ومن تصدق وهو محتاج او اهله محتاج او عليه دين، فالدين احق ان يقضى من الصدقة والعتق والهبة وهو رد عليه ليس له ان يتلف اموال الناس، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: من اخذ اموال الناس يريد إتلافها اتلفه الله إلا ان يكون معروفا بالصبر فيؤثر على نفسه، ولو كان به خصاصة كفعل ابي بكر رضي الله عنه حين تصدق بماله وكذلك آثر الانصار المهاجرين، ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن إضاعة المال فليس له ان يضيع اموال الناس بعلة الصدقة"، وقال كعب بن مالك رضي الله عنه: قلت يا رسول الله: إن من توبتي ان انخلع من مالي صدقة إلى الله وإلى رسوله صلى الله عليه وسلم؟ , قال: امسك عليك بعض مالك فهو خير لك"، قلت: فإني امسك سهمي الذي بخيبر.وَمَنْ تَصَدَّقَ وَهُوَ مُحْتَاجٌ أَوْ أَهْلُهُ مُحْتَاجٌ أَوْ عَلَيْهِ دَيْنٌ، فَالدَّيْنُ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى مِنَ الصَّدَقَةِ وَالْعِتْقِ وَالْهِبَةِ وَهُوَ رَدٌّ عَلَيْهِ لَيْسَ لَهُ أَنْ يُتْلِفَ أَمْوَالَ النَّاسِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَعْرُوفًا بِالصَّبْرِ فَيُؤْثِرَ عَلَى نَفْسِهِ، وَلَوْ كَانَ بِهِ خَصَاصَةٌ كَفِعْلِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ تَصَدَّقَ بِمَالِهِ وَكَذَلِكَ آثَرَ الْأَنْصَارُ الْمُهَاجِرِينَ، وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ إِضَاعَةِ الْمَالِ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُضَيِّعَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِعِلَّةِ الصَّدَقَةِ"، وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ , قَالَ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ"، قُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ.
اور جو شخص خیرات کرے کہ خود محتاج ہو جائے یا اس کے بال بچے محتاج ہوں (تو ایسی خیرات درست نہیں) اسی طرح اگر قرضدار ہو تو صدقہ اور آزادی اور ہبہ پر قرض ادا کرنا مقدم ہو گا اور اس کا صدقہ اس پر پھیر دیا جائے گا اور اس کو یہ درست نہیں کہ (قرض نہ ادا کرے اور خیرات دے کر) لوگوں (قرض خواہوں) کی رقم تباہ کر دے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کا مال (بطور قرض) تلف کرنے (یعنی نہ دینے) کی نیت سے لے تو اللہ اس کو برباد کر دے گا۔ البتہ اگر صبر اور تکلیف اٹھانے میں مشہور ہو تو اپنی خاص حاجت پر (فقیر کی حاجت کو) مقدم کر سکتا ہے۔ جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال خیرات میں دے دیا اور اسی طرح انصار نے اپنی ضرورت پر مہاجرین کی ضروریات کو مقدم کیا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو تباہ کرنے سے منع فرمایا ہے تو جب اپنا مال تباہ کرنا منع ہوا تو پرائے لوگوں کا مال تباہ کرنا کسی طرح سے جائز نہ ہو گا۔ اور کعب بن مالک نے (جو جنگ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے) عرض کی یا رسول اللہ! میں اپنی توبہ کو اس طرح پورا کرتا ہوں کہ اپنا سارا مال اللہ اور رسول پر تصدق کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں کچھ تھوڑا مال رہنے بھی دے وہ تیرے حق میں بہتر ہے۔ کعب نے کہا بہت خوب میں اپنا خیبر کا حصہ رہنے دیتا ہوں۔
(مرفوع) حدثنا عبدان، اخبرنا عبد الله، عن يونس، عن الزهري , قال: اخبرني سعيد بن المسيب، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" خير الصدقة ما كان عن ظهر غنى وابدا بمن تعول".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ , قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں یونس نے، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہترین خیرات وہ ہے جس کے دینے کے بعد آدمی مالدار رہے۔ پھر صدقہ پہلے انہیں دو جو تمہاری زیر پرورش ہیں۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet (p.b.u.h) said, "The best charity is that which is practiced by a wealthy person. And start giving first to your dependents."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 507
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1426
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ اپنے عزیزو اقرباء جملہ متعلقین اگر وہ مستحق ہیں تو صدقہ خیرات زکوٰۃ میں سب سے پہلے ان ہی کا حق ہے۔ اس لیے ایسے صدقہ کرنے والوں کو دوگنے ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1426
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1676
´اگر آدمی اپنا پورا مال صدقہ کر دے تو کیسا ہے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین صدقہ وہ ہے جو آدمی کو مالدار باقی رکھے یا (یوں فرمایا) وہ صدقہ ہے جسے دینے کے بعد مالک مالدار رہے اور صدقہ پہلے اسے دو جس کی تم کفالت کرتے ہو۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1676]
1676. اردو حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ صدقہ کرنے کے بعد اگر انسان خود ہی اپنی بنیادی ضروریات کے پورا کرنے کےلئے دوسروں کا محتاج ہوجائے تو ایسا صدقہ ناپسندیدہ ہے۔ اس لئے بہترین صدقہ اسے قرار دیا گیا ہے کہ وہ دینے کے بعد انسان دوسروں کا محتاج نہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1676
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2535
´مالداری اور دل کی بے نیازی کے ساتھ صدقہ دینے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہتر صدقہ وہ ہے جو مالداری کی برقراری اور دل کی بے نیازی کے ساتھ ہو، اور اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے۔ اور پہلے صدقہ انہیں دو جن کی کفالت و نگرانی تمہارے ذمہ ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2535]
اردو حاشہ: ”غنی ہے۔“ خواہ وہ قلبی غنا ہو یا مالی۔ ایسا نہ ہو کہ صدقہ کرنے کے بعد وہ خود مانگنا شروع کر دے یا اس کے اہل خانہ محتاج ہو جائیں۔ ہر آدمی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا ایمان ویقین اور توکل نہیں رکھتا کہ سارا مال صدقہ کر دے۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ بعض اہل علم نے معنیٰ یہ کیے ہیں کہ بہترین صدقہ وہ ہے جس کے ساتھ لینے والا غنی ہو جائے اور سوال کی حاجت نہ رہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2535
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2545
´کون سا صدقہ افضل ہے؟` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”بہترین صدقہ وہ ہے جو مالداری کی پشت سے ہو ۱؎، اور ان سے شروع کرو جن کی کفالت تمہارے ذمہ ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2545]
اردو حاشہ: پہلی حدیث میں افضل صدقے سے پہلی حالت کا بیان ہے اور اس میں افضل صدقے کے بعد والی حالت کا بیان ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2545
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5355
5355. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بہترین صدقہ وہ ہے جو دینے والے کو مال دار چھوڑے۔ اور اوپر والا ہاتھ نیچھے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور خرچ کی ابتداء ان سے کرو جن کی تم کفالت کرتے ہو۔“ عورت کا مطالبہ برحق ہے کہ مجھے کھانا دے یا طلاق دے کر فارغ کر۔ غلام کہہ سکتا ہے کہ مجھے کھانا دو اور مجھ سے کام لو۔ بیٹا بھی کہہ سکتا ہے کہ مجھے کھانا کھلاؤ آپ مجھے کس کے حوالے کر رہے ہیں؟ لوگوں نے سیدہ ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا: اے ابو ہریرہ!(حدیث کا آخری حصہ) آپ نے رسول ﷺ سے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ ابو ہریرہ کی اپنی سمجھ سے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5355]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ حقوق اللہ کے بعد انسانی حقوق میں اپنے والد اورجملہ متعلقین کے حقوق کا ادا کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5355
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5356
5356. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بہترین خیرات وہ ہے جسے دینے پر آدمی مال دار ہی رہے اور خرچ کرنے کی ابتدا ان سے کرو جو تمہارے زیر کفالت ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5356]
حدیث حاشیہ: یعنی اپنے اہل وعیال اور جملہ متعلقین اور مزدور وغیرہ جن کا کھانا تم نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے۔ اسی طرح قرابت دار بھی جو غرباء و مساکین ہوں پہلے ان کی خبر گیری کرنا دیگر فقراء و مساکین پر مقدم ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5356
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5355
5355. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بہترین صدقہ وہ ہے جو دینے والے کو مال دار چھوڑے۔ اور اوپر والا ہاتھ نیچھے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور خرچ کی ابتداء ان سے کرو جن کی تم کفالت کرتے ہو۔“ عورت کا مطالبہ برحق ہے کہ مجھے کھانا دے یا طلاق دے کر فارغ کر۔ غلام کہہ سکتا ہے کہ مجھے کھانا دو اور مجھ سے کام لو۔ بیٹا بھی کہہ سکتا ہے کہ مجھے کھانا کھلاؤ آپ مجھے کس کے حوالے کر رہے ہیں؟ لوگوں نے سیدہ ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا: اے ابو ہریرہ!(حدیث کا آخری حصہ) آپ نے رسول ﷺ سے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ ابو ہریرہ کی اپنی سمجھ سے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5355]
حدیث حاشیہ: (1) حقوق اللہ کے بعد انسانی حقوق کا ادا کرنا ضروری ہے۔ انسانی حقوق میں والدین اور اہل و عیال کے حقوق سرفہرست ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل و عیال کا نان و نفقہ انسان پر فرض ہے۔ اس کا یہ حال نہیں ہونا چاہیے کہ عورت تنگ آ کر کہہ دے کہ مجھے کھانا دو یا طلاق دے کر فارغ کرو۔ اسی طرح غلام کہے کہ مجھے کھانا کھلاؤ پھر مجھ سے کام لو، یا مجھ سے کام تو لیتے ہو لیکن کھانا کیوں نہیں کھلاتے؟ خود اس کا بیٹا کہے کہ میرے کھانے کا بندوبست کرو، مجھے کس کے حوالے کرتے ہو؟ الغرض عیال کی تمام قسمیں کھانے کا تقاضا کرتی ہیں اور ان کا یہ حق ہے جسے پورا کرنا اس کی ذمہ داری ہے، لہذا جب خرچہ دے تو ابتدا ان سے کرنی چاہیے جن کی کفالت اس کے ذمے ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص اپنی بیوی یا بچوں کا نان و نفقہ پورا نہ کر سکے تو عورت عدالت سے جدائی کا مطالبہ کر سکتی ہے کہ اس کا شوہر اسے فارغ کر دے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ان عورتوں کو تکلیف دینے کے لیے اپنے پاس مت روکے رکھو۔ “(البقرة: 231) حدیث کے آخری حصے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ دیا ہے کہ اس حدیث کا کچھ حصہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا کلام ہے جو حدیث میں مدرج ہو چکا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5355
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5356
5356. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بہترین خیرات وہ ہے جسے دینے پر آدمی مال دار ہی رہے اور خرچ کرنے کی ابتدا ان سے کرو جو تمہارے زیر کفالت ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5356]
حدیث حاشیہ: اپنے اہل و عیال، متعلقین اور مزدور وغیرہ جن کا کھانا اور خرچہ وغیرہ تم نے اپنے ذمے لیا ہے، اسی طرح قرابت داروں میں سے جو فقیر و نادار ہوں پہلے ان کی خبر گیری کرنی چاہیے۔ یہ لوگ دوسرے فقراء و مساکین پر مقدم ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان پر اس کے بیوی بچوں کا نان و نفقہ فرض ہے۔ اس سے دامن بچانا اور علیحدگی اختیار کرنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بیوی خود کمائے اور اسے کھلائے، اس سے گھر کا نظام تباہ ہو جاتا ہے اور بچوں کی تربیت میں بھی نقص رہ جاتا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5356