ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا حبشی خراب کرے گا۔“
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1596
حدیث حاشیہ: اوپر والی حدیث میں أفحج کا لفظ ہے اورافحج وہ ہے جو اکڑتا ہوا چلے یا چلتے میں اس کے دونوں پنجے تو نزدیک رہیں اور دونوں ایڑیوں میں فاصلہ رہے۔ وہ حبشی مردود جو قیامت کے قریب کعبہ ڈھائے گا وہ اسی شکل کا ہوگا۔ دوسری روایت میں ہے اس کی آنکھیں نیلی، ناک پھیلی ہوئی ہوگی، پیٹ بڑا ہوگا۔ اس کے ساتھ اور لوگ ہوںگے، وہ کعبہ کا ایک ایک پتھر اکھاڑ ڈالیں گے اور سمندر میں لے جاکر پھینک دیں گے۔ یہ قیامت کے بالکل نزدیک ہوگا۔ اللہ ہرفتنے سے بچائے آمین۔ ووقع هذا الحديث عند أحمد من طريق سعيد بن سمعان عن أبي هريرة بأتم من هذا السياق ولفظه يبايع للرجل بين الركن والمقام ولن يستحل هذا البيت إلا أهله فإذا استحلوه فلا تسأل عن هلكة العرب ثم تجيء الحبشة فيخربونه خرابا لا يعمر بعده أبدا وهم الذين يستخرجون كنزه ولأبي قرة في السنن من وجه آخر عن أبي هريرة مرفوعا لا يستخرج كنز الكعبة إلا ذو السويقتين من الحبشة ونحوه لأبي داود من حديث عبد الله بن عمرو بن العاص وزاد أحمد والطبراني من طريق مجاهد عنه فيسلبها حليتها ويجردها من كسوتها كأني أنظر إليه أصيلع أفيدع يضرب عليها بمسحاته أو بمعوله۔ قيل هذا الحديث يخالف قوله تعالى أو لم يروا أنا جعلنا حرما آمنا ولأن الله حبس عن مكة الفيل ولم يمكن أصحابه من تخريب الكعبة ولم تكن إذ ذاك قبلة فكيف يسلط عليها الحبشة بعد أن صارت قبلة للمسلمين وأجيب بأن ذلك محمول على أنه يقع في آخر الزمان قرب قيام الساعة حيث لا يبقى في الأرض أحد يقول الله الله كما ثبت في صحيح مسلم لا تقوم الساعة حتى لا يقال في الأرض الله الله واعترض بعض الملحدین علی الحدیث الماضه فقال کیف سودتخ خطایا المشرکین ولم تبیضخ طاعات أهل التوحید وأجیب بما قال ابن قتیبة لوشاءاللہ لکان ذلك وإنما أجری اللہ العادة بأن السواد یصبغ علی العکس من البیاض۔ (فتح الباري)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1596
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1596
حدیث حاشیہ: (1) یہ واقعہ حضرت ؑ کے دوبارہ آنے اور ان کے وفات پانے کے بعد ہو گا جب قرآنی تعلیمات کو سینوں سے اٹھا لیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کو انہدام کعبہ کا منظر دکھایا گیا، پھر آپ نے اس چشم دید واقعہ سے اپنی امت کو آگاہ فرمایا کہ کعبہ کو گرانے والا سیاہ فام حبشی تکبر و غرور سے چلتا ہوا آئے گا۔ چلنے میں اس کے دونوں پنجے تو نزدیک، البتہ ایڑیوں میں فاصلہ ہو گا۔ سر سے گنجا، ناک پھیلی ہوئی، پیٹ بڑا، اپنے ہاتھ میں بھالا پکڑے ہوئے آئے گا۔ اس کے ساتھ اس قماش کے دوسرے لوگ بھی ہوں گے جو اس کی سربراہی میں بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور اس کا ایک ایک پتھر اکھاڑ کر سمندر میں پھینک دیں گے۔ اور ایسا عین قرب قیامت کے وقت ہو گا۔ (2) مسند احمد میں یہ روایت ذرا تفصیل سے بیان ہوئی ہے کہ ایک آدمی کی مقام ابراہیم اور رکن یمانی کے درمیان بیعت لی جائے گی اور اس بیت اللہ کو خود مسلمان ہی سب سے پہلے اپنے لیے حلال خیال کریں گے۔ جب ایسے واقعات رونما ہوں گے تو عرب کی تباہی قریب ہو گی۔ پھر اس کے بعد حبشی آئیں گے جو اس کے ایک ایک پتھر کو اکھاڑ پھینکیں گے اور اس کے خزانے نکال لیں گے۔ اس کے بعد کعبہ کبھی آباد نہیں ہو گا۔ (مسندأحمد: 291/2، والصحیحة، حدیث: 2743) ایک روایت میں ہے کہ اس میں موجود سونے چاندی کے زیورات نکال لیں گے اور اس کا غلاف بھی اتار پھینکیں گے، گویا میں اب بھی اس گنجے سیاہ فام چھوٹی پنڈلیوں والے حبشی کو دیکھ رہا ہوں، اس کے ہاتھ میں بھالا ہے، جس سے وہ بیت اللہ کے پتھر اکھاڑ رہا ہے۔ (مسندأحمد: 220/2)(3) واضح رہے کہ انہدام کا یہ واقعہ عین قرب قیامت کے وقت ہو گا جب زمین پر کوئی بھی اللہ کا نام لینے والا باقی نہیں رہے گا، اس لیے یہ واقعہ کعبہ کے امن و امان کا گہوارہ ہونے کے خلاف نہیں کیونکہ اس کا امن و امان قیامت تک رہنے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ (فتح الباري؛583/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1596