(مرفوع) حدثنا مالك بن إسماعيل، حدثنا سفيان، عن الزهري، حدثني عبيد الله، سمعت ابا هريرة رضي الله عنه، وزيد بن خالد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا زنت الامة فاجلدوها، ثم إذا زنت فاجلدوها، ثم إذا زنت فاجلدوها في الثالثة او الرابعة بيعوها ولو بضفير".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَزَيْدَ بْنَ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا زَنَتِ الْأَمَةُ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ بِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا زہری سے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا، کہا میں نے ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب باندی زنا کرائے تو اسے (بطور حد شرعی) کوڑے لگاؤ پھر اگر کرئے تو اسے کوڑے لگاؤ تیسری یا چوتھی بار میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) پھر اسے بیچ دو، خواہ قیمت میں ایک رسی ہی ملے۔“
Narrated Abu Huraira and Zaid bin Khalid: The Prophet said, "If a slave-girl (Ama) commits illegal sexual intercourse, scourge her; if she does it again, scourge her again; if she repeats it, scourge her again." The narrator added that on the third or the fourth offense, the Prophet said, "Sell her even for a hair rope."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 731
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2555
حدیث حاشیہ: اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں لونڈی کے لیے أمة کا لفظ فرمایا ہے۔ قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث کے لانے سے یہ مقصود ہے کہ جب لونڈی زنا کرائے تو اس پر دست درازی منع نہیں ہے بلکہ اس کو سزا دینا ضروری ہے آخر میں راوی کا شک ہے کہ آپ نے تیسری بار میں بیچنے کا حکم فرمایا یا چوتھی بار میں۔ ان جملہ روایات کو نقل کرکے حضرت امام ؒ نے ثابت فرمایا کہ مالکوں کو غلاموں اور لونڈیوں پر بڑائی نہ جتانی چاہئے۔ انسان ہونے کے ناطے سب برابر ہیں۔ شرافت اور بڑائی کی بنیاد ایمان اور تقویٰ ہے۔ حقیقی آقا حاکم مالک سب کا صرف اللہ تبارک و تعالی ہے۔ دنیاوی مالک آقا سب مجازی ہیں۔ آج ہیں اور کل نہیں۔ جن آیات اور احادیث میں ایسے الفاظ آقاؤں یا غلاموں کے لیے مستعمل ہوئے ہیں وہاں مجازی معانی مراد ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2555
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2555
حدیث حاشیہ: (1) ان روایات میں غلام کے لیے لفظ عبد، لونڈی کے لیے أمة اور آقا کے لیے لفظ سید استعمال ہوا ہے، اس طرح مجازی معنوں میں ان الفاظ کا استعمال درست ہے۔ جب حقیقی معنی مراد لیے جائیں تو ان کا استعمال ایسے مواقع پر صحیح نہیں۔ مختلف احادیث میں تطبیق کی یہی صورت ہے جسے امام المحدثین نے بیان کیا ہے، نیز انہوں نے ثابت کیا ہے کہ آقاؤں کو اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر قطعاً بڑائی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ انسان ہونے کے ناتے سے سب برابر اور حضرت آدم ؑ کی اولاد ہیں، شرافت اور بڑائی، نیز عزت و تکریم کی بنیاد تقویٰ اور پرہیزگاری ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی صراحت کی ہے۔ (2) حقیقی آقا اور حاکم و مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ دنیاوی مالک اور آقا سب مجازی ہیں، آج ہیں تو کل فنا ہو جائیں گے۔ جن آیات اور احادیث میں ایسے الفاظ آقاؤں یا غلاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں، وہاں مجازی معنی مراد ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2555