صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
The Book of As-Saum (The Fasting).
63. بَابُ صَوْمِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَإِذَا أَصْبَحَ صَائِمًا يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَعَلَيْهِ أَنْ يُفْطِرَ:
63. باب: جمعہ کے دن روزہ رکھنا اگر کسی نے خالی ایک جمعہ کے دن کے روزہ کی نیت کر لی تو اسے توڑ ڈالے۔
(63) Chapter. Observing Saum (fast) on Friday. If someone gets up in the morning of Friday and is observing the Saum (fast) he should break it [if he did not observe Saum the day before or does not intend to observe Saum (fasts) after it].
حدیث نمبر: 1985
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثنا ابو صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يصومن احدكم يوم الجمعة، إلا يوما قبله او بعده".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَصُومَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِلَّا يَوْمًا قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بھی شخص جمعہ کے دن اس وقت تک روزہ نہ رکھے جب تک اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد روزہ نہ رکھتا ہو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: I heard the Prophet saying, "None of you should fast on Friday unless he fasts a day before or after it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 206


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري1985عبد الرحمن بن صخرلا يصومن أحدكم يوم الجمعة إلا يوما قبله أو بعده
   صحيح مسلم2683عبد الرحمن بن صخرلا يصم أحدكم يوم الجمعة إلا أن يصوم قبله أو يصوم بعده
   جامع الترمذي743عبد الرحمن بن صخرلا يصوم أحدكم يوم الجمعة إلا أن يصوم قبله أو يصوم بعده
   سنن أبي داود2420عبد الرحمن بن صخرلا يصم أحدكم يوم الجمعة إلا أن يصوم قبله بيوم أو بعده
   سنن ابن ماجه1723عبد الرحمن بن صخرنهى رسول الله عن صوم يوم الجمعة إلا بيوم قبله أو يوم بعده
   بلوغ المرام561عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏لا تخصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي ولا تخصوا يوم الجمعة بصيام من بين الايام إلا ان يكون في صوم يصومه احدكم
   بلوغ المرام562عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏لا يصومن احدكم يوم الجمعة إلا ان يصوم يوما قبله او يوما بعده

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1985 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1985  
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ بعض لوگوں کی جو عادت ہوتی ہے کہ ہفتے میں ایک دو دن خاص کرکے اس میں روزہ رکھتے ہیں۔
جیسے کوئی پیر جمعرات کو روزہ رکھتا ہے، کوئی پیر منگل کو، کوئی جمعرات جمعہ کو تو یہ تخصیص آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
ابن تین نے کہا بعض نے اسی وجہ سے ایسی تخصیص کو مکروہ رکھا ہے۔
لیکن عرفہ کے دن اور عاشور اور ایام بیض کی تخصیص تو خود حدیث سے ثابت ہے۔
حافظ نے کہا کئی ایک احادیث میں یہ وارد ہے کہ آپ ﷺ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔
مگر شاید امام بخاری ؒ کے نزدیک وہ حدیثیں صحیح نہیں ہیں حالانکہ ابوداؤد اور ترمذی اور نسائی نے نکالا۔
اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا۔
حضرت عائشہ ؓ سے کہ آنحضرت ﷺ قصد کرکے پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے اور نسائی ا ور ابوداؤد نے نکالا۔
ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا، اسامہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا آپ ﷺ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے۔
میں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا اس دن اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت اٹھایا جائے جب میں روزہ سے ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1985   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1985  
حدیث حاشیہ:
(1)
قبل ازیں بیان ہوا تھا کہ کسی معقول عذر کی وجہ سے نفلی روزہ افطار کیا جا سکتا ہے، مثلا:
مہمان نے میزبان کو قسم دی کہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائے یا میزبان نے پرتکلف کھانا تیار کیا تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے روزہ توڑا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنا ضروری نہیں، مثلا:
اگر کوئی کسی کے گھر جاتا ہے اور اہل خانہ اسے "ماحضر" پیش کرتے ہیں تو ایسے حالات میں روزہ توڑنا ضروری نہیں جیسا کہ پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
بہرحال نفلی روزہ توڑنا یا نہ توڑنا حالات و ظروف پر موقوف ہے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ کے لیے تین دعائیں فرمائیں:
٭ اے اللہ! اس کے مال و اولاد میں برکت عطا فرما۔
٭ اے اللہ! اس کی عمر لمبی کر۔
٭ اے اللہ! اسے قیامت کے دن معاف کر دے۔
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 19/7، طبع دار صادر، بیروت)
حضرت انس کہتے ہیں:
دو دعاؤں کی قبولیت کو میں نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا ہے، انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مال دار میں ہوں، (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1982)
نیز ان کا ایک باغ تھا جو سال میں دو دفعہ پھل لاتا تھا۔
(جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3833)
فوت شدہ اولاد کا حدیث میں ذکر ہے اور جو اولاد زندہ رہی وہ ایک سو سے زیادہ تھی، (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6377(2481)
البتہ ایک دعا کے متعلق فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ اسے بھی شرف قبولیت عطا کرے گا اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھے معاف کر دے گا۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6377(2481) (3)
واضح رہے کہ جب حجاج بن یوسف بصرہ آیا تو اس وقت حضرت انس ؓ کی عمر کچھ اوپر اسی برس تھی اور آپ سو برس کی عمر میں فوت ہوئے۔
(فتح الباري: 291/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1985   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 561  
´نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوسری راتوں میں سے جمعہ کی رات کو قیام کرنے کے لیے مخصوص نہ کرو اور نہ ہی دوسرے دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزہ رکھنے کے لیے مختص کرو سوائے اس کے کہ جمعہ کا دن ایسے دن آ جائے کہ جس دن تم میں سے کوئی ایک روزہ رکھتا ہو۔ (مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 561]
561 فوائد و مسائل:
«لَاتَخُصُّو يَوْمَ الْجُمَعَةِ» یعنی صرف جمعے کے دن کو روزے کے لیے مختص نہ کرو، اس لیے کہ جمعے کے دن عید ہے اور عید کے دن روزہ نہیں ہوتا۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ ممانعت تحریمی ہے مگر جمہور نے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے، کیونکہ ترمذی میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حسن سند والی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم جمعے کا روزہ چھوڑتے تھے۔ [جامع الترمذي، الصوم، باب ماجاء فى صوم يوم الجمعة، حديث: 742]
مگر اس میں احتمال ہے کہ شاید اس کے ساتھ آپ ایک دن پہلے یا بعد میں بھی روزہ رکھتے ہوں گے۔
➋ یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاریب جمعے کو عید کا دن فرمایا ہے مگر عید اور جمعے میں اتنا فرق ضرور ہے کہ عید کے دن روزہ رکھنا بالکل ناجائز ہے، کسی طرح بھی جائز نہیں حتیٰ کہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد والے دن میں روزہ رکھنے سے بھی جائز نہیں ہوتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن روزہ رکھنے سے مطلقاً منع فرمایا ہے جبکہ جمعہ میں یہ صورت بالاتفاق جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی اجازت دی ہے جیسا کہ اس کے بعد والی حدیث میں آ رہا ہے۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 561   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2420  
´جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے خاص کرنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں کوئی جمعہ کو روزہ نہ رکھے سوائے اس کے کہ ایک دن پہلے یا بعد کو ملا کر رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2420]
فوائد ومسائل:
روزے کے لیے صرف جمعہ کے دن کو خاص کر لینا یا رات کے قیام و نوافل کے لیے جمعہ کی رات کو خاص اہتمام کرنا جائز نہیں۔
اس منع کی علت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
سوائے اس کے کہ جمعہ کے دن کو عید کا دن کہا گیا ہے اور یہ خاص ذکر و عبادت کا دن ہے۔
حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے فتح الباری میں اور پھر علامہ شوکانی رحمة اللہ علیہ نے نیل الاوطار (4/281) میں ان علل کا ذکر کیا ہے اور اشکالات بھی وارد کیے ہیں۔
کچھ لوگ جمعہ کی رات کو صلاة الرغائب پڑھتے ہیں جو صوفیوں کی ایجاد کردہ بدعت ہے۔
بعض اوقات جمعرات اور جمعہ یا ان راتوں کو درس و تبلیغ کا اہتمام کیا جاتا ہے تو اس میں ان شاءاللہ کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ یہ مجالس معروف عبادت نہیں۔
یہ اعمال انتظام و سہولت کے پیش نظر ہوتے ہیں، جمعے کی خصوصیت سے نہیں۔
واللہ اعلم.
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2420   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1723  
´جمعہ کے دن کا روزہ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا، الا یہ کہ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں رکھا جائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1723]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جمعے کے دن مسلمانوں کی ہفت روزہ عید ہے اس لئے اس دن کا اکیلا روزہ رکھنا ایک لحاظ سے عید کے دن روزہ رکھنے سے مشابہ ہو جاتا ہے
(2)
جمرات کا روزہ رکھنا مسنون ہے جیسے کہ حدیث 1740، 1739 میں آ رہا ہے اس کے سا تھ ملا کر جمعے کا روزہ بھی رکھا جا سکتا ہے
(3)
اسی طر ح اکیلے ہفتے کے دن کا روزہ بھی ممنوع ہے- دیکھیے: حدیث 1726، البتہ جمعے اور ہفتے کے دن کو ملا کر روزہ رکھا جائے تو جا ئز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1723   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 743  
´خاص کر صرف جمعہ کو روزہ رکھنے کی کراہیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے، إلا یہ کہ وہ اس سے پہلے یا اس کے بعد بھی روزہ رکھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 743]
اردو حاشہ:
1؎:
اس ممانعت کی وجہ کیا ہے،
اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں،
سب سے صحیح وجہ اس کا یوم عید ہونا ہے،
اس کی صراحت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے جس کی تخریج حاکم وغیرہ نے ان الفاظ کے ساتھ کی ہے ((يَوْمُ الجُمُعَةِ يَوْمُ عِيدٍ،
فَلاَ تَجْعَلُوا يَوْمَ عِيدِكم يَوْمَ صِيَامِكُم إلاَّ أَنْ تَصُومُوا قَبلَهُ أَوْ بَعْدَه)
)
 جمعہ کا دن عید کا دن ہے،
اس لیے اپنے عید والے دن روزہ نہ رکھا کرو،
إلا یہ کہ اس سے ایک دن قبل (جمعرات کا بھی) روزہ رکھو یا اس سے ایک دن بعد (سنیچرکے دن) کا بھی۔
اور ابن ابی شیبہ نے بھی اسی مفہوم کی ایک حدیث علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جس کی سند حسن ہے اس کے الفاظ یہ ہیں ((مَنْ كَانَ مِنْكُم مُتَطَوِّعًا منَ الشهرِ أيامًا،
فليَكُنْ فِي صَوْمِه يَوْمُ الخَميسِ،
 وَلَا يَصُمْ يَومََ الْجُمُعةِ،
 فإنَّه يومُ طَعَامٍ وَشَرَابٍ)
)
 تم میں سے جو کوئی کسی مہینے کے نفلی روزے رکھ رہا ہو،
وہ جمعرات کے دن کا روزہ رکھے،
جمعہ کے دن کا روزہ نہ رکھے،
اس لیے کہ یہ کھانے پینے کا دن ہوتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 743   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.