وقال مالك: العرية، ان يعري الرجل الرجل النخلة، ثم يتاذى بدخوله عليه، فرخص له ان يشتريها منه بتمر، وقال ابن إدريس: العرية لا تكون إلا بالكيل من التمر يدا بيد، لا يكون بالجزاف، ومما يقويه قول سهل بن ابي حثمة: بالاوسق الموسقة، وقال ابن إسحاق في حديثه: عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنه، كانت العرايا ان يعري الرجل في ماله النخلة والنخلتين، وقال يزيد: عن سفيان بن حسين، العرايا نخل كانت توهب للمساكين، فلا يستطيعون ان ينتظروا، بها رخص لهم ان يبيعوها بما شاءوا من التمر.وَقَالَ مَالِكٌ: الْعَرِيَّةُ، أَنْ يُعْرِيَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ النَّخْلَةَ، ثُمَّ يَتَأَذَّى بِدُخُولِهِ عَلَيْهِ، فَرُخِّصَ لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَهَا مِنْهُ بِتَمْرٍ، وَقَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: الْعَرِيَّةُ لَا تَكُونُ إِلَّا بِالْكَيْلِ مِنَ التَّمْرِ يَدًا بِيَدٍ، لَا يَكُونُ بِالْجِزَافِ، وَمِمَّا يُقَوِّيهِ قَوْلُ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ: بِالْأَوْسُقِ الْمُوَسَّقَةِ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ فِي حَدِيثِهِ: عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَتِ الْعَرَايَا أَنْ يُعْرِيَ الرَّجُلُ فِي مَالِهِ النَّخْلَةَ وَالنَّخْلَتَيْنِ، وَقَالَ يَزِيدُ: عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، الْعَرَايَا نَخْلٌ كَانَتْ تُوهَبُ لِلْمَسَاكِينِ، فَلَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَنْتَظِرُوا، بِهَا رُخِّصَ لَهُمْ أَنْ يَبِيعُوهَا بِمَا شَاءُوا مِنَ التَّمْرِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص (کسی باغ کا مالک اپنے باغ میں) دوسرے شخص کو کھجور کا درخت (ہبہ کے طور پر) دیدے، پھر اس شخص کا باغ میں آنا اچھا نہ معلوم ہو، تو اس صورت میں وہ شخص ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں اپنا درخت (جسے وہ ہبہ کر چکا ہے) خرید لے اس کی اس کے لیے رخصت دی گئی ہے اور ابن ادریس (امام شافعی رحمہ اللہ) نے کہا کہ عریہ جائز نہیں ہوتا مگر (پانچ وسق سے کم میں) سوکھی کھجور ناپ کر ہاتھوں ہاتھ دیدے یہ نہیں کہ دونوں طرف اندازہ ہو۔ اور اس کی تائید سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے کہ وسق سے ناپ کر کھجور دی جائے۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ نے اپنی حدیث میں نافع سے بیان کیا اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باغ میں کھجور کے ایک دو درخت کسی کو عاریتاً دیدے اور یزید نے سفیان بن حسین سے بیان کی کہ عریہ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو مسکینوں کو للہ دے دیا جائے، لیکن وہ کھجور کے پکنے کا انتظار نہیں کر سکتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دی کہ جس قدر سوکھی کھجور کے بدل چاہیں اور جس کے ہاتھ چاہیں بیچ سکتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد هو ابن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت رضي الله عنهم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" رخص في العرايا ان تباع بخرصها كيلا"، قال موسى بن عقبة: والعرايا نخلات معلومات تاتيها فتشتريها.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا أَنْ تُبَاعَ بِخَرْصِهَا كَيْلًا"، قَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ: وَالْعَرَايَا نَخَلَاتٌ مَعْلُومَاتٌ تَأْتِيهَا فَتَشْتَرِيهَا.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، انہیں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی اجازت دی کہ وہ اندازے سے بیچی جا سکتی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ عرایا کچھ معین درخت جن کا میوہ تو اترے ہوئے میوے کے بدل خریدے۔
Narrated Ibn `Umar from Zaid bin Thabit: Allah's Apostle allowed the sale of 'Araya by estimating the dates on them for measured amounts of dried dates. Musa bin `Uqba said, "Al- 'Araya were distinguished date palms; one could come and buy them (i.e. their fruits).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 397
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2192
حدیث حاشیہ: علامہ شوکانی ؒ عرایا کی تفصیل ان لفظوں میں پیش فرماتے ہیں: جمع عریة قال في الفتح و هي في الأصل عطیة ثمر النخل دون الرقبة کانت العرب في الجدب تتطوع بذلك علی من لا ثمر له کما یتطوع صاحب الشاة أو الإبل بالمنیحة وهي عطیة اللبن دون الرقبة۔ (نیل) یعنی عرایا عریہ کی جمع ہے اور دراصل یہ کھجور کا صرف پھل کسی محتاج مسکین کو عاریتاً بخشش کے طور پر دے دینا ہے۔ عربوں کا طریقہ تھا کہ وہ فقراء مساکین کو فصل میں کسی درخت کا پھل بطور بخشش دے دیا کرتے تھے جیسا کہ بکری اوراونٹ والوں کابھی طریقہ رہا ہے کہ کسی غریب مسکین کے حوالہ صرف دودھ پینے کے لیے بکری یا اونٹ کردیا کرتے تھے۔ آگے حضرت علامہ ؒ فرماتے ہیں: و أخرج الإمام أحمد عن سفیان بن حسین أن العرایا نخل توهب للمساکین فلا یستطیعون أن ینتظروا بها فرخص لهم أن یبیعوها بما شاء و امن التمر۔ یعنی عرایا ان کھجوروں کو کہا جاتا ہے جو مساکین کو عاریتاً بخشش کے طور پر دے دی جاتی ہیں۔ پھر ان مساکین کو تنگ دستی کی وجہ سے ان کھجوروں کا پھل پختہ ہونے کا انتظار کرنے کی تاب نہیں ہوتی۔ پس ان کو رخصت دی گئی کہ وہ جیسے مناسب جانیں سوکھی کھجوروں سے ان کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ و قال الجوهري هي النخلة التي یعریها صحابها رجلا محتاجا بأن یعجل له ثمرها عاماً۔ یعنی جوہری نے کہا کہ یہ وہ کھجور ہیں جس کے پھلوں کو ان کے مالک کسی محتاج کو عاریتاً محض بطور بخشش سال بھر کے لیے دے دیا کرتے ہیں۔ عرایا کی اور بھی بہت سی صورتیں بیان کی گئی ہیں تفصیل کے لیے فتح الباری کا مطالعہ ضروری ہے۔ علامہ شوکانی آخر میں فرماتے ہیں و الحاصل أن کل صورة من صور العرایا ورد بها حدیث صحیح أو ثبت عن أهل الشرع أو أهل اللغة فهي جائزة لدخولها تحت مطلق الإذن و التخصیص في بعض الأحادیث علی بعض الصور لا ینافي ما ثبت في غیرہ۔ یعنی بیع عرایا کی جتنی بھی صورتیں صحیح حدیث میں وارد ہیں یا اہل شرع یا اہل لغت سے وہ ثابت ہیں وہ سب جائز ہیں۔ اس لیے کہ وہ مطلق اذن کے تحت داخل ہیں۔ اور بعض احادیث بعض صورتوں میں جو بطور نص وارد ہیں وہ ان کے منافی نہیں ہیں جو بعض ان کے غیر سے ثابت ہیں۔ بیع عرایا کے جواز میں اہم پہلو غرباءمساکین کا مفاد ہے جو اپنی تنگ دستی کی وجہ سے پھلوں کے پختہ ہونے کا انتظار کرنے سے معذور ہیں۔ ان کو فی الحال شکم پری کی ضرورت ہے اس لیے ان کو اس بیع کے لیے اجازت دی گئی۔ ثابت ہوا کہ عقل صحیح بھی اس کے جواز کی تائید کرتی ہے۔ سند میں مذکور بزرگ حضرت نافع سرجس کے بیٹے عبداللہ بن عمر ؓ کے آزاد کردہ ہیں۔ یہ دیلمی تھے اور اکابرتابعین میں سے ہیں۔ ابن عمر ؓ اور ابوسعید ؓ سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان سے بہت لوگوں نے جن میں زہری اور امام مالک بھی ہیں، روایت کی ہے۔ حدیث کے بارے میں شہرت یافتہ لوگوں میں سے ہیں۔ نیز ان ثقہ راویوں میں سے ہیں جن کی روایت پر مکمل اعتماد ہوتا ہے اور جن کی روایت کردہ احادیث پر عمل کیا جاتاہے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیثوں کا بڑا حصہ ان ہی پر موقوف ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ جب میں نافع کے واسطہ سے حدیث سن لیتا ہوں تو پھر کسی اور راوی سے سننے کی لیے بے فکر ہو جاتا ہوں۔ 117ھ میں وفات پائی۔ رحمه اللہ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2192
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2192
حدیث حاشیہ: راوی نے عرایا کی تفسیر میں اختصار سے کام لیا ہے کیونکہ اس میں درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے عوض خریدا جاتا ہے۔ چونکہ عرایا میں یہ امر معروف ہے، اس لیےاس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2192
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 498
´اندازے سے مال بیچنے کا حکم` «. . . 237- وبه: عن ابن عمر عن زيد بن ثابت: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرخص لصاحب العرية أن يبيعها بخرصها. . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کے مالک کو اجازت دی ہے کہ وہ اندازے سے (اُکا) انہیں بیچ سکتا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 498]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2188، و مسلم 1539/60، من حديث مالك به] تفقہ: ➊ دیکھئے حدیث سابق: 157 ➋ اگر دکاندار اور گاہک دونوں راضی ہوں تو مال کو اندازے سے یعنی اُکا بیچا جا سکتا ہے۔ ➌ دین اسلام مکمل دین ہے جس میں زندگی کے ہر مرحلے اور مسئلے کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ والحمد للہ
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 237
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4542
´عاریت والی بیع میں اندازہ کر کے خشک کھجور دینے کا بیان۔` زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاریت والی بیع میں اجازت دی کہ (اس کی تازہ کھجوروں کو) اندازہ کر کے (توڑی ہوئی) کھجوروں کے بدلے بیچی (جا سکتی) ہے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4542]
اردو حاشہ: عرایا عریہ کی جمع ہے۔ عریہ اس درخت کو کہتے ہیں جسے باغ والا کسی غریب شخص کو پھل کھانے کے لیے دے دے۔ درخت اصل مالک ہی کا رہتا ہے۔ اس ایک درخت کی دیکھ بھال وغیرہ کے لیے غریب شخص کو بار بار باغ میں جانا پڑے گا۔ اس سے اس غریب شخص یا باغ والے کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، لہٰذا شریعت نے اجازت دی کہ وہ باغ والا اس درخت پر لگے ہوئے پھل کے عوض اس غریب شخص کو اندازا اتنی خشک یا تازہ کھجوریں دے دے اور درخت واپس لے لے۔ یہ ہے تو مزابنہ کی صورت جو عموماََ ممنوع ہے مگر شریعت لوگوں کی مجبوریوں کا بھی لحاظ رکھتی ہے، اس لیے غریب کے مفاد کی خاطر تھوڑی مقدار (پانچ وسق، یعنی پندرہ بیس من) میں اس بیع کی اجازت دی لیکن اس سے زائد تجارتی مقاصد کے لیے یہ بیع جائز نہیں۔ (مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے، فوائد و مسائل حدیث: 3910)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4542
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2269
´عرایا کی بیع یعنی کھجور کے درخت کو انداز ے سے خشک کھجور کے بدلے خریدنے کا بیان۔` زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی بیع میں اجازت دی ہے کہ اندازہ سے اس کے برابر خشک کھجور کے بدلے خرید و فروخت کی جائے۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ عریہ یہ ہے کہ ایک آدمی کھجور کے کچھ درخت اپنے گھر والوں کے کھانے کے لیے اندازہ کر کے اس کے برابر خشک کھجور کے بدلے خریدے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2269]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) عام قانون یہی ہے کہ کھجور کے بدلے میں کھجور کا تبادلہ دست بدست اور برابر برابر ہونا چاہیے لیکن ”عرایا“ کا مسئلہ اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے۔
(2) امام مالک رحممۃ اللہ علیہ نے عرایا کی تفسیر یوں کی ہے: ”عریہ یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کھجور کا ایک درخت (پھل کھانے کے لیے) دیتا ہے، پھر اس کے (بار بار) باغ میں آنے سے تکلیف محسوس کرتا ہے تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ (اسے دیا ہوا وہ) درخت خشک کھجوروں عوض خرید لے۔ (صحیح البخاري، البیوع، باب تفسیر العرایا، قبل حدیث: 2192) اس کا طریقہ یہ کہ درخت کے پھل کا اندازہ لگایا جائے کہ خشک ہو کر اتنے من ہوگا، پھر اتنے من خشک کھجوریں اسے دے کر درخت واپس لے لیا جائے۔ اس صورت میں خشک کھجوروں کےعوض تازہ کھجوریں (درخت پر لگی ہوئی) خریدی گئی ہیں اور خشک کھجوریں ماپ تول کر دی گئی ہیں۔ یہ جائز ہے بشرطیکہ ان کی مقدار پانج وسق (بیس من) سے کم ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2269
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:689
689- اسماعیل شیبانی بیان کرتے ہیں:میں نے کھجور کے درختوں پر لگے ہوئے پھل کو ایک سو وسق کھجور وں کے عوض میں فروخت کردیا،(اس شرط پر کہ اگر درخت پر لگا ہو ا پھل) زیادہ ہوا تو ان لوگوں کو مل جائے گا اگر کم ہوا تو اس کا نقصان بھی ان کو ہوگا۔ میں نے اس بارے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا،تو انہوں نے بتایا:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا میں اس کی اجازت دی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:689]
فائدہ: اس حدیث سے بیع عرایا کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ عرایا، جمع ہے عری کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کھجور میں پکنے کے وقت اس کے کھانے میں رغبت رکھے، لیکن اپنے فقر کی وجہ سے کھانے کی طاقت نہ رکھتا ہو، تاہم اس کے پاس خشک کھجوریں ہیں، چنانچہ وہ پانچ وسق خشک کھجوروں کے بدلے درخت پر لگی کھجوروں کا اندازہ کر کے خرید لے۔ چونکہ عرایا جو کہ اصل میں حرام تھا لیکن ضرورت کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا گیا، اس لیے ضرورت کی مقدار پر اکتفاء کرنا چاہیے، اس لیے کہ صرف پانچ وسق یا اس سے کم میں جائز ہے۔ اس لیے کہ تر کھجور میں لذت کے طور پر کھانا اس مقدار میں کافی ہو جاتا ہے۔ بیع عرایا کی مقدار ہے کہ یہ پانچ وسق کی مقدار سے کم ہوں، یا پھر پانچ وسق ہوں۔ (صحیح البخاری، صحیح مسلم)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 689
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2188
2188. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عریہ کے مالک کو اجازت دی کہ وہ کھجور کو اندازے سے فروخت کرسکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2188]
حدیث حاشیہ: یعنی باغ والے کے ہاتھ۔ یہ صحیح ہے کہ عریہ بھی مزابنہ ہے مگر آنحضرت ﷺ نے اس کی اجازت دی۔ اس وجہ سے کہ عریہ خیر خیرات کا کام ہے۔ اگر عریہ میں یہ اجازت نہ دی جاتی تو لوگ کھجور یا میوے کے درخت مسکینوں کو للہ دینا چھوڑ دیتے۔ اس لیے کہ اکثر لوگ یہ خیال کرتے کہ ہمارے باغ میں رات بے رات مسکین گھستے رہیں گے۔ اور ان کے گھسنے اور بے موقع آنے سے ہم کو تکلیف ہوگی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2188
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2188
2188. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عریہ کے مالک کو اجازت دی کہ وہ کھجور کو اندازے سے فروخت کرسکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2188]
حدیث حاشیہ: (1) مزابنہ، زبن سے مشتق ہے جس کے معنی دفع کرنے کے ہیں۔ چونکہ مزابنہ، جو تازہ کھجور کو خشک کھجور کے عوض فروخت کرنے سے عبارت ہے، اس کے عوضین میں فرق زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اس میں لڑائی جھگڑے کا زیادہ احتمال ہے۔ فریقین میں سے کوئی اپنے حق میں نقصان محسوس کرے گا تو اس بیع کو دفع کرنے کی کوشش کرے گا۔ حدیث میں اس کی دو صورتیں بیان ہوئی ہیں: ٭تازہ کھجور خشک کھجور کے عوض فروخت کرنا۔ ٭انگور و منقی کے عوض فروخت کرنا۔ اگرچہ عوضین ماپ اور وزن میں برابر ہی کیوں نہ ہوں، تاہم تازہ پھل خشک ہونے کے بعد کم ہوجاتا ہے، اس لیے منع کیا گیا ہے، البتہ محدود پیمانے پر عرایا کی اجازت ہے۔ اس کا تعلق عرب کے عطایا خاصہ سے ہے۔ عرب لوگ غرباء اور مساکین کو کھجور کے درخت عنایت کردیتے کہ تم ان کا پھل استعمال کرسکتے ہو لیکن جب ان کا آنا جانا ہوتا تو باغ والا تنگی محسوس کرتا، اس لیے انھیں اجازت دی گئی کہ وہ درختوں پر کھجور کا اندازہ کرکے اتنی مقدار میں خشک کھجوریں دے دیں اور درخت اپنے پاس رہنے دیں۔ یہ بیع اصلاً ناجائز ہے کیونکہ ہوسکتا ہے ایک طرف کی کھجوریں زیادہ ہوں لیکن شارع ؑ نے اس کی اجازت دی ہے کیونکہ یہ فقراء کی بیع ہے۔ حدیث میں پانچ وسق یا اس سے کم مقدار میں اس طرح خریدوفروخت کرنے کی اجازت ہے۔ (2) ان احادیث میں لفظ محاقلہ بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں: خوشے میں گندم کی بیع صاف گندم کے عوض کرنا۔ اس سے بھی رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2188
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2380
2380. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے اجازت دی کہ عرایا کی بیع اندازہ کر کے خشک کھجور کے عوض ہو سکتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2380]
حدیث حاشیہ: (1) عام حالات میں درخت پر لگے ہوئے پھلوں کی خشک پھل کے عوض خرید و فروخت منع ہے لیکن اصحاب عرایا کو ایک خاص حد تک اجازت دی گئی ہے۔ وہ خاص حد پانچ وسق ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ (2) عریہ وہ کھجور کا درخت ہے جسے اس کا مالک مساکین کو وقتی طور پر دے دیتا ہے کہ اس سال وہ اس کا پھل کھائیں لیکن فقراء کا باغ میں آنا جانا اسے ناگوار گزرتا ہے کیونکہ مالک اپنے باغ میں رہائش رکھے ہوئے ہے۔ ایسے حالات میں وہ مساکین کو کھجور کے تازہ پھل کے عوض خشک کھجور دے دیتا ہے تاکہ وہ باغ میں آمدورفت نہ رکھیں۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کو وقتی طور پر کھجور کے درخت دیے ہیں تو اس سے صاحب عرایا کو بھی باغ میں داخل ہونے سے نہیں روکا جا سکتا، وہ بھی پانی اور راستے کا حق دار ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2380