(مرفوع) وغزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم على ناضح لنا، فازحف الجمل فتخلف علي فوكزه النبي صلى الله عليه وسلم من خلفه، قال: بعنيه، ولك ظهره إلى المدينة، فلما دنونا استاذنت، قلت: يا رسول الله، إني حديث عهد بعرس، قال صلى الله عليه وسلم: فما تزوجت بكرا ام ثيبا؟ قلت: ثيبا اصيب عبد الله وترك جواري صغارا، فتزوجت ثيبا تعلمهن وتؤدبهن، ثم قال: ائت اهلك، فقدمت، فاخبرت خالي ببيع الجمل فلامني، فاخبرته بإعياء الجمل وبالذي كان من النبي صلى الله عليه وسلم ووكزه إياه، فلما قدم النبي صلى الله عليه وسلم غدوت إليه بالجمل، فاعطاني ثمن الجمل، والجمل وسهمي مع القوم".(مرفوع) وَغَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاضِحٍ لَنَا، فَأَزْحَفَ الْجَمَلُ فَتَخَلَّفَ عَلَيَّ فَوَكَزَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَلْفِهِ، قَالَ: بِعْنِيهِ، وَلَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا دَنَوْنَا اسْتَأْذَنْتُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟ قُلْتُ: ثَيِّبًا أُصِيبَ عَبْدُ اللَّهِ وَتَرَكَ جَوَارِيَ صِغَارًا، فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا تُعَلِّمُهُنَّ وَتُؤَدِّبُهُنَّ، ثُمَّ قَالَ: ائْتِ أَهْلَكَ، فَقَدِمْتُ، فَأَخْبَرْتُ خَالِي بِبَيْعِ الْجَمَلِ فَلَامَنِي، فَأَخْبَرْتُهُ بِإِعْيَاءِ الْجَمَلِ وَبِالَّذِي كَانَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَكْزِهِ إِيَّاهُ، فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَوْتُ إِلَيْهِ بِالْجَمَلِ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَ الْجَمَلِ، وَالْجَمَلَ وَسَهْمِي مَعَ الْقَوْمِ".
اور ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہاد میں ایک اونٹ پر سوار ہو کر گیا۔ اونٹ تھک گیا۔ اس لیے میں لوگوں سے پیچھے رہ گیا۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیچھے سے مارا اور فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔ مدینہ تک اس پر سواری کی تمہیں اجازت ہے۔ پھر جب ہم مدینہ سے قریب ہوئے تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی، عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے ابھی نئی شادی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا کہ بیوہ سے۔ میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اپنے پیچھے کئی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اس لیے میں نے بیوہ سے کی تاکہ انہیں تعلیم دے اور ادب سکھاتی رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا اب اپنے گھر جاؤ۔ چنانچہ میں گھر گیا۔ میں نے جب اپنے ماموں سے اونٹ بیچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے ملامت کی۔ اس لیے میں نے ان سے اونٹ کے تھک جانے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ کا بھی ذکر کیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کو مارنے کا بھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو میں بھی صبح کے وقت اونٹ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اونٹ کی قیمت بھی دے دی، اور وہ اونٹ بھی مجھے واپس بخش دیا اور قوم کے ساتھ میرا (مال غنیمت کا) حصہ بھی مجھ کو بخش دیا۔
(On another occasion) I took part in one of Ghazawat among with the Prophet and I was riding one of our camels. The camel got tired and was lagging behind the others. The Prophet hit it on its back. He said, "Sell it to me, and you have the right to ride it till Medina.'' When we approached Medina, I took the permission from the Prophet to go to my house, saying, "O Allah's Apostle! I have newly married." The Prophet asked, "Have you married a virgin or a matron (a widow or divorcee)?" I said, "I have married a matron, as `Abdullah (my father) died and left behind daughters small in their ages, so I married a matron who may teach them and bring them up with good manners." The Prophet then said (to me), "Go to your family." When I went there and told my maternal uncle about the selling of the camel, he admonished me for it. On that I told him about its slowness and exhaustion and about what the Prophet had done to the camel and his hitting it. When the Prophet arrived, I went to him with the camel in the morning and he gave me its price, the camel itself, and my share from the war booty as he gave the other people.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3 , Book 41 , Number 589
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2406
حدیث حاشیہ: ماموں نے اس وجہ سے ملامت کی ہوگی کہ آنحضرت ﷺ کے ہاتھ اونٹ بیچنا کیا ضروری تھا۔ یوں ہی آپ کو دے دیا ہوتا۔ بعض نے کہا کہ اس بات پر کہ ایک ہی اونٹ ہمارے پاس تھا اس سے گھر کا کام کاج نکلتا تھا وہ بھی تو نے بیچ ڈالا۔ اب تکلیف ہوگی۔ بعض نے کہا ماموں سے جد بن قیس مراد ہے وہ منافق تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2406
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2406
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں سے خود سفارش کی کہ قرض میں کچھ کمی کر دیں لیکن انہوں نے آپ کی سفارش بھی ٹھکرا دی۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے لعین قسم کے لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بات بھی نہ مانی۔ اس روایت کو مذکورہ عنوان کے تحت لانے کا یہی مقصد ہے۔ (2) حضرت جابر ؓ کے ماموں نے اونٹ فروخت کرنے پر انہیں طعن و ملامت کی، محدثین نے اس کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں، مثلاً: ٭ یہ لوگ کھیتی باڑی اور باغات والے تھے، جن کا اونٹ کے بغیر گزارا نہیں چل سکتا تھا، اس لیے اونٹ بیچنے پر ملامت کی کہ انہیں خود اس کی ضرورت تھی۔ ٭ آپ کو بیچنے کی کیا ضرورت تھی، رسول اللہ ﷺ کو یہ اونٹ ہبہ کیوں نہ کر دیا۔ ٭ حضرت جابر ؓ کے ماموں میں نفاق تھا، اس لیے حضرت جابر ؓ کو اس نے ملامت کی۔ اس کا نام جد بن قیس ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2406