وقول الله تعالى: والله لا يحب الفساد سورة البقرة آية 205، و لا يصلح عمل المفسدين سورة يونس آية 81، وقال في قوله: اصلاتك تامرك ان نترك ما يعبد آباؤنا او ان نفعل في اموالنا ما نشاء سورة هود آية 87، وقال: ولا تؤتوا السفهاء اموالكم سورة النساء آية 5، والحجر في ذلك، وما ينهى عن الخداع.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَاللَّهُ لا يُحِبُّ الْفَسَادَ سورة البقرة آية 205، وَ لا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ سورة يونس آية 81، وَقَالَ فِي قَوْلِهِ: أَصَلاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ سورة هود آية 87، وَقَالَ: وَلا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ سورة النساء آية 5، وَالْحَجْرِ فِي ذَلِكَ، وَمَا يُنْهَى عَنِ الْخِدَاعِ.
urdu-sanad اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا کہ «والله لا يحب الفساد»”اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔“ اور (اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ یونس میں کہ) «لا يصلح عمل المفسدين»”اور اللہ فسادیوں کا منصوبہ چلنے نہیں دیتا۔“ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ ہود میں) فرمایا ہے «أصلواتك تأمرك أن نترك ما يعبد آباؤنا أو أن نفعل في أموالنا ما نشاء» ”کیا تمہاری نماز تمہیں یہ بتاتی ہے کہ جسے ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ہم ان بتوں کو چھوڑ دیں۔ یا اپنے مال میں اپنی طبیعت کے مطابق تصرف کرنا چھوڑ دیں۔“ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) ارشاد فرمایا «ولا تؤتوا السفهاء أموالكم»”اپنا روپیہ بے وقوفوں کے ہاتھ میں مت دو اور بے وقوفی کی حالت میں حجر کرنا اور دھوکہ سے منع کرنا۔“
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن عبد الله بن دينار، قال: سمعت ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم:" إني اخدع في البيوع، فقال: إذا بايعت فقل لا خلابة"، فكان الرجل يقوله.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي أُخْدَعُ فِي الْبُيُوعِ، فَقَالَ: إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ"، فَكَانَ الرَّجُلُ يَقُولُهُ.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے عرض کیا کہ خرید و فروخت میں مجھے دھوکا دے دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب خرید و فروخت کیا کرو، تو کہہ دیا کر کہ کوئی دھوکا نہ ہو۔ چنانچہ پھر وہ شخص اسی طرح کہا کرتا تھا۔
Narrated Ibn `Umar: A man came to the Prophet and said, "I am often betrayed in bargaining." The Prophet advised him, "When you buy something, say (to the seller), 'No deception." The man used to say so afterwards.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 590
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2407
حدیث حاشیہ: ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے اور مجھ کو تین دن تک اختیارہے۔ یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ یہاں باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مال کو تباہ کرنا برا جانا۔ ا س لیے اس کو یہ حکم دیا کہ بیع کے وقت یوں کہا کرو، دھوکا فریب کا کام نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2407
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2407
حدیث حاشیہ: (1) "لا خلابة" کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی دھوکا ثابت ہوا تو مال واپس کر دیا جائے گا۔ (2) عنوان سے اس حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال ضائع کرنے اور اسے تباہ کرنے کو برا خیال فرمایا، اس لیے اسے حکم دیا کہ وہ خریدوفروخت کے وقت کہہ دیا کرے کہ اس معاملے میں دھوکا فریب نہیں ہو گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2407
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 509
´خرید و فروخت کے وقت دھوکا ہونے کی صورت میں کیا کہے` «. . . 288- وبه: أن رجلا ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم أنه يخدع فى البيوع، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إذا بايعت فقل: لا خلابة“ فكان الرجل إذا بايع يقول: لا خلابة. . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کا ذکر کیا گیا جس کے ساتھ خرید و فروخت میں دھوکا کیا جاتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”جب تم کوئی چیز بیچو تو کہو، کوئی دھوکا نہیں ہے“، پھر وہ آدمی جب کوئی چیز بیچتا تو کہتا: کوئی دھوکا نہیں ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 509]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2117، 6964، من حديث مالك، ومسلم 1533، من حديث عبدالله بن دينار به] تفقه: ➊ سودا کرتے وقت اگر کوئی کہہ دے کہ ”کوئی دھوکا نہیں ہے“ اور بعد میں ثابت ہوجائے کہ اسے دھوکا دیا گیا ہے تو وہ سودا واپس کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ ➋ جس شخص کا اس حدیث میں ذکر ہے وہ سیدنا منقذ بن حبان رضی اللہ عنہ تھے۔ ➌ اسلام ہر شخص کے لئے خیر خواہی کا نام ہے۔ ➍ فریقین کی مرضی سے خرید و فروخت حلال ہے بشرطیکہ کتاب وسنت کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو۔ ➎ مشہور تابعی سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: جب تم ایسے علاقے میں جاؤ جہاں پورا پورا ماپ تول ہوتا ہو تو اس علاقے میں لمبا عرصہ قیام کرو اور اگر تم ایسے علاقے میں جاؤ جہاں ماپ تول پورا پورا نہیں ہوتا تو وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کرو۔ [الموطأ 2/685 ح1430، وسنده صحيح] ➏ امام محمد بن المنکدر (تابعی) رحمہ اللہ فرماتے تھے: اللہ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو بیچتے وقت نرمی کرتا ہے، خریدتے وقت نرمی کرتا ہے، قرض ادا کرتے وقت نرمی کرتا ہے اور قرض وصول کرتے وقت بھی نرمی کرتا ہے۔ [الموطأ 2/685 ح1431، وسنده صحيح] ➐ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے پوچھا: گیا: ایک شخص (کسی سے) ایک جانور کرائے پر لیتا ہے اور پھر اس سے زیادہ کرائے پر کسی کو دے دیتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [الموطأ 2/686 ح432 وسنده صحيح]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 288
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 694
´بیع میں اختیار کا بیان` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے ذکر کیا کہ اسے بیع میں عام طور پر دھوکہ دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سودا کرتے وقت کہہ دیا کرو کہ کوئی فریب و دھوکہ نہیں ہو گا۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 694»
تخریج: « أخرجه البخاري، البيوع، باب ما يكره من الخداع في البيع، حديث:2117، ومسلم، البيوع، باب من يخدع في البيع، حديث:1533.»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غبن فاحش کے معلوم ہونے پر خیار ثابت ہے۔ یہ رائے امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ کی ہے‘ مگر جمہور علماء اس کے قائل نہیں ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ حبان بن منقذ کو بالخصوص یہ اجازت اس لیے دی کہ ان کی عقل اور زبان میں کمزوری واقع ہوگئی تھی جیسا کہ مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔ (مسند أحمد:۳ /۲۱۷) صحیح بات یہ ہے کہ لاَ خِلاَبَۃَ کی صدا لگانا بھی اپنی جگہ ایک طرح کی شرط ہے جس سے ثابت ہورہا ہے کہ دھوکے اور فریب کی صورت میں مشتری کے لیے خیار ثابت ہے اور خیار الشرط بھی اسی کو کہتے ہیں۔ 2.آپ نے جو الفاظ ان کو تلقین فرمائے ان الفاظ کی برکت سے انھیں بعد میں کبھی دھوکا نہیں ہوتا تھا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 694
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4489
´خرید و فروخت میں دھوکہ کھا جانے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ وہ بیع میں دھوکہ کھا جاتا ہے تو آپ نے اس سے فرمایا: ”جب تم بیچو تو کہہ دیا کرو: فریب اور دھوکہ دھڑی نہ ہو، چنانچہ وہ شخص جب کوئی چیز بیچتا تو کہتا: دھوکہ دھڑی نہیں“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4489]
اردو حاشہ: سنن بیهقی (5/273) کی روایت میں ہے: ”پھر تجھے تین دن تک سودے کی واپسی کا اختیار ہو گا۔“ گویا جب سودے میں تنبیہ کر دی جائے کہ دھوکا نہیں چلے گا، یعنی دھوکا نہ کرنا، میں سادہ آدمی ہوں۔ اس کے باوجود فریق ثانی چالاکی دکھا جائے تو اس سادہ شخص کو تین دن تک واپسی کا اختیار رہے گا۔ بعض فقہاء نے یہ رعایت صرف اسی شخص سے خاص کی ہے جس سے یہ مسئلہ صادر ہوا تھا، حالانکہ اس تخصیص کی کوئی وجہ نہیں۔ کیا سادہ لوگوں کو اس دنیا میں رہنے کا حق نہیں؟ یا ان کو دھوکا دینا شرعاً جائز ہے؟ اسلام تو ایسی خود غرضی کی اجازت نہیں دیتا، لہٰذا چالاک لوگوں کی بجائے سادہ مومنوں کی حمایت کرنا چاہیے اور دھوکا دینے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے اور وہ مندرجہ بالا صورت ہی میں ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4489
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3500
´خریدار اگر یہ کہہ دے کہ بیع میں دھوکا دھڑی نہیں چلے گی تو اس کو بیع کے فسخ کا اختیار ہو گا۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ خرید و فروخت میں اسے دھوکا دے دیا جاتا ہے (تو وہ کیا کرے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”جب تم خرید و فروخت کرو، تو کہہ دیا کرو «لا خلابة»(دھوکا دھڑی کا اعتبار نہ ہو گا)“ تو وہ آدمی جب کوئی چیز بیچتا تو «لا خلابة» کہہ دیتا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3500]
فوائد ومسائل: فائدہ۔ اس شرط اور صراحت کے ساتھ اگر بعد میں واضح ہو کہ دوسرے فریق نے کوئی دھوکا دیا ہے۔ تو اسے بیع فسخ کرنے کا حق حاصل رہے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3500
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:677
677- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سیدنا منقذ رضی اللہ عنہ (یہ ایک انصاری صحابی ہیں) کو زمانہ جاہلیت میں سر میں چوٹ لگی تھی جس کے نیچے میں ان کی زبان میں لکنت آگئی تھی جب وہ کوئی سودا کرتے تھے، تو سودا کرنے کے دوران ان کے ساتھ دھوکہ ہوجاتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سودا کرتے ہوئے یہ کہو کہ دھو کہ نہیں ہوگا۔ پھر تمہیں تین دن تک اختیار ہوگا (اگر تم چاہو تو سودے کو کالعدم قراردو)“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے انہیں سودا کرتے ہوئے سنا: وہ یہ کہہ رہے تھے «لا خذابة»(یعنی لکنت کی وجہ سے وہ لام کو ذال پڑھ رہے تھے)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:677]
فائدہ: اس تنبیہ کے باوجود اگر کوئی دھوکا دیتا ہے تو سودا کر نے والے آدمی کو اختیار ہے کہ وہ تین دن تک واپس کر دے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 680
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2117
2117. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ اسے خریدوفروخت میں (اکثر) دھوکادیا جاتا ہے تو آپ نے فرمایا: ”جب تم خریدوفروخت کرو تو کہہ دیا کرو کہ مجھے دھوکا نہ ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2117]
حدیث حاشیہ: بیہقی کی روایت میں اتنا زیادہ ہے اور جو چیز خریدے اس میں تجھے تین دن تک اختیار ہوگا۔ امام احمد ؒ نے اس حدیث سے یہ حکم دیا ہے کہ اگر کسی شخص کو اسباب کی قیمت معلوم نہ ہو، اور وہ تہائی قیمت زیادہ دے یا ایک سدس تو وہ اسباب بائع کو پھیر سکتا ہے اورحنفیہ اور شافعیہ نے اس کا انکار کیا ہے۔ یہ حبان بن منقذ ؓ صحابی تھے، جنگ احد میں ان کے سر میں زخم آیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی عقل میں فتور آگیا۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2117
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6964
6964. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے کہا کہ اسے خرید وفروخت میں دھوکا دیا جاتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب وہ خرید و فروخت کرو تو کہہ دیا کرو: اس میں کوئی دھوکا نہیں ہونا چاہیئے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6964]
حدیث حاشیہ: اگر دھوکہ نکلا تو وہ مال سب کا سب واپس کرنے کا مجاز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6964
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2117
2117. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ اسے خریدوفروخت میں (اکثر) دھوکادیا جاتا ہے تو آپ نے فرمایا: ”جب تم خریدوفروخت کرو تو کہہ دیا کرو کہ مجھے دھوکا نہ ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2117]
حدیث حاشیہ: (1) یہ شخص حضرت حبان بن عنقذ ؓ تھے۔ جنگ کے دوران میں ان کے سرپر پتھر لگنے کی وجہ سے ان کی زبان اور ان کی زبان اور عقل متاثر ہوگئی تھی۔ اس بنا پر انھیں اکثر خریدوفروخت کرتے وقت نقصان ہوجاتا۔ جب انھوں نے شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ: ”جب تم کوئی چیز خریدکرو تو بائع (بیچنے والا) کے ساتھ یہ شرط کرلیا کرو کہ اس میں کسی قسم کا دھوکا نہ ہو۔ “ کیونکہ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خریدوفروخت کرتے وقت دھوکا دہی اور فریب کاری حرام ہے۔ ایک روایت میں اتنا اضافہ ہے: ”جب تو کوئی چیز خریدے تو تجھےتین دن تک اختیار ہوگا۔ “(السنن الکبریٰ للبیھقي: 273/5) اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے سے خریدار کو بیع فسخ کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ (فتح الباري: 427/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2117
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6964
6964. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے کہا کہ اسے خرید وفروخت میں دھوکا دیا جاتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب وہ خرید و فروخت کرو تو کہہ دیا کرو: اس میں کوئی دھوکا نہیں ہونا چاہیئے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6964]
حدیث حاشیہ: 1۔ (لاَخِلاَبَةَ) کے معنی یہ ہیں کہ میرے ساتھ دھوکا نہیں ہونا چاہیے، گویا وہ مشروط خرید وفروخت کرتا ہے، یعنی اگر خریدو فروخت میں دھوکا ظاہر ہوا تو یہ معاہدہ صحیح نہیں ہوگا۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر فروخت کردہ چیز کی تعریف میں مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا اور اس کی مدح سرائی میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے گئے تو یہ دھوکا دہی میں نہیں ہوگا کیونکہ ایسی چیزیں معاملات میں داخل نہیں ہوتیں۔ (فتح الباري: 421/12) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حیلہ سازی بھی دھوکے کی ایک قسم ہے اس بنا پر مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ حیلہ سازی کر کے شرعی احکام سے پہلوتہی کرے، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا مؤاخذہ ہوگا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6964