(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال للوزغ: فويسق، ولم اسمعه امر بقتله"، قال ابو عبد الله: إنما اردنا بهذا ان منى من الحرم، وانهم لم يروا بقتل الحية باسا.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِلْوَزَغِ: فُوَيْسِقٌ، وَلَمْ أَسْمَعْهُ أَمَرَ بِقَتْلِهِ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: إِنَّمَا أَرَدْنَا بِهَذَا أَنَّ مِنًى مِنْ الْحَرَمِ، وَأَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْا بِقَتْلِ الْحَيَّةِ بَأْسًا.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کو موذی کہا تھا لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ آپ نے اسے مارنے کا بھی حکم دیا تھا۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1831
حدیث حاشیہ: ابن عبدالبر نے کہا اس پر علماءکا اتفاق ہے کہ چھپکلی مار ڈالنا حل اور حرم دونوں جگہ درست ہے، واللہ أعلم۔ حافظ نے کہا کہ ابن عبدالحکیم نے امام مالک سے اس کے خلاف نقل کیا کہ اگر محرم چھپکلی کو مارے تو صدقہ دے کیوں کہ وہ ان پانچ جانوروں میں نہیں ہے جن کا قتل جائز ہے اور ابن ابی شیبہ نے عطا سے نکالا کہ بچھو وغیرہ پر قیاس کیا جاسکتا ہے اورحل و حرم میں اسے مارنا بھی درست کہا جاسکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1831
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1831
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ کا اسے موذی قرار دینا اس بات کی علامت ہے کہ اسے قتل کرنا جائز ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے نہ سننا حکم امتناعی کی دلیل نہیں بن سکتا جبکہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ خود امام بخاری ؒ نے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث: 3306) حضرت ام شریک ؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اس کے مارنے کا حکم بیان کیا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ چھپکلی نے حضرت ابراہیم ؑ کی آگ کو تیز کرنے کے لیے پھونکیں ماری تھیں۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3359) بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مارنے پر نوید ثواب سنائی ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ”جو چھپکلی کو پہلی ضرب میں قتل کرے گا اسے سو نیکیاں ملیں گی“(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5847(2240)(2) ابن عبد البر ؒ نے اجماع نقل کیا ہے کہ حل و حرم میں چھپکلی کو مارنا جائز ہے لیکن حضرت عطاء بن ابی رباح سے حرم میں چھپکلی مارنے کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: اگر تجھے اذیت پہنچائے تو اس کے قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے مارنے کو اس کی ضرر رسانی پر موقوف خیال کرتے ہیں۔ (فتح الباري: 54/4)(3) حدیث کے آخر میں مذکور امام بخاری ؒ کے ارشاد کا تعلق سابقہ حدیث: (1830) سے ہے۔ چونکہ اکثر نسخوں میں اس کا ذکر ہے، اس لیے اسے یہیں رہنے دیا گیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1831