Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
6. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى} :
باب: فرمان باری تعالیٰ کہ توشہ ساتھ میں لے لو اور سب سے بہتر توشہ تقویٰ ہے۔
حدیث نمبر: 1523
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ أَهْلُ الْيَمَنِ يَحُجُّونَ وَلَا يَتَزَوَّدُونَ وَيَقُولُونَ: نَحْنُ الْمُتَوَكِّلُونَ، فَإِذَا قَدِمُوا مَكَّةَ سَأَلُوا النَّاسَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى سورة البقرة آية 197"، رَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا.
ہم سے یحییٰ بن بشر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شبابہ بن سوار نے بیان کیا، ان سے ورقاء بن عمرو نے، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یمن کے لوگ راستہ کا خرچ ساتھ لائے بغیر حج کے لیے آ جاتے تھے۔ کہتے تو یہ تھے کہ ہم توکل کرتے ہیں لیکن جب مکہ آتے تو لوگوں سے مانگنے لگتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور توشہ لے لیا کرو کہ سب سے بہتر توشہ تو تقویٰ ہی ہے۔ اس کو ابن عیینہ نے عمرو سے بواسطہ عکرمہ مرسلاً نقل کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1523 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1523  
حدیث حاشیہ:
مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ تابعی آنحضرت ﷺ کی حدیث بیان کرے اور جس صحابی سے وہ نقل کررہا ہے اس کا نام نہ لے۔
صحابی کا نام لینے سے یہی حدیث پھر مرفوع کہلاتی ہے جو درجہ قبولیت میں خاص مقام رکھتی ہے۔
یعنی صحیح مرفوع حدیث نبوی (صلی اللہ علیه وسلم)
آیت شریفہ میں تقویٰ سے مراد مانگنے سے بچنا اور اپنے مصارف سفر کا خود انتطام کرنا مراد ہے اور یہ بھی کہ اس سفر سے بھی زیادہ اہم سفر آخرت درپیش ہے۔
اس کا توشہ بھی تقویٰ پر ہیزگاری گناہوں سے بچنا اور پاک زندگی گزارنا ہے۔
بہ سلسلہ حج تقویٰ کی تلقین یہی حج کا ماحصل ہے۔
آج بھی جولوگ حج میں دست سوال دراز کرتے ہیں، انہوں نے حج کا مقصد ہی نہیں سمجھا۔
قَالَ الْمُهَلَّبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنَ الْفِقْهِ أَنَّ تَرْكَ السُّؤَالِ مِنَ التَّقْوَى وَيُؤَيِّدُهُ أَنَّ اللَّهَ مَدَحَ مَنْ لَمْ يَسْأَلِ النَّاسَ إِلْحَافًا فَإِنَّ قَوْلَهُ فَإِنَّ خَيْرَ الزَّاد التَّقْوَى أَيْ تَزَوَّدُوا وَاتَّقُوا أَذَى النَّاسِ بِسُؤَالِكُمْ إِيَّاهُمْ وَالْإِثْمَ فِي ذَلِكَ (فتح)
یعنی مہلب نے کہا کہ اس حدیث سے یہ سمجھا گیا کہ سوال نہ کرنا تقویٰ سے ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتا۔
خیرالزاد التقویٰ کا مطلب یہ کہ ساتھ میں توشہ اور سوال کر کر کے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور سوال کرنے کے گناہ سے بچو۔
مانگنے والا متوکل نہیں ہوسکتا۔
حقیقی توکل یہی ہے کہ کسی سے بھی کسی چیز میں مدد نہ مانگی جائے اور اسباب مہیا کرنے کے باوجود بھی اسباب سے قطع نظر کرنا یہ توکل سے ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اونٹ والے سے فرمایا تھا کہ اسے مضبوط باندھ پھر اللہ پر بھروسہ رکھ گفت پیغمبر باواز بلند برتوکل زانوئے اشتربہ بند
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1523   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1523  
حدیث حاشیہ:
(1)
توکل کی تعریف یہ ہے کہ اسباب وذرائع کو بروئے کارلاکر پھر اللہ پر بھروسہ کیا جائے کیونکہ ان ذرائع کو مؤثر اور ثمر آور بنانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
ہاتھ پاؤں باندھ کر بیٹھ رہنا یہ تاکل ہے توکل نہیں۔
مذکورہ حدیث میں توکل کی مذمت نہیں بلکہ لوگوں کے فعل کی مذمت ہے کیونکہ ان کا فعل توکل نہیں محض تکلف تھا۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ سوال نہ کرنا تقویٰ سے ہے اور اس کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتا۔
مذکورہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ سفر حج میں توشہ لے کر چلو اور لوگوں سے سوال کرکے انھیں تکلیف نہ پہنچاؤ، نیز سوال کرنے کے گناہ سے پرہیز کرو۔
(فتح الباري: 484/3)
آج بھی جو لوگ دوران حج میں دست سوال دراز کرتے ہیں انھوں نے حج کے مقصد کو نہیں سمجھا۔
(3)
ابن عینیہ کی روایت کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے۔
(4)
مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ تابعی رسول الله ﷺ سے براہِ راست بیان کرے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1523