6. باب: فرمان باری تعالیٰ کہ توشہ ساتھ میں لے لو اور سب سے بہتر توشہ تقویٰ ہے۔
(6) Chapter. The Statement of Allah: "And take provision (with you) for the journey, but the best provision is At-Taqwa (piety, righteousness) …" (V. 2:197)
(موقوف) حدثنا يحيى بن بشر، حدثنا شبابة، عن ورقاء، عن عمرو بن دينار، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" كان اهل اليمن يحجون ولا يتزودون ويقولون: نحن المتوكلون، فإذا قدموا مكة سالوا الناس، فانزل الله تعالى: وتزودوا فإن خير الزاد التقوى سورة البقرة آية 197"، رواه ابن عيينة، عن عمرو، عن عكرمة مرسلا.(موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ أَهْلُ الْيَمَنِ يَحُجُّونَ وَلَا يَتَزَوَّدُونَ وَيَقُولُونَ: نَحْنُ الْمُتَوَكِّلُونَ، فَإِذَا قَدِمُوا مَكَّةَ سَأَلُوا النَّاسَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى سورة البقرة آية 197"، رَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا.
ہم سے یحییٰ بن بشر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شبابہ بن سوار نے بیان کیا، ان سے ورقاء بن عمرو نے، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یمن کے لوگ راستہ کا خرچ ساتھ لائے بغیر حج کے لیے آ جاتے تھے۔ کہتے تو یہ تھے کہ ہم توکل کرتے ہیں لیکن جب مکہ آتے تو لوگوں سے مانگنے لگتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ”اور توشہ لے لیا کرو کہ سب سے بہتر توشہ تو تقویٰ ہی ہے۔“ اس کو ابن عیینہ نے عمرو سے بواسطہ عکرمہ مرسلاً نقل کیا ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: The people of Yemen used to come for Hajj and used not to bring enough provisions with them and used to say that they depend on Allah. On their arrival in Medina they used to beg the people, and so Allah revealed, "And take a provision (with you) for the journey, but the best provision is the fear of Allah." (2.197).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 598
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1523
حدیث حاشیہ: مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ تابعی آنحضرت ﷺ کی حدیث بیان کرے اور جس صحابی سے وہ نقل کررہا ہے اس کا نام نہ لے۔ صحابی کا نام لینے سے یہی حدیث پھر مرفوع کہلاتی ہے جو درجہ قبولیت میں خاص مقام رکھتی ہے۔ یعنی صحیح مرفوع حدیث نبوی (صلی اللہ علیه وسلم) آیت شریفہ میں تقویٰ سے مراد مانگنے سے بچنا اور اپنے مصارف سفر کا خود انتطام کرنا مراد ہے اور یہ بھی کہ اس سفر سے بھی زیادہ اہم سفر آخرت درپیش ہے۔ اس کا توشہ بھی تقویٰ پر ہیزگاری گناہوں سے بچنا اور پاک زندگی گزارنا ہے۔ بہ سلسلہ حج تقویٰ کی تلقین یہی حج کا ماحصل ہے۔ آج بھی جولوگ حج میں دست سوال دراز کرتے ہیں، انہوں نے حج کا مقصد ہی نہیں سمجھا۔ قَالَ الْمُهَلَّبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنَ الْفِقْهِ أَنَّ تَرْكَ السُّؤَالِ مِنَ التَّقْوَى وَيُؤَيِّدُهُ أَنَّ اللَّهَ مَدَحَ مَنْ لَمْ يَسْأَلِ النَّاسَ إِلْحَافًا فَإِنَّ قَوْلَهُ فَإِنَّ خَيْرَ الزَّاد التَّقْوَى أَيْ تَزَوَّدُوا وَاتَّقُوا أَذَى النَّاسِ بِسُؤَالِكُمْ إِيَّاهُمْ وَالْإِثْمَ فِي ذَلِكَ (فتح) یعنی مہلب نے کہا کہ اس حدیث سے یہ سمجھا گیا کہ سوال نہ کرنا تقویٰ سے ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتا۔ خیرالزاد التقویٰ کا مطلب یہ کہ ساتھ میں توشہ اور سوال کر کر کے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور سوال کرنے کے گناہ سے بچو۔ مانگنے والا متوکل نہیں ہوسکتا۔ حقیقی توکل یہی ہے کہ کسی سے بھی کسی چیز میں مدد نہ مانگی جائے اور اسباب مہیا کرنے کے باوجود بھی اسباب سے قطع نظر کرنا یہ توکل سے ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اونٹ والے سے فرمایا تھا کہ اسے مضبوط باندھ پھر اللہ پر بھروسہ رکھ گفت پیغمبر باواز بلند برتوکل زانوئے اشتربہ بند
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1523
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1523
حدیث حاشیہ: (1) توکل کی تعریف یہ ہے کہ اسباب وذرائع کو بروئے کارلاکر پھر اللہ پر بھروسہ کیا جائے کیونکہ ان ذرائع کو مؤثر اور ثمر آور بنانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ کر بیٹھ رہنا یہ تاکل ہے توکل نہیں۔ مذکورہ حدیث میں توکل کی مذمت نہیں بلکہ لوگوں کے فعل کی مذمت ہے کیونکہ ان کا فعل توکل نہیں محض تکلف تھا۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ سوال نہ کرنا تقویٰ سے ہے اور اس کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتا۔ مذکورہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ سفر حج میں توشہ لے کر چلو اور لوگوں سے سوال کرکے انھیں تکلیف نہ پہنچاؤ، نیز سوال کرنے کے گناہ سے پرہیز کرو۔ (فتح الباري: 484/3) آج بھی جو لوگ دوران حج میں دست سوال دراز کرتے ہیں انھوں نے حج کے مقصد کو نہیں سمجھا۔ (3) ابن عینیہ کی روایت کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے۔ (4) مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ تابعی رسول الله ﷺ سے براہِ راست بیان کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1523