صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
The Book of Loans, Freezing of Property, and Bankruptcy
3. بَابُ أَدَاءِ الدُّيُونِ:
3. باب: قرضوں کا ادا کرنا۔
(3) Chapter. Repayment of debts.
حدیث نمبر: Q2388
Save to word اعراب English
وقول الله تعالى: إن الله يامركم ان تؤدوا الامانات إلى اهلها وإذا حكمتم بين الناس ان تحكموا بالعدل إن الله نعما يعظكم به إن الله كان سميعا بصيرا سورة النساء آية 58.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا سورة النساء آية 58.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) فرمایا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کرو۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ اللہ تمہیں اچھی ہی نصیحت کرتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے۔

حدیث نمبر: 2388
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا ابو شهاب، عن الاعمش، عن زيد بن وهب، عن ابي ذر رضي الله عنه، قال:" كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم، فلما ابصر يعني احدا، قال: ما احب انه يحول لي ذهبا يمكث عندي منه دينار فوق ثلاث إلا دينارا ارصده لدين، ثم قال: إن الاكثرين هم الاقلون، إلا من قال بالمال هكذا وهكذا، واشار ابو شهاب بين يديه، وعن يمينه، وعن شماله، وقليل ما هم، وقال: مكانك، وتقدم غير بعيد فسمعت صوتا فاردت ان آتيه، ثم ذكرت قوله مكانك حتى آتيك، فلما جاء، قلت: يا رسول الله، الذي سمعت او قال الصوت الذي سمعت، قال: وهل سمعت؟ قلت: نعم، قال: اتاني جبريل عليه السلام، فقال: من مات من امتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة، قلت: وإن فعل كذا وكذا، قال: نعم".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَبْصَرَ يَعْنِي أُحُدًا، قَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّهُ يُحَوَّلُ لِي ذَهَبًا يَمْكُثُ عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا دِينَارًا أُرْصِدُهُ لِدَيْنٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ، إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا، وَأَشَارَ أَبُو شِهَابٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَعَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، وَقَلِيلٌ مَا هُمْ، وَقَالَ: مَكَانَكَ، وَتَقَدَّمَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَسَمِعْتُ صَوْتًا فَأَرَدْتُ أَنْ آتِيَهُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَهُ مَكَانَكَ حَتَّى آتِيَكَ، فَلَمَّا جَاءَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الَّذِي سَمِعْتُ أَوْ قَالَ الصَّوْتُ الَّذِي سَمِعْتُ، قَالَ: وَهَلْ سَمِعْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، قُلْتُ: وَإِنْ فَعَلَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوشہاب نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا، آپ کی مراد احد پہاڑ (کو دیکھنے) سے تھی۔ تو فرمایا کہ میں یہ بھی پسند نہیں کروں گا کہ احد پہاڑ سونے کا ہو جائے تو اس میں سے میرے پاس ایک دینار کے برابر بھی تین دن سے زیادہ باقی رہے۔ سوا اس دینار کے جو میں کسی کا قرض ادا کرنے کے لیے رکھ لوں۔ پھر فرمایا، (دنیا میں) دیکھو جو زیادہ (مال) والے ہیں وہی محتاج ہیں۔ سوا ان کے جو اپنے مال و دولت کو یوں اور یوں خرچ کریں۔ ابوشہاب راوی نے اپنے سامنے اور دائیں طرف اور بائیں طرف اشارہ کیا، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہیں ٹھہرے رہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور آگے کی طرف بڑھے۔ میں نے کچھ آواز سنی (جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے باتیں کر رہے ہوں) میں نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آیا کہ یہیں اس وقت تک ٹھہرے رہنا جب تک میں نہ آ جاؤں اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ! ابھی میں نے کچھ سنا تھا۔ یا (راوی نے یہ کہا کہ) میں نے کوئی آواز سنی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم نے بھی سنا! میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے تھے اور کہہ گئے ہیں کہ تمہاری امت کا جو شخص بھی اس حالت میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے پوچھا کہ اگرچہ وہ اس طرح (کے گناہ) کرتا رہا ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہاں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Dhar: Once, while I was in the company of the Prophet, he saw the mountain of Uhud and said, "I would not like to have this mountain turned into gold for me unless nothing of it, not even a single Dinar remains of it with me for more than three days (i.e. I will spend all of it in Allah's Cause), except that Dinar which I will keep for repaying debts." Then he said, "Those who are rich in this world would have little reward in the Hereafter except those who spend their money here and there (in Allah's Cause), and they are few in number." Then he ordered me to stay at my place and went not far away. I heard a voice and intended to go to him but I remembered his order, "Stay at your place till I return." On his return I said, "O Allah's Apostle! (What was) that noise which I heard?" He said, "Did you hear anything?" I said, "Yes." He said, "Gabriel came and said to me, 'Whoever amongst your followers dies, worshipping none along with Allah, will enter Paradise.' " I said, "Even if he did such-and-such things (i.e. even if he stole or committed illegal sexual intercourse)" He said, "Yes."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 573


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6444جندب بن عبد اللهما يسرني أن عندي مثل أحد هذا ذهبا تمضي علي ثالثة وعندي منه دينار إلا شيئا أرصده لدين إلا أن أقول به في عباد الله هكذا وهكذا وهكذا عن يمينه وعن شماله ومن خلفه ثم مشى الأكثرين هم الأقلون يوم القيامة إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا عن يمينه وعن شماله
   صحيح البخاري2388جندب بن عبد اللهما أحب أنه يحول لي ذهبا يمكث عندي منه دينار فوق ثلاث إلا دينارا أرصده لدين الأكثرين هم الأقلون إلا من قال بالمال هكذا وهكذا وقليل ما هم من مات من أمتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة قلت وإن فعل كذا وكذا قال نعم
   صحيح مسلم2304جندب بن عبد اللهما أحب أن أحدا ذاك عندي ذهب أمسى ثالثة عندي منه دينار إلا دينارا أرصده لدين إلا أن أقول به في عباد الله هكذا حثا بين يديه وهكذا عن يمينه وهكذا عن شماله
   صحيح مسلم2306جندب بن عبد اللهما يسرني أن لي مثله ذهبا أنفقه كله إلا ثلاثة دنانير

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2388 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2388  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کی فیاضی اور سخاوت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اُحد پہاڑ کے سونا بننے کی تمنا کی تاکہ میں اسے تین دن کے اندر اندر لوگوں میں تقسیم کر دوں۔
آپ کی غریب پروری کو بیان کیا گیا ہے، نیز پتا چلا کہ رسول اللہ ﷺ ادائیگی قرض کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔
آپ نے فرمایا:
تقسیم کے بعد میرے پاس سونا اتنا ہی بچے جس سے میں قرض ادا کر سکوں۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرض کی ادائیگی صدقہ و خیرات کرنے پر مقدم ہے، نیز اس کی ادائیگی کے لیے انسان کو ہر وقت فکرمند رہنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2388   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2306  
احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں مدینہ آیا اس اثناء میں کہ میں قریشی سرداروں کے ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا جس کے کپڑے موٹے تھے جسم میں خشونت تھی اور چہرہ پر بھی سختی تھی وہ آ کر ان کے پاس رک گیا اور کہنے لگا مال و دولت سمیٹنے والوں کو اس گرم پتھر سے آگاہ کرو (اطلاع و خبر دو) جس کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اسے ان کے ایک فرد کے پستان کی نوک پر رکھا جائے۔ گا حتی کہ وہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2306]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
مَلَأٌ:
اشراف و سردار۔
(2)
أَخْشَنُ:
سخت اور کھردرا،
جس میں ملائمت اور نرمی نہ ہو۔
(3)
رَضْفٍ:
گرم پتھر۔
(4)
يُحْمَى عَلَيْهِ:
اسے تپایا اور گرم کیا جائے گا۔
(5)
حَلَمَةِ ثَدْيَيْهِ:
سر پستان۔
(6)
نُغْضِ:
شانے (کندھے)
کے کنارے کی پتلی اور باریک ہڈی۔
(7)
لَا تَعْتَرِيهِمْ:
اپنی ضرورت پوری کرنے کا ان سے مطالبہ نہیں کرتے۔
فوائد ومسائل:
(1)
جمہور صحابہ و تابعین اور جمہور امت کے نزدیک کنز اس خزانہ اور مال و دولت کو کہتے ہیں جو زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جاتا ہے لیکن مال کا مالک اس کی زکاۃ ادا کرنے کی بجائے اس پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے اور اس کو محتاجوں ضرورتمندوں کی ضروریات کے لیے صرف کر کے اللہ کا شکر گزار نہیں بنتا ہے لیکن جو مال حد نصاب کو نہیں پہنچتا کنز نہیں ہے کیونکہ شریعت نے اس پر زکاۃ فرض نہیں کی۔
لہٰذا وہ نصاب جس سے زکاۃ ادا کر دی جائے وہ بھی کنز نہیں رہے گا۔
کیونکہ مالک نے اسے محتاجوں اور ضرورتمندوں پر خرچ کیا ہے اس لیے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا بَلَغَ أَنْ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ فَزُكِّيَ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ جو مال زکاۃ کی ادائیگی کے نصاب کو پہنچا اور اس کی زکاۃ ادا کردی گئی تو وہ کنز نہیں ہے (سنن ابو داؤد)
علامہ عراقی کہتے ہیں سندہ جید،
اس کی سند عمدہ اور قابل اعتماد ہے ہاں جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔
انسان کے لیے بلند ترین مقام جس پر ہمیشہ کم لوگ ہی فائز ہوتے ہیں وہ یہی ہے کہ وہ ضروریات سے زائد اپنا تمام مال و دولت دین اور اہل دین کی ضروریات میں صرف کر دے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ تبوک کے موقع پر اپنا تمام مال و متاع آپ کے سامنے لا رکھا تھا۔
اور یہ شرف صرف ابو بکر کو ہی حاصل ہوا تھا۔
(2)
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نظریہ،
یہ تھا (غلہ وخوراک مویشیوں کے سوا)
مسلمان اپنا تمام مال و دولت یعنی سونا چاندی اور کیش کی صورت میں جو کچھ ہے وہ اپنی ضرورت سے زائد سب کا سب خرچ کردیں اور یہ اس کے لیے لازم اور ضروری ہے۔
اس طرح وہ وجوبی ولازمی اور استحبابی و مندوب حکم میں امتیاز نہیں کرتے تھے حالانکہ یہ بات مقاصد شریعت اور اس کی روح کے منافی ہے۔
کیونکہ تمام انسان اعلیٰ معیار اور بلند مقام پر یکساں طور پر فائز نہیں ہو سکتے تمام افراد کو تو فرائض ہی کا پابند کیا جا سکتا ہے۔
اگر حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نظریہ ہی لازم ہوتا تو پھر زکاۃ صدقات اور وراثت مال کی تقسیم کی ضرورت ہی نہ رہتی اور کم ازکم خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کی لازمی طور پر پابندی کرتے حالانکہ یہ ابھی بتا چکے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی صحابی نے بھی اپنا تمام اندوختہ پیش نہیں کیا تھا اور امت میں سے کسی امام نے اس نظریہ کو قبول نہیں کیا۔
لیکن حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زندگی بھر اپنے نظریہ پر عمل کیا اور کھانے پینے لباس کے سوا کوئی مال و متاع یا ساز وسامان نہیں جوڑا اور اشتراکیوں کی طرح محض پر فریب نعرہ لگانے پر اکتفا نہیں کیا کہ اپنے گھر میں عیش و عشرت کا ہر سامان جمع ہے وافر بینک بیلنس ہے اور زبان پر نعرہ ابو ذری ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2306   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6444  
6444. حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے پتھریلے علاقے میں چل رہا تھا کہ ہمارے سامنے اُحد پہاڑ نمودار ہوا۔ آپ نے فرمایا:اے ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں نے عرض کی:اللہ کے رسول ﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گزر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوائے اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے چھوڑوں، مگر میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کردوں۔ آپ نے دائیں بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔ پھر آپ کچھ دیر چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا: بے شک زیادہ مال رکھنے والے قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوائے اس شخص کے جس نے اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کیا۔۔۔ آپ نے دائیں، بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔۔۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6444]
حدیث حاشیہ:
اہل سنت کا مذہب گنہگار مومن کے بارے میں جو بغیر توبہ کئے مر جائے یہی ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کی مرضی پر ہے خواہ گناہ معاف کر کے اس کو بلا عذاب جنت میں داخل کرے یا چند روز عذاب کر کے اسے بخش دے لیکن مرجیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی مومن ہو تو کوئی گناہ اس کو ضررنہ کرے گا اور معتزلہ کہتے ہیں کہ وہ بلا توبہ مر جائے تو ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔
یہ ہر دو قول غلط ہیں اور اہل سنت ہی کا مذہب صحیح ہے۔
مومن مسلمان کے لئے بہر حال بخشش مقدرہے۔
یا اللہ! اپنی بخشش سے ہم کو بھی سرفراز فرمائیو۔
(آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6444   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6444  
6444. حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے پتھریلے علاقے میں چل رہا تھا کہ ہمارے سامنے اُحد پہاڑ نمودار ہوا۔ آپ نے فرمایا:اے ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں نے عرض کی:اللہ کے رسول ﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گزر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوائے اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے چھوڑوں، مگر میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کردوں۔ آپ نے دائیں بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔ پھر آپ کچھ دیر چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا: بے شک زیادہ مال رکھنے والے قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوائے اس شخص کے جس نے اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کیا۔۔۔ آپ نے دائیں، بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔۔۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6444]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے دنیا میں فقر و تنگدستی کا انتخاب کیا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو قناعت، صبر اور توکل کا وافر سرمایہ دے کر ہوس زر سے فارغ کر دیا، اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر و فاقے کی جس حالت میں زندگی گزاری وہ اپنے لیے آپ نے خود ہی پسند کی تھی اور اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے اسے خود مانگا تھا۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6444   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.