الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
The Book of Al-Mazalim
22. بَابُ أَفْنِيَةِ الدُّورِ وَالْجُلُوسِ فِيهَا وَالْجُلُوسِ عَلَى الصُّعُدَاتِ:
22. باب: گھروں کے صحن کا بیان اور ان میں بیٹھنا اور راستوں میں بیٹھنا۔
(22) Chapter. What is said about the open courtyards of houses and sitting in them, and sitting on the ways.
حدیث نمبر: Q2465
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقالت عائشة: فابتنى ابو بكر مسجدا بفناء داره يصلي فيه ويقرا القرآن، فيتقصف عليه نساء المشركين وابناؤهم يعجبون منه، والنبي صلى الله عليه وسلم يومئذ بمكة.وَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَابْتَنَى أَبُو بَكْرٍ مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ يُصَلِّي فِيهِ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَيَتَقَصَّفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ الْمُشْرِكِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ يَعْجَبُونَ مِنْهُ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ.
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنائی، جس میں وہ نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ مشرکوں کی عورتوں اور بچوں کی وہاں بھیڑ لگ جاتی اور سب بہت متعجب ہوتے۔ ان دنوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام مکہ میں تھا۔

حدیث نمبر: 2465
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا ابو عمر حفص بن ميسرة، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إياكم والجلوس على الطرقات، فقالوا: ما لنا بد، إنما هي مجالسنا نتحدث فيها، قال: فإذا ابيتم إلا المجالس فاعطوا الطريق حقها، قالوا: وما حق الطريق؟ قال: غض البصر، وكف الاذى، ورد السلام، وامر بالمعروف، ونهي عن المنكر".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ عَلَى الطُّرُقَاتِ، فَقَالُوا: مَا لَنَا بُدٌّ، إِنَّمَا هِيَ مَجَالِسُنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا، قَالَ: فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجَالِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهَا، قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ؟ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ، وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْكَرِ".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا، اور ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم تو وہاں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ وہی ہمارے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے کہ جہاں ہم باتیں کرتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہاں بیٹھنے کی مجبوری ہی ہے تو راستے کا حق بھی ادا کرو۔ صحابہ نے پوچھا اور راستے کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نگاہ نیچی رکھنا، کسی کو ایذاء دینے سے بچنا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: The Prophet said, "Beware! Avoid sitting on he roads (ways)." The people said, "There is no way out of it as these are our sitting places where we have talks." The Prophet said, "If you must sit there, then observe the rights of the way." They asked, "What are the rights of the way?" He said, "They are the lowering of your gazes (on seeing what is illegal to look at), refraining from harming people, returning greetings, advocating good and forbidding evil."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 43, Number 645


   صحيح البخاري6229سعد بن مالكإياكم والجلوس بالطرقات إذ أبيتم إلا المجلس فأعطوا الطريق حقه قالوا وما حق الطريق قال غض البصر وكف الأذى ورد السلام والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر
   صحيح البخاري2465سعد بن مالكإياكم والجلوس على الطرقات إذا أبيتم إلا المجالس فأعطوا الطريق حقها قالوا وما حق الطريق قال غض البصر وكف الأذى ورد السلام وأمر بالمعروف ونهي عن المنكر
   صحيح مسلم5648سعد بن مالكإياكم والجلوس بالطرقات إذا أبيتم إلا المجلس فأعطوا الطريق حقه قالوا وما حقه قال غض البصر وكف الأذى ورد السلام والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر
   صحيح مسلم5563سعد بن مالكإياكم والجلوس في الطرقات إذا أبيتم إلا المجلس فأعطوا الطريق حقه قالوا وما حقه قال غض البصر وكف الأذى ورد السلام والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر
   بلوغ المرام1316سعد بن مالك إياكم والجلوس بالطرقات
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2465 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2465  
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ نے بحر طویل میں آداب الطریق کو یوں نظم فرمایا ہے:
جمعت آداب من رام الجلوس علی الطریق من قول خیر الخلق إنسانا أفش السلام و أحسن في الکلام و شمت عاطسا و سلاما رد إحسانا في الحمل عاون و مظلوما أعن و أغث لهفان و اهد سبیلا و اهد حیرانا بالعرف مر و انه من أنکر و کف أذی و غض طرفا و أکثر ذکر مولانا یعنی احادیث نبوی سے میں نے اس شخص کے لیے آداب الطریق جمع کیا ہے جو راستوں میں بیٹھنے کا قصد کرے، سلام کا جواب دو، اچھا کلام کرو، چھینکنے والے کو اس کے الحمد للہ کہنے پر یرحمك اللہ سے دعا دو، احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرو، بوجھ والوں کو بوجھ اٹھانے میں مدد کرو، مظلوم کی اعانت کرو، پریشان حال کی فریاد سنو، مسلمانوں، بھولے بھٹکے لوگوں کی رہنمائی کرو، نیک کاموں کا حکم کرو، بری باتوں سے روکو اور کسی کو ایذا دینے سے رک جاؤ اور آنکھیں نیچی کئے رہو اور ہمارے رب تبارک و تعالیٰ کی بکثرت یاد کرتے رہا کرو جو ان حقوق کو ادا کرے اس کے لیے راستوں پر بیٹھنا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2465   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2465  
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت کے مطابق نابینے شخص کو راستے پر لگانا، چھینک کا جواب دینا اور کمزور ناتواں کی مدد کرنا بھی راستے کے حقوق میں شامل ہے۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4817،4816)
معلوم ہوا کہ گھروں سے باہر چوپال میں بیٹھنا حرام نہیں، ممانعت صرف اس لیے ہے کہ عوام کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔
(2)
اس سے برائی کی راہ کا سدِباب مقصود ہے، اس بنا پر لوگوں کو بیٹھنے کے لیے ایسی مجالس اختیار کرنی چاہئیں جہاں مکروہ اور ناپسندیدہ امور نہ دیکھیں اور ایسی باتیں نہ سنیں جن کا سننا شرعاً ممنوع ہے۔
دوکانوں کے سامنے ٹی وی دیکھنے، گانے سنے کے لیے بیٹھنا حرام ہے۔
شرعی حدود میں رہتے ہوئے ان دوکانوں سے فائدہ لیا جا سکتا ہے لیکن اگر عوام کو نقصان ہو یا غیر شرعی امور سے واسطہ پڑتا ہو تو وہاں بیٹھنا جائز نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2465   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1316  
´مکارم اخلاق (اچھے عمدہ اخلاق) کی ترغیب کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راستوں (اور گلی کوچوں) میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، راستوں پر بیٹھے بغیر ہمارا گزارہ نہیں کیونکہ ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس اگر تم نہیں مانتے تو راستہ کا حق ادا کرو۔ انہوں نے عرض کیا اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا آنکھوں کو نیچے رکھنا۔ اذیت رسانی نہ کرنا اور سلام کا جواب دینا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1316»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستئذان، باب قول الله تعالي: "يأيها الذين آمنوا لا تدخلوا..."، حديث:6229، ومسلم، الباس والزينة، باب النهي عن الجلوس في الطرقات...،حديث:2121.»
تشریح:
1. اس حدیث سے راستوں میں‘ جہاں سے لوگ گزرتے ہوں‘ بیٹھنے اور قصہ گوئی کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔
2.گلی کوچوں میں بیٹھنا اور راہ چلنے والوں کے لیے راستہ تنگ کرنا کون سی شرافت ہے۔
راستوں پر خواتین کا آنا جانا بھی رہتا ہے۔
لامحالہ ان کے لیے مشکل پیدا ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ٹریفک کے مسائل ہیں۔
اگر راستے پر بیٹھنا مجبوری ہو تو پھر اس کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1316   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5563  
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، ہمیں اپنی ایسی مجلسوں میں بیٹھے بغیر چارہ نہیں۔ جہاں ہم ان میں باہمی گفتگو کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں بیٹھنے پر اصرار ہے تو راستے کا حق ادا کرو۔ انہوں نے پوچھا، اس کا حق کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: نظر نیچی رکھنا، تکلیف دینے سے باز رہنا، سلام کا جواب دینا، اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5563]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپﷺ نے سد ذریعہ یعنی مفاسد سے تحفظ اور بچاؤ کے لیے راستوں پر بیٹھنے سے صحابہ کرام کو منع فرمایا،
لیکن جب انہوں نے اپنا عذر پیش کیا کہ باہمی گفتگو کے لیے ہمارے پاس کوئی اور جگہ نہیں ہے تو پھر آپ نے راستہ پر بیٹھنے کے آداب بتائے،
جن کی تعداد چودہ ہے،
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کو نظم میں بیان کیا ہے۔
افش السلام،
احسن فی الكلام،
وشمت عاطسا،
سلاما رد احسانا فی الحمل عاون،
ومظلوما أعِن واغِث،
لهفان،
اِهدِ سبيلا،
واهد جيرانابالعرف مُر،
وانه عن نكر وكفِ اذی،
وغضِ طرفا،
واكثر ذكر مولانا سلام کو عام کر،
اچھی گفتگو کر،
چھینکنے والے کو دعا دے اور سلام کا بہتر طور پر جواب دے۔
بوجھ اٹھانے میں مدد کر،
مظلوم کا تعاون کر،
محتاج و ضرورت مند کی فریاد رسی کر،
راستہ بتا اور ساتھیوں کو تحفہ دےنیکی کی تلقین کر،
برائی سے روک،
تکلیف دینے سے باز رہ،
نظر نیچی رکھ اور اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کر امام نووی،
تکلیف دینے سے باز رہے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
غیبت،
بدظنی،
گزرنے والوں میں سے کسی کو حقیر سمجھنا،
راستہ کو تنگ کرنا،
اس میں داخل ہے،
اس طرح اگر بیٹھنے والوں سے گزرنے والے مرعوب ہوتے ہیں،
یا ان سے خوف زدہ ہوں اور اپنے کام کاج کے لیے خوف کی وجہ سے گزر نہ سکتے ہوں،
حالانکہ گزرگاہ یہی ہے تو یہ بھی تکلیف دہ بات ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5563   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6229  
6229. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تم خود کو راستوں پر بیٹھنے سے دور رکھو۔ صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے راستوں میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ہم وہاں روز مرہ کی گفتگو کیا کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھا جب تم ان مجالس میں بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: (غیر محرم سے) نظر جھکائے رکھنا، (لوگوں کی) اذیت رسانی سے باز رہنا، سلام کا جواب دینا، اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6229]
حدیث حاشیہ:
(1)
انسان کی یہ فطرت ہے کہ جب وہ کھانے پینے کی پسندیدہ چیز دیکھتا ہے تو اسے کھانے کی اس میں خواہش پیدا ہوتی ہے، اسی طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو دیکھنے سے شہوانی تقاضا پیدا ہو جاتا ہے یا کم از کم انسان اس وقت بے چینی میں ضرور مبتلا ہو جاتا ہے، اس لیے ایسے حالات میں بندۂ مسلم کو نگاہ بچا کر رکھنے کا حکم ہے۔
قرآن مجید میں عورتوں اور مردوں کو الگ الگ نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اگر کسی کی اچانک نظر پڑ جائے تو نگاہیں دوسری جانب پھیر لینے کا حکم ہے، چنانچہ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ادھر سے نگاہیں دوسری طرف پھیر لوں۔
'' (مسند أحمد: 4/358)
کسی کے گھر میں تاک جھانک کرنا اتنا شدید جرم ہے کہ اگر صاحب خانہ اس جرم کی پاداش میں کسی بھی چیز سے نظر باز کی آنکھ پھوڑ دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔
(مسند أحمد: 181/5) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دیگر روایات کے پیش نظر چودہ امور کی نشاندہی کی ہے جو راستے کے حقوق سے متعلق ہیں، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ نگاہیں نیچی رکھنا۔
٭ دوسروں کو تکلیف دینے سے باز رہنا۔
٭ سلام کا جواب دینا۔
٭ بھلے کاموں کا حکم دینا۔
٭ برے کاموں سے روکنا۔
٭ پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا۔
٭ بھٹکے مسافر کو راستہ بتانا۔
٭ چھینک کا جواب دینا۔
٭ مظلوم کی مدد کرنا۔
٭ سلام کو عام کرنا۔
٭ بوجھ اٹھانے والے کا ہاتھ بٹانا۔
٭ اچھی گفتگو کرنا۔
٭ بکثرت ذکر الٰہی میں مصروف رہنا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان امور کو تین عربی ابیات میں جمع کیا ہے۔
(فتح الباري: 16/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6229   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.