صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
The Book of Penalty For Hunting
9. بَابُ لاَ يُنَفَّرُ صَيْدُ الْحَرَمِ:
9. باب: حرم کے شکار ہانکے نہ جائیں۔
(9) Chapter. The game in the Haram (Sanctuary) should not be chased or disturbed.
حدیث نمبر: 1833
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الله حرم مكة، فلم تحل لاحد قبلي ولا تحل لاحد بعدي، وإنما احلت لي ساعة من نهار لا يختلى خلاها، ولا يعضد شجرها، ولا ينفر صيدها، ولا تلتقط لقطتها، إلا لمعرف"، وقال العباس: يا رسول الله، إلا الإذخر لصاغتنا وقبورنا، فقال: إلا الإذخر، وعن خالد، عن عكرمة، قال: هل تدري ما لا ينفر صيدها؟ هو ان ينحيه من الظل ينزل مكانه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ، فَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا، وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا، إِلَّا لِمُعَرِّفٍ"، وَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا الْإِذْخِرَ لِصَاغَتِنَا وَقُبُورِنَا، فَقَالَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ، وَعَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: هَلْ تَدْرِي مَا لَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا؟ هُوَ أَنْ يُنَحِّيَهُ مِنَ الظِّلِّ يَنْزِلُ مَكَانَهُ.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے مجھ سے پہلے بھی یہ کسی کے لیے حلال نہیں تھا اس لیے میرے بعد بھی وہ کسی کے لیے حلال نہیں ہو گا۔ میرے لیے صرف ایک دن گھڑی بھر حلال ہوا تھا اس لیے اس کی گھاس نہ اکھاڑی جائے اور اس کے درخت نہ کاٹے جائیں، اس کے شکار نہ بھڑکائے جائیں اور نہ وہاں کی گری ہوئی چیز اٹھائی جائے۔ ہاں اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے۔ (تاکہ اصل مالک تک پہنچا دے) عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! اذخر کی اجازت دیجئیے کیونکہ یہ ہمارے سناروں اور ہماری قبروں کے لیے کام آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔ خالد نے روایت کیا کہ عکرمہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ شکار کو نہ بھڑکانے سے کیا مراد ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ (اگر کہیں کوئی جانور سایہ میں بیٹھا ہوا ہے تو) اسے سایہ سے بھگا کر خود وہاں قیام نہ کرے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: "The Prophet said, 'Allah has made Mecca, a sanctuary, so it was a sanctuary before me and will continue to be a sanctuary after me. It was made legal for me (i.e. I was allowed to fight in it) for a few hours of a day. It is not allowed to uproot its shrubs or to cut its trees, or to chase (or disturb) its game, or to pick up its luqata (fallen things) except by a person who would announce that (what he has found) publicly.' Al-`Abbas said, 'O Allah's Apostle! Except Al-Idhkhir (a kind of grass) (for it is used) by our goldsmiths and for our graves.' The Prophet then said, 'Except Al-Idhkhir.' " `Ikrima said, 'Do you know what "chasing or disturbing" the game means? It means driving it out of the shade to occupy its place."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 29, Number 59


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري1833عبد الله بن عباسالله حرم مكة لم تحل لأحد قبلي لا تحل لأحد بعدي إنما أحلت لي ساعة من نهار لا يختلى خلاها لا يعضد شجرها لا ينفر صيدها لا تلتقط لقطتها إلا لمعرف
   صحيح البخاري2090عبد الله بن عباسالله حرم مكة ولم تحل لأحد قبلي ولا لأحد بعدي وإنما حلت لي ساعة من نهار لا يختلى خلاها ولا يعضد شجرها ولا ينفر صيدها ولا يلتقط لقطتها إلا لمعرف
   سنن النسائى الصغرى2878عبد الله بن عباسهذا البلد حرام حرمه الله لم يحل فيه القتال لأحد قبلي أحل لي ساعة من نهار هو حرام بحرمة الله
   سنن النسائى الصغرى2895عبد الله بن عباسهذه مكة حرمها الله يوم خلق السموات والأرض لم تحل لأحد قبلي لا لأحد بعدي أحلت لي ساعة من نهار وهي ساعتي هذه حرام بحرام الله إلى يوم القيامة لا يختلى خلاها لا يعضد شجرها لا ينفر صيدها لا تحل لقطتها إلا لمنشد وكان رجلا مجربا
   سنن النسائى الصغرى2877عبد الله بن عباسهذا البلد حرمه الله يوم خلق السموات والأرض هو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة لا يعضد شوكه لا ينفر صيده لا يلتقط لقطته إلا من عرفها لا يختلى خلاه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1833 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1833  
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حرم محترم کا مقام یہ ہے کہ جس میں کسی جانور تک کو بھی ستانا، اس کو اس کے آرام کی جگہ سے اٹھا دینا، خود اس جگہ پر قبضہ کر لینا یہ جملہ امور حرم شریف کے آداب کے خلاف ہیں۔
ایام حج میں ہر حاجی کا فرض ہے کہ وہاں دوسرے بھائیوں کے آرام کا ہر وقت خیال رکھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1833   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1833  
حدیث حاشیہ:
حدیث کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کہ حرم میں کسی شکار کو خوفزدہ کرنا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ اسے جان سے مار ڈالا جائے۔
حضرت عکرمہ نے اس کے معنی یہ کیے ہیں:
اسے تلف کرنے اور ہر قسم کی تکلیف دینے سے منع کیا گیا ہے، یہاں ادنیٰ سے اعلیٰ تک تنبیہ کرنا مقصود ہے۔
حضرت عطاء اور حضرت مجاہد نے اس کے برعکس موقف اختیار کیا ہے۔
وہ فرماتے ہیں:
شکار کو بھگا دینے میں کوئی حرج نہیں۔
ہاں، قتل تک نوبت نہیں آنی چاہیے۔
بہرحال جمہور کے نزدیک حرم میں شکار کو خوفزدہ کرنا ناجائز ہے، خواہ وہ ہلاک ہو یا نہ ہو۔
اگر اس کے خوفزدہ کرنے سے وہ ہلاک ہو گیا تو اس کا تاوان دینا ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1833   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2877  
´مکہ کے احترام و تقدس کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ شہر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اسی دن سے محترم قرار دیا ہے جس دن اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، لہٰذا یہ اللہ کی حرمت کی سبب سے قیامت تک حرمت والا رہے گا، نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں گے، نہ اس کے شکار بدکائے جائیں گے، نہ وہاں کی کوئی گری پڑی چیز اٹھائے گا سوائے اس شخص کے جو اس کی پہچان کرائے اور نہ وہاں کی ہری شاخ کاٹی جائے گی، اس پر ابن عباس رضی اللہ عن [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2877]
اردو حاشہ:
(1) اس شہر یعنی جو اب شہر بن چکا ہے ورنہ تحریم کے وقت تو شہر نہ تھا۔
(2) حرم قرار دیا یعنی فیصلہ فرما لیا تھا اگرچہ لوگوں کو اس بات کا علم بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی ہوا۔ گویا فیصلہ اللہ تعالیٰ کا تھا اور اعلان حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا، لہٰذا تحریم کی نسبت دونوں کی طرف ہو سکتی ہے۔ پہلی حقیقتاً دوسری مجازاً۔
(3) کانٹے دار درخت یعنی خود رو جنھیں کوئی لگاتا نہیں۔ باقی رہے وہ درخت جو پھل دار ہوں یا جنھیں بیج ڈال کر لگایا گیا ہو، اسی طرح فصلیں وغیرہ، تو انھیں کاٹا جا سکتا ہے اور پھل توڑ کر کھائے جا سکتے ہیں۔
(4) نہ بھگایا جائے یعنی شکار کے لیے اس کا پیچھا نہ کیا جائے اور اس سے بالکل تعرض نہ کیا جائے حتیٰ کہ سائے میں بیٹھے جانور کو سائے سے بھی نہ اٹھایا جائے۔
(5) اعلان کرتا رہے یعنی ہمیشہ اعلان ہی کرے۔ اپنے استعمال میں نہ لائے ورنہ حرم کی خصوصیت نہیں رہے گی۔ احناف کے نزدیک حرم کے لقطہ کی کوئی خصوصیت نہیں۔ صرف ایک سال ہی اعلان کا حکم ہے۔ عام لقطہ کی طرح یہاں خصوصی ذکر صرف تاکید اور تنبیہ کے لیے ہے کہ کوئی سستی نہ کرے۔ پہلی بات زیادہ قوی ہے۔
(6) اذخر مرچ کے پودے کی بالکل ہم شکل ایک قسم کی گھاس ہے جس کی لوگوں کو اشد ضرورت رہتی تھی، جلانے کے لیے، بچھانے کے لیے وغیرہ، اس لیے اس کے کاٹنے کی اجازت دے دی گئی۔
(7) مگر اذخر اس سے معلوم ہوا کہ بعض دفعہ رسول اللہﷺ اجتہاد کر کے حکم جاری فرما دیتے تھے اگر وہ درست نہ ہوتا تو وحی نازل ہو جاتی وگرنہ وہ حکم ثابت رہتا۔ دیگر حضرات اسے بھی وحی پر محمول کرتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2877   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2878  
´مکہ مکرمہ میں جنگ و جدال کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: یہ شہر (مکہ) حرام ہے اور اسے اللہ عزوجل نے حرام قرار دیا ہے، اس میں لڑائی مجھ سے پہلے کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہوئی۔ صرف میرے لیے ذرا سی دیر کے لیے جائز کی گئی، لہٰذا یہ اللہ عزوجل کے حرام قرار دینے کی وجہ سے حرام (محترم و مقدس) ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2878]
اردو حاشہ:
مکہ مکرمہ میں قتال کرنا قطعاً جائز نہیں ہے، نبیﷺ کو مختصر وقت کے لیے قتال کی اجازت دی گئی تھی، پھر بعد میں قیامت کے لیے اس میں قتال کو حرام قرار دے دیا گیا، لہٰذا اب کسی صورت میں بھی مکہ مکرمہ میں قتال کرنا درست نہیں، ہاں اگر خارجی دشمن حملہ آور ہو تو ارض مقدسہ کا دفاع کرنا ضروری ہے، حدود حرم میں حدود کا نفاذ مختلفہ فیہ مسئلہ ہے جس کی وضاحت آئندہ اوراق میں آئے گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2878   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2090  
2090. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرمت والا قراردیا۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے یہ حلال نہ ہوااور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی صرف(دن کی)ایک گھڑی حلال ہوا، لہٰذا اس کی گھاس کو نہ اکھاڑاجائے اور نہ اس کا درخت ہی کاٹا جائے۔ اس کا شکاربھی نہ بھگایا جائے اور نہ وہاں کی گری پڑی کسی چیز ہی کو اٹھایا جائے۔ ہاں وہ اٹھاسکتا ہے جو اس کی تشہیر کرے۔ " حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: ہمارے سناروں اور گھروں کی چھتوں کے لیے اذخر کی اجازت دیجیے۔ آپ نے فرمایا: "ہاں اذخر کی اجازت ہے۔ "(راوی حدیث)حضرت عکرمہ نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ شکار کے بھگانے سے کیا مراد ہے۔؟وہ یہ ہے کہ اسے سائے سے ہٹا کر خود وہاں پڑاؤ کرلے۔ عبدالوہاب نے خالد سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ ہمارے سناروں اور ہماری قبروں کے لیے(اذخر کی اجازت دیجیے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2090]
حدیث حاشیہ:
یعنی بجائے چھتوں کے عبدالوہاب کی روایت میں قبروں کا ذکر ہے۔
عرب لوگ اذخر کو قبروں میں بھی ڈالتے اور چھت بھی اس سے پاٹتے وہ ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔
عبدالوہاب کی روایت کو خو دامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الحج میں نکالا ہے۔
روایت میں سناروں کا ذکر ہے، اسی سے اس پیشہ کا درست ہونا ثابت ہوا۔
سنار جو سونا چاندی وغیرہ سے عورتوں کے زیور بنانے کا دھندا کرتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2090   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2090  
2090. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرمت والا قراردیا۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے یہ حلال نہ ہوااور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی صرف(دن کی)ایک گھڑی حلال ہوا، لہٰذا اس کی گھاس کو نہ اکھاڑاجائے اور نہ اس کا درخت ہی کاٹا جائے۔ اس کا شکاربھی نہ بھگایا جائے اور نہ وہاں کی گری پڑی کسی چیز ہی کو اٹھایا جائے۔ ہاں وہ اٹھاسکتا ہے جو اس کی تشہیر کرے۔ " حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: ہمارے سناروں اور گھروں کی چھتوں کے لیے اذخر کی اجازت دیجیے۔ آپ نے فرمایا: "ہاں اذخر کی اجازت ہے۔ "(راوی حدیث)حضرت عکرمہ نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ شکار کے بھگانے سے کیا مراد ہے۔؟وہ یہ ہے کہ اسے سائے سے ہٹا کر خود وہاں پڑاؤ کرلے۔ عبدالوہاب نے خالد سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ ہمارے سناروں اور ہماری قبروں کے لیے(اذخر کی اجازت دیجیے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2090]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے پیشۂ زرگری کا جواز ملتا ہےاگرچہ یہ حضرات بہت سے ناجائز کام بھی کرتے ہیں اور پالش کے نام سے زائد رقم بٹورتے ہیں۔
حالانکہ پالش کرنے سےسونے کا وزن کم ہوجاتا ہے اور یہ لوگ پالش کا اضافی وزن سونے میں ڈالتے ہیں، اس کے بعد جب انھیں وہی زیور فروخت کریں تو رتی فی ماشہ کی شرح سے کٹوتی کرکے صافی وزن نکالتے ہیں۔
ایسے کاموں سے گناہ ضرور ہوتا ہے لیکن یہ پیشہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(2)
پہلی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ پیشہ ور شخص سے فائدہ لینا جائز ہے اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔
آخر میں پیش کردہ تعلیق کو خود ہی امام بخاری نے کتاب الجنائز،حدیث: 1349 میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(3)
واضح رہے کہ ہر وحشی جانور انسان کو دیکھ کر دور ہی سے نفرت کرتا ہے۔
یہ تنقیر انسان کے بس میں نہیں جس پر اسے گناہ گار کہا جاسکے۔
ہاں اگر زیادتی انسان کی طرف سے ہو کہ اس جانور کو سایہ دار درخت سے بھگا کر خود وہاں پڑاؤ کرے تو اس سے مکہ کی حرمت پامال ہوگی۔
غالباً اسی نکتے کی وجہ سے حضرت عکرمہ نے تنقیر کی تفسیر بیان کی ہے۔
(صحیح البخاری،الجنائز،حدیث: 1349)
والله اعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2090   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.