صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
The Book of As-Saum (The Fasting).
22. بَابُ الصَّائِمِ يُصْبِحُ جُنُبًا:
22. باب: روزہ دار صبح کو جنابت کی حالت میں اٹھے تو کیا حکم ہے۔
(22) Chapter. If a person observing Saum (fasts) gets up in the morning in the state of Janaba [will his Saum (fast) be valid?]
حدیث نمبر: 1925
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن سمي مولى ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة، انه سمع ابا بكر بن عبد الرحمن، قال: كنت انا وابي حين دخلنا على عائشة وام سلمة. ح وحدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني ابو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، ان اباه عبد الرحمن اخبر مروان، ان عائشة، وام سلمة اخبرتاه:" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدركه الفجر وهو جنب من اهله، ثم يغتسل ويصوم"، وقال مروان لعبد الرحمن بن الحارث: اقسم بالله، لتقرعن بها ابا هريرة، ومروان يومئذ على المدينة، فقال ابو بكر: فكره ذلك عبد الرحمن، ثم قدر لنا ان نجتمع بذي الحليفة، وكانت لابي هريرة هنالك ارض، فقال عبد الرحمن، لابي هريرة: إني ذاكر لك امرا، ولولا مروان اقسم علي فيه لم اذكره لك، فذكر قول عائشة وام سلمة، فقال: كذلك حدثني الفضل بن عباس وهن اعلم، وقال همام، وابن عبد الله بن عمر، عن ابي هريرة، كان النبي صلى الله عليه وسلم: يامر بالفطر، والاول اسند.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ الحَارِثِ بْنِ هِشَامِ بْنِ المُغِيرَةِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَأَبِي حِينَ دَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّ أَبَاهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَ مَرْوَانَ، أَنَّ عَائِشَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتَاهُ:" أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُدْرِكُهُ الْفَجْرُ وَهُوَ جُنُبٌ مِنْ أَهْلِهِ، ثُمَّ يَغْتَسِلُ وَيَصُومُ"، وَقَالَ مَرْوَانُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ: أُقْسِمُ بِاللَّهِ، لَتُقَرِّعَنَّ بِهَا أَبَا هُرَيْرَةَ، وَمَرْوَانُ يَوْمَئِذٍ عَلَى الْمَدِينَةِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَكَرِهَ ذَلِكَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثُمَّ قُدِّرَ لَنَا أَنْ نَجْتَمِعَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، وَكَانَتْ لِأَبِي هُرَيْرَةَ هُنَالِكَ أَرْضٌ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، لِأَبِي هُرَيْرَةَ: إِنِّي ذَاكِرٌ لَكَ أَمْرًا، وَلَوْلَا مَرْوَانُ أَقْسَمَ عَلَيَّ فِيهِ لَمْ أَذْكُرْهُ لَكَ، فَذَكَرَ قَوْلَ عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَ: كَذَلِكَ حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ وَهُنَّ أَعْلَمُ، وَقَالَ هَمَّامٌ، وَابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَأْمُرُ بِالْفِطْرِ، وَالْأَوَّلُ أَسْنَدُ.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں مروان نے خبر دی اور انہیں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ (بعض مرتبہ) فجر ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے تھے، اور مروان بن حکم نے عبدالرحمٰن بن حارث سے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تم یہ حدیث صاف صاف سنا دو۔ (کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتوی اس کے خلاف تھا) ان دنوں مروان، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، ابوبکر نے کہا کہ عبدالرحمٰن نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ اتفاق سے ہم سب ایک مرتبہ ذو الحلیفہ میں جمع ہو گئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہاں کوئی زمین تھی، عبدالرحمٰن نے ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہوں گا اور اگر مروان نے اس کی مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں کبھی آپ کے سامنے اسے نہ چھیڑتا۔ پھر انہوں نے عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ذکر کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (میں کیا کروں) کہا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی تھی (اور وہ زیادہ جاننے والے ہیں) کہ ہمیں ہمام اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کو جو صبح کے وقت جنبی ہونے کی حالت میں اٹھا ہو افطار کا حکم دیتے تھے لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت زیادہ معتبر ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha and Um Salama: At times Allah's Apostle used to get up in the morning in the state of Janaba after having sexual relations with his wives. He would then take a bath and fast.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 148


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري1926يدركه الفجر وهو جنب من أهله ثم يغتسل يصوم
   صحيح البخاري1925يدركه الفجر وهو جنب من اهله، ثم يغتسل ويصوم
   بلوغ المرام550يصبح جنبا من جماع ثم يغتسل ويصوم
   مسندالحميدي200يدركه الصبح وهو جنب ثم يغتسل ويصوم يومه ذلك

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1925 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1925  
حدیث حاشیہ:
ابوہریرہ ؓ نے فضل کی حدیث سن کر اس کے خلاف فتوی دیا تھا۔
مروان کا یہ مطلب تھا کہ عبدالرحمن ان کو پریشان کریں لیکن عبدالرحمن نے یہ منظور نہ کیا اور خاموش رہے پھر موقع پاکر ابوہریرہ ؓ سے اس مسئلہ کو ذکر کیا۔
ایک روایت میں ہے کہ ابوہریرہ نے عائشہ اور ام سلمہ ؓ کی حدیث سن کر کہا کہ وہ خوب جانتی ہیں گویا اپنے فتوی سے رجوع کیا۔
(وحیدی)
علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً علماءکا امراءکے ہاں جاکر علمی مذاکرات کرنا، منقولات میں اگر ذرا بھی شک ہو جائے تو اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے عالم کی طرف رجوع کرکے اس سے امر حق معلوم کرنا، ایسے امور جن پر عورتوں کو بہ نسبت مردوں کے زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے، کی بابت عورتوں کی روایات کو مردوں کی مرویات پر ترجیح دینا، اسی طرح بالعکس جن امور پر مردوں کو زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے ان کے لیے مردوں کی روایات کو عورتوں کی مرویات پر ترجیح دینا، بہرحال ہر امر میں آنحضرت ﷺ کی اقتداءکرنا، جب تک اس امر کے متعلق خصوصیت نبوی نہ ثابت ہو اور یہ کہ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا اور خبر واحد مرد سے مروی ہو یا عورت سے اس کا حجت ہونا، یہ جملہ فوائد اس حدیث سے نکلتے ہیں اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے، جنہوں نے حق کا اعتراف فرما کر اس کی طرف رجوع کیا۔
(فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1925   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1925  
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم میں اس واقعے کی کچھ مزید تفصیل ہے۔
حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں:
میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک دفعہ سنا کہ جو شخص صبح کے وقت بحالت جنابت ہو وہ روزہ نہ رکھے۔
میں نے اس بات کا ذکر اپنے باپ عبدالرحمٰن بن حارث سے کیا تو انہوں نے اس موقف کا انکار کیا اور مجھے حضرت عائشہ اور ام سلمہ ؓ کے پاس لے گئے۔
ان دونوں ازواج مطہرات نے فرمایا:
بسا اوقات رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت بحالت جنابت ہوتے لیکن آپ روزہ رکھ لیتے، پھر جب حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پاس ازواج مطہرات کے فتوے کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا:
کیا واقعی انہوں نے ایسا فرمایا ہے؟ عرض کیا گیا، ہاں، تو انہوں نے فرمایا:
وہ اس سلسلے میں مجھ سے زیادہ جانتی ہیں۔
میں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے یہ بات نہیں سنی بلکہ مجھے حضرت فضل بن عباس ؓ نے بتائی تھی۔
اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2589(1109) (2)
حضرت ابو ہریرہ ؓ لوگوں کو فتویٰ دیتے تھے کو جو بحالت جنابت صبح کرے وہ اس دن روزہ نہ رکھے لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا، البتہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اس کے نسخ کا علم نہ ہوا، اس لیے اپنے علم کے مطابق فتویٰ دیتے رہے۔
پھر جب انہیں صحیح صورت حال کا علم ہوا تو اپنے فتویٰ سے رجوع کر لیا۔
اہل علم کی یہی شان ہے کہ جب انہیں صحیح بات معلوم ہو جائے تو اسے اختیار کر لیتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
(3)
تنگی وقت کے پیش نظر جس طرح جنبی آدمی روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتا ہے اسی طرح حیض و نفاس والی عورت کا خون اگر رات کے وقت رک جائے اور وقت بالکل تھوڑا ہو تو وہ روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتی ہے۔
اس پر جملہ اہل علم کا اتفاق ہے۔
(فتح الباري: 190/4) (4)
حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے، جن میں چند ایک حسب ذیل ہیں:
٭ علمائے کرام کا امرائے وقت کے پاس جا کر علمی مذاکرات کرنا۔
٭ منقولات میں اگر شک پڑ جائے تو اہل علم کی طرف رجوع کرنا۔
٭ جن امور میں عورتوں کو زیادہ اطلاع ہو سکتی ہے، ایسے مسائل میں ان کی مرویات کو ترجیح دینا۔
٭ جملہ معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال و معمولات کی اقتدا کرنا۔
٭ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کو آخری اتھارٹی قرار دینا۔
٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جنہوں نے اعتراف حق کر کے اس کی طرف رجوع کیا۔
(فتح الباري: 190/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1925   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 550  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جماع سے جنبی ہوتے تو صبح ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور روزہ رکھتے۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں یہ زائد کیا کہ قضاء نہیں دیتے تھے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 550]
فائدہ 550:
مذکورہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جنبی آدمی پر غسل سے پہلے صبح ہو جائے تو روزہ درست ہے۔ جمھور اسی کے قائل ہیں بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے اور اس کے معارض مسند امام احمد وغیرہ میں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کسی پر حالتِ جنابت میں صبح ہو جائے تو روزہ نہ رکھے، اس کے بارے میں جمھور نے کہا ہے کہ وہ منسوخ ہے اور خود ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنے کے قائل تھے) نے جب یہ حدیث سنی تو انہوں نے اس سے رجوع کر لیا تھا۔ [سبل السلام وغیرہ ]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 550   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:200  
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت جنابت میں روزہ رکھنا درست ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 200   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1926  
1926. حضرت ابو بکر بن عبدالرحمان سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں اور میرے والد حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسری سند کے ساتھ یہ ہے کہ عبدالرحمان نے مروان بن حکم کو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بیویوں کی مقاربت کی وجہ سے صبح تک بحالت جنابت رہتے پھر غسل کرتے اور روزہ رکھ لیتے۔ مروان نے عبدالرحمان بن حارث سے کہا کہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرۃ ؓ کو واضح طور پر سنا دو۔ مروان اس وقت مدینہ طیبہ کا گورنر تھا۔ راوی حدیث ابو بکر کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمان نے اس بات کو پسند نہ کیا پھر ہم ا تفاق سے ذوالحلیفہ میں اکھٹے ہوئے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ کی وہاں زمین تھی۔ اس وقت عبدالرحمان بن حارث نے حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے کہا: میں آپ سے ایک بات ذکر کرتا ہوں اگرا س کے متعلق مروان نے مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1926]
حدیث حاشیہ:
ابوہریرہ ؓ نے فضل کی حدیث سن کر اس کے خلاف فتوی دیا تھا۔
مروان کا یہ مطلب تھا کہ عبدالرحمن ان کو پریشان کریں لیکن عبدالرحمن نے یہ منظور نہ کیا اور خاموش رہے پھر موقع پاکر ابوہریرہ ؓ سے اس مسئلہ کو ذکر کیا۔
ایک روایت میں ہے کہ ابوہریرہ نے عائشہ اور ام سلمہ ؓ کی حدیث سن کر کہا کہ وہ خوب جانتی ہیں گویا اپنے فتوی سے رجوع کیا۔
(وحیدی)
علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً علماءکا امراءکے ہاں جاکر علمی مذاکرات کرنا، منقولات میں اگر ذرا بھی شک ہو جائے تو اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے عالم کی طرف رجوع کرکے اس سے امر حق معلوم کرنا، ایسے امور جن پر عورتوں کو بہ نسبت مردوں کے زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے، کی بابت عورتوں کی روایات کو مردوں کی مرویات پر ترجیح دینا، اسی طرح بالعکس جن امور پر مردوں کو زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے ان کے لیے مردوں کی روایات کو عورتوں کی مرویات پر ترجیح دینا، بہرحال ہر امر میں آنحضرت ﷺ کی اقتداءکرنا، جب تک اس امر کے متعلق خصوصیت نبوی نہ ثابت ہو اور یہ کہ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا اور خبر واحد مرد سے مروی ہو یا عورت سے اس کا حجت ہونا، یہ جملہ فوائد اس حدیث سے نکلتے ہیں اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے، جنہوں نے حق کا اعتراف فرما کر اس کی طرف رجوع کیا۔
(فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1926   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1926  
1926. حضرت ابو بکر بن عبدالرحمان سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں اور میرے والد حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسری سند کے ساتھ یہ ہے کہ عبدالرحمان نے مروان بن حکم کو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بیویوں کی مقاربت کی وجہ سے صبح تک بحالت جنابت رہتے پھر غسل کرتے اور روزہ رکھ لیتے۔ مروان نے عبدالرحمان بن حارث سے کہا کہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرۃ ؓ کو واضح طور پر سنا دو۔ مروان اس وقت مدینہ طیبہ کا گورنر تھا۔ راوی حدیث ابو بکر کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمان نے اس بات کو پسند نہ کیا پھر ہم ا تفاق سے ذوالحلیفہ میں اکھٹے ہوئے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ کی وہاں زمین تھی۔ اس وقت عبدالرحمان بن حارث نے حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے کہا: میں آپ سے ایک بات ذکر کرتا ہوں اگرا س کے متعلق مروان نے مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1926]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم میں اس واقعے کی کچھ مزید تفصیل ہے۔
حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں:
میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک دفعہ سنا کہ جو شخص صبح کے وقت بحالت جنابت ہو وہ روزہ نہ رکھے۔
میں نے اس بات کا ذکر اپنے باپ عبدالرحمٰن بن حارث سے کیا تو انہوں نے اس موقف کا انکار کیا اور مجھے حضرت عائشہ اور ام سلمہ ؓ کے پاس لے گئے۔
ان دونوں ازواج مطہرات نے فرمایا:
بسا اوقات رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت بحالت جنابت ہوتے لیکن آپ روزہ رکھ لیتے، پھر جب حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پاس ازواج مطہرات کے فتوے کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا:
کیا واقعی انہوں نے ایسا فرمایا ہے؟ عرض کیا گیا، ہاں، تو انہوں نے فرمایا:
وہ اس سلسلے میں مجھ سے زیادہ جانتی ہیں۔
میں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے یہ بات نہیں سنی بلکہ مجھے حضرت فضل بن عباس ؓ نے بتائی تھی۔
اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2589(1109) (2)
حضرت ابو ہریرہ ؓ لوگوں کو فتویٰ دیتے تھے کو جو بحالت جنابت صبح کرے وہ اس دن روزہ نہ رکھے لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا، البتہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اس کے نسخ کا علم نہ ہوا، اس لیے اپنے علم کے مطابق فتویٰ دیتے رہے۔
پھر جب انہیں صحیح صورت حال کا علم ہوا تو اپنے فتویٰ سے رجوع کر لیا۔
اہل علم کی یہی شان ہے کہ جب انہیں صحیح بات معلوم ہو جائے تو اسے اختیار کر لیتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
(3)
تنگی وقت کے پیش نظر جس طرح جنبی آدمی روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتا ہے اسی طرح حیض و نفاس والی عورت کا خون اگر رات کے وقت رک جائے اور وقت بالکل تھوڑا ہو تو وہ روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتی ہے۔
اس پر جملہ اہل علم کا اتفاق ہے۔
(فتح الباري: 190/4) (4)
حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے، جن میں چند ایک حسب ذیل ہیں:
٭ علمائے کرام کا امرائے وقت کے پاس جا کر علمی مذاکرات کرنا۔
٭ منقولات میں اگر شک پڑ جائے تو اہل علم کی طرف رجوع کرنا۔
٭ جن امور میں عورتوں کو زیادہ اطلاع ہو سکتی ہے، ایسے مسائل میں ان کی مرویات کو ترجیح دینا۔
٭ جملہ معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال و معمولات کی اقتدا کرنا۔
٭ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کو آخری اتھارٹی قرار دینا۔
٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جنہوں نے اعتراف حق کر کے اس کی طرف رجوع کیا۔
(فتح الباري: 190/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1926   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.