyed me (to help you)?" They said, "Yes." He said, "Well, this man (i.e. the Prophet) has offered you a reasonable proposal, you'd better accept it and allow me to meet him." They said, "You may meet him." So, he went to the Prophet and started talking to him. The Prophet told him almost the same as he had told Budail. Then `Urwa said, "O Muhammad! Won't you feel any scruple in extirpating your relations? Have you ever heard of anyone amongst the Arabs extirpating his relatives before you? On the other hand, if the reverse should happen, (nobody will aid you, for) by Allah, I do not see (with you) dignified people, but people from various tribes who would run away leaving you alone." Hearing that, Abu Bakr abused him and said, "Do you say we would run and leave the Prophet alone?" `Urwa said, "Who is that man?" They said, "He is Abu Bakr." `Urwa said to Abu Bakr, "By Him in Whose Hands my life is, were it not for the favor which you did to me and which I did not compensate, I would retort on you." `Urwa kept on talking to the Prophet and seizing the Prophet's beard as he was talking while Al-Mughira bin Shu`ba was standing near the head of the Prophet, holding a sword and wearing a helmet. Whenever `Urwa stretched his hand towards the beard of the Prophet, Al-Mughira would hit his hand with the handle of the sword and say (to `Urwa), "Remove your hand from the beard of Allah's Apostle." `Urwa raised his head and asked, "Who is that?" The people said, "He is Al-Mughira bin Shu`ba." `Urwa said, "O treacherous! Am I not doing my best to prevent evil consequences of your treachery?" Before embracing Islam Al-Mughira was in the company of some people. He killed them and took their property and came (to Medina) to embrace Islam. The Prophet said (to him, "As regards your Islam, I accept it, but as for the property I do not take anything of it. (As it was taken through treason). `Urwa then started looking at the Companions of the Prophet. By Allah, whenever Allah's Apostle spat, the spittle would fall in the hand of one of them (i.e. the Prophet's companions) who would rub it on his face and skin; if he ordered them they would carry his orders immediately; if he performed ablution, they would struggle to take the remaining water; and when they spoke to him, they would lower their voices and would not look at his face constantly out of respect. `Urwa returned to his people and said, "O people! By Allah, I have been to the kings and to Caesar, Khosrau and An- Najashi, yet I have never seen any of them respected by his courtiers as much as Muhammad is respected by his companions. By Allah, if he spat, the spittle would fall in the hand of one of them (i.e. the Prophet's companions) who would rub it on his face and skin; if he ordered them, they would carry out his order immediately; if he performed ablution, they would struggle to take the remaining water; and when they spoke, they would lower their voices and would not look at his face constantly out of respect." `Urwa added, "No doubt, he has presented to you a good reasonable offer, so please accept it." A man from the tribe of Bani Kinana said, "Allow me to go to him," and they allowed him, and when he approached the Prophet and his companions, Allah's Apostle said, "He is so-and-so who belongs to the tribe that respects the Budn (i.e. camels of the sacrifice). So, bring the Budn in front of him." So, the Budn were brought before him and the people received him while they were reciting Talbiya. When he saw that scene, he said, "Glorified be Allah! It is not fair to prevent these people from visiting the Ka`ba." When he returned to his people, he said, 'I saw the Budn garlanded (with colored knotted ropes) and marked (with stabs on their backs). I do not think it is advisable to prevent them from visiting the Ka`ba." Another person called Mikraz bin Hafs got up and sought their permission to go to Muhammad, and they allowed him, too. When he approached the Muslims, the Prophet said, "Here is Mikraz and he is a vicious man." Mikraz started talking to the Prophet and as he was talking, Suhail bin `Amr came. When Suhail bin `Amr came, the Prophet said, "Now the matter has become easy." Suhail said to the Prophet "Please conclude a peace treaty with us." So, the Prophet called the clerk and said to him, "Write: By the Name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful." Suhail said, "As for 'Beneficent,' by Allah, I do not know what it means. So write: By Your Name O Allah, as you used to write previously." The Muslims said, "By Allah, we will not write except: By the Name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful." The Prophet said, "Write: By Your Name O Allah." Then he dictated, "This is the peace treaty which Muhammad, Allah's Apostle has concluded." Suhail said, "By Allah, if we knew that you are Allah's Apostle we would not prevent you from visiting the Ka`ba, and would not fight with you. So, write: "Muhammad bin `Abdullah." The Prophet said, "By Allah! I am Apostle of Allah even if you people do not believe me. Write: Muhammad bin `Abdullah." (Az-Zuhri said, "The Prophet accepted all those things, as he had already said that he would accept everything they would demand if it respects the ordinance of Allah, (i.e. by letting him and his companions perform `Umra.)" The Prophet said to Suhail, "On the condition that you allow us to visit the House (i.e. Ka`ba) so that we may perform Tawaf around it." Suhail said, "By Allah, we will not (allow you this year) so as not to give chance to the 'Arabs to say that we have yielded to you, but we will allow you next year." So, the Prophet got that written. Then Suhail said, "We also stipulate that you should return to us whoever comes to you from us, even if he embraced your religion." The Muslims said, "Glorified be Allah! How will such a person be returned to the pagans after he has become a Muslim? While they were in this state Abu- Jandal bin Suhail bin `Amr came from the valley of Mecca staggering with his fetters and fell down amongst the Muslims. Suhail said, "O Muhammad! This is the very first term with which we make peace with you, i.e. you shall return Abu Jandal to me." The Prophet said, "The peace treaty has not been written yet." Suhail said, "I will never allow you to keep him." The Prophet said, "Yes, do." He said, "I won't do.: Mikraz said, "We allow you (to keep him)." Abu Jandal said, "O Muslims! Will I be returned to the pagans though I have come as a Muslim? Don't you see how much I have suffered?" (continued...) (continuing... 1): -3.891:... ... Abu Jandal had been tortured severely for the Cause of Allah. `Umar bin Al-Khattab said, "I went to the Prophet and said, 'Aren't you truly the Apostle of Allah?' The Prophet said, 'Yes, indeed.' I said, 'Isn't our Cause just and the cause of the enemy unjust?' He said, 'Yes.' I said, 'Then why should we be humble in our religion?' He said, 'I am Allah's Apostle and I do not disobey Him, and He will make me victorious.' I said, 'Didn't you tell us that we would go to the Ka`ba and perform Tawaf around it?' He said, 'Yes, but did I tell you that we would visit the Ka`ba this year?' I said, 'No.' He said, 'So you will visit it and perform Tawaf around it?' " `Umar further said, "I went to Abu Bakr and said, 'O Abu Bakr! Isn't he truly Allah's Prophet?' He replied, 'Yes.' I said, 'Then why should we be humble in our religion?' He said, 'Indeed, he is Allah's Apostle and he does not disobey his Lord, and He will make him victorious. Adhere to him as, by Allah, he is on the right.' I said, 'Was he not telling us that we would go to the Ka`ba and perform Tawaf around it?' He said, 'Yes, but did he tell you that you would go to the Ka`ba this year?' I said, 'No.' He said, "You will go to Ka`ba and perform Tawaf around it." (Az-Zuhri said, " `Umar said, 'I performed many good deeds as expiation for the improper questions I asked them.' ") When the writing of the peace treaty was concluded, Allah's Apostle said to his companions, "Get up and' slaughter your sacrifices and get your head shaved." By Allah none of them got up, and the Prophet repeated his order thrice. When none of them got up, he left them and went to Um Salama and told her of the people's attitudes towards him. Um Salama said, "O the Prophet of Allah! Do you want your order to be carried out? Go out and don't say a word to anybody till you have slaughtered your sacrifice and call your barber to shave your head." So, the Prophet went out and did not talk to anyone of them till he did that, i.e. slaughtered the sacrifice and called his barber who shaved his head. Seeing that, the companions of the Prophet got up, slaughtered their sacrifices, and started shaving the heads of one another, and there was so much rush that there was a danger of killing each other. Then some believing women came (to the Prophet ); and Allah revealed the following Divine Verses:-- "O you who believe, when the believing women come to you as emigrants examine them . . ." (60.10) `Umar then divorced two wives of his who were infidels. Later on Muawiya bin Abu Sufyan married one of them, and Safwan bin Umaiya married the other. When the Prophet returned to Medina, Abu Basir, a new Muslim convert from Quraish came to him. The Infidels sent in his pursuit two men who said (to the Prophet ), "Abide by the promise you gave us." So, the Prophet handed him over to them. They took him out (of the City) till they reached Dhul-Hulaifa where they dismounted to eat some dates they had with them. Abu Basir said to one of them, "By Allah, O so-and-so, I see you have a fine sword." The other drew it out (of the scabbard) and said, "By Allah, it is very fine and I have tried it many times." Abu Basir said, "Let me have a look at it." When the other gave it to him, he hit him with it till he died, and his companion ran away till he came to Medina and entered the Mosque running. When Allah's Apostle saw him he said, "This man appears to have been frightened." When he reached the Prophet he said, "My companion has been murdered and I would have been murdered too." Abu Basir came and said, "O Allah's Apostle, by Allah, Allah has made you fulfill your obligations by your returning me to them (i.e. the Infidels), but Allah has saved me from them." The Prophet said, "Woe to his mother! what excellent war kindler he would be, should he only have supporters." When Abu Basir heard that he understood that the Prophet would return him to them again, so he set off till he reached the seashore. Abu Jandal bin Suhail got himself released from them (i.e. infidels) and joined Abu Basir. So, whenever a man from Quraish embraced Islam he would follow Abu Basir till they formed a strong group. By Allah, whenever they heard about a caravan of Quraish heading towards Sham, they stopped it and attacked and killed them (i.e. infidels) and took their properties. The people of Quraish sent a message to the Prophet requesting him for the Sake of Allah and Kith and kin to send for (i.e. Abu Basir and his companions) promising that whoever (amongst them) came to the Prophet would be secure. So the Prophet sent for them (i.e. Abu Basir's companions) and Allah I revealed the following Divine Verses: "And it is He Who Has withheld their hands from you and your hands From them in the midst of Mecca, After He made you the victorious over them. ... the unbelievers had pride and haughtiness, in their hearts ... the pride and haughtiness of the time of ignorance." (48.24-26) And their pride and haughtiness was that they did not confess (write in the treaty) that he (i.e. Muhammad) was the Prophet of Allah and refused to write: "In the Name of Allah, the most Beneficent, the Most Merciful," and they (the mushriks) prevented them (the Muslims) from visiting the House (the Ka`bah).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 891