صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
66. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الْقَبْرِ بَعْدَ مَا يُدْفَنُ:
66. باب: مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھنا۔
(66) Chapter. To offer the (funeral) Salat (prayer) on the grave after the burial of the deceased.
حدیث نمبر: 1337
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن الفضل، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن ابي رافع، عن ابي هريرة رضي الله عنه،" ان اسود رجلا , او امراة , كان يقم المسجد فمات , ولم يعلم النبي صلى الله عليه وسلم بموته، فذكره ذات يوم , فقال: ما فعل ذلك الإنسان؟ , قالوا: مات يا رسول الله، قال: افلا آذنتموني، فقالوا: إنه كان كذا , وكذا قصته، قال: فحقروا شانه، قال فدلوني على قبره فاتى قبره فصلى عليه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ أَسْوَدَ رَجُلًا , أَوِ امْرَأَةً , كَانَ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَمَاتَ , وَلَمْ يَعْلَمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْتِهِ، فَذَكَرَهُ ذَاتَ يَوْمٍ , فَقَالَ: مَا فَعَلَ ذَلِكَ الْإِنْسَانُ؟ , قَالُوا: مَاتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَفَلَا آذَنْتُمُونِي، فَقَالُوا: إِنَّهُ كَانَ كَذَا , وَكَذَا قِصَّتُهُ، قَالَ: فَحَقَرُوا شَأْنَهُ، قَالَ فَدُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ".
ہم سے محمد بن فضل نے کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ثابت نے بیان کیا ‘ ان سے ابورافع نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ کالے رنگ کا ایک مرد یا ایک کالی عورت مسجد کی خدمت کیا کرتی تھیں ‘ ان کی وفات ہو گئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کی خبر کسی نے نہیں دی۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یاد فرمایا کہ وہ شخص دکھائی نہیں دیتا۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان کا تو انتقال ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کی کہ یہ وجوہ تھیں (اس لیے آپ کو تکلیف نہیں دی گئی) گویا لوگوں نے ان کو حقیر جان کر قابل توجہ نہیں سمجھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلو مجھے ان کی قبر بتا دو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: A black person, a male or a female used to clean the Mosque and then died. The Prophet (p.b.u.h) did not know about it . One day the Prophet remembered him and said, "What happened to that person?" The people replied, "O Allah's Apostle! He died." He said, "Why did you not inform me?" They said, "His story was so and so (i.e. regarded him as insignificant)." He said, "Show me his grave." He then went to his grave and offered the funeral prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 421


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري460عبد الرحمن بن صخرصلى على قبرها
   صحيح البخاري458عبد الرحمن بن صخرأفلا كنتم آذنتموني به دلوني على قبره أو قال قبرها أتى قبرها فصلى عليها
   صحيح البخاري1337عبد الرحمن بن صخرأفلا آذنتموني فقالوا إنه كان كذا وكذا قصته قال فحقروا شأنه قال فدلوني على قبره فأتى قبره فصلى عليه
   صحيح مسلم2215عبد الرحمن بن صخرالقبور مملوءة ظلمة على أهلها وإن الله ينورها لهم بصلاتي عليهم
   سنن أبي داود3203عبد الرحمن بن صخرألا آذنتموني به قال دلوني على قبره فدلوه فصلى عليه
   سنن ابن ماجه1527عبد الرحمن بن صخرهلا آذنتموني فأتى قبرها فصلى عليها
   بلوغ المرام447عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏افلا كنتم آذنتموني؟

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1337 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1337  
حدیث حاشیہ:
یہ کالا مرد یا کالی عورت مسجد نبوی کی جاروب کش بڑے بڑے بادشاہان ہفت اقلیم سے اللہ کے نزدیک مرتبہ اور درجہ میں زائد تھی۔
حبیب خدا ﷺ نے ڈھونڈ کر اس کی قبر پر نماز پڑھی۔
واہ رے قسمت! آپ کی کفش برداری اگر ہم کو بہشت میں نصیب ہوجائے تو ایسی دنیا کی لاکھوں سلطنتیں اس پر تصدق کردیں۔
(وحیدي)
حضرت امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت فرمایا کہ اگر کسی مسلمان مرد یا عورت کا جنازہ نہ پڑھا گیا ہو تو قبر پر دفن کرنے کے بعد بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
بعض نے اسے نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص بتلایا ہے مگر یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1337   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1337  
حدیث حاشیہ:
حضرت یزید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی قبر پر جا کر اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 48/4)
ایک روایت میں ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے حتی کہ اس عورت کی قبر کے پاس کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اس طرح صفیں درست کیں، جیسا کہ نماز جنازہ کے لیے صفیں درست کی جاتی ہیں، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 48/4)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دفن کیے جانے کے بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن بعض حضرات کا خیال ہے کہ ایسا کرنا غیر مشروع ہے اور رسول اللہ ﷺ کا قبر پر نماز جنازہ پڑھنا آپ کی خصوصیت ہے، کیونکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ یہ قبریں اہل قبور کے لیے اندھیروں سے بھری ہوئی ہیں اور میری دعا سے ان کی قبروں میں روشنی ہو جاتی ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 46/4)
امام ابن حبان نے اس کا جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں پر کوئی انکار نہیں کیا۔
اس کا صاف مطلب ہے کہ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت نہیں بلکہ امت کے لیے بھی جائز ہے۔
(صحیح ابن حبان: 36/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1337   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 447  
´دفن کرنے کے بعد میت کی قبر پر بھی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے`
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی قبر کا راستہ بتا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں جا کر قبر پر نماز جنازہ پڑھی . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 447]
لغوی تشریح:
«تَقُمُّ» قاف پر ضمہ اور میم پر تشدید ہے، یعنی جھاڑو دیا کرتی تھی۔ لکڑیاں، کپڑے کے چیتھڑے، کوڑا کرکٹ، غبار اور بھوسا وغیرہ باہر نکالا کرتی تھی۔ یہ خاتون سیام فام تھی اور اس کا نام محجن تھا۔
«آذَنْتُمونِي» اس کی وفات کی مجھے اطلاع دیتے تاکہ میں بھی اس کی نماز جنازہ پڑھتا۔
«صَغَّرُو» نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اعتبار سے انہوں نے اس کی وفات کو معمولی سمجھا۔
«دُلُّونِي» دال پر ضمہ ہے اور یہ «دلَالَهٌ» سے امر کا صیغہ ہے۔
«فَدَلُّوهُ» دال پر فتحہ اور لام پر ضمہ ہے اور یہ «دلَالةُ» سے ماضی کا صیغہ ہے۔
«ظُلُمَةٌ» تمییز واقع ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔

فوائد و مسائل:
اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں۔
➊ دفن کرنے کے بعد میت کی قبر پر بھی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے، گو تدفین سے پہلے بھی اس پر نماز جنازہ پڑھی جا چکی ہو۔ حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ بھی آپ نے ایک ماہ بعد ان کی قبر پر پڑھی تھی کیونکہ ان کی وفات کے وقت آپ مکہ مکرمہ میں تھے۔ [الطبقات الكبري لابن سعد: 620، 618/3]
➋ مرنے والے کی قبر وہی ہے جہاں اسے دفن کیا ہو، انہی قبروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان میں تاریکی ہی تاریکی ہے، روشنی نام کی کوئی چیز نہیں۔
➌ مسجد کی صفائی کرنے والے مرتبہ اور مقام بلند ہے۔
➍ مسجد کی صفائی مسلمان خاتون بھی کر سکتی ہے۔
➎ مسجد کو صاف ستھرا اور پاک رکھنا ضروری ہے، صفائی جھاڑو سے بھی کی جا سکتی ہے اور کپڑے سے بھی۔
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غریبوں سے محبت کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ آپ کو اپنے کارکن مرد و عورت دونوں سے کس قدر تعلق اور لگاؤ تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 447   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3203  
´قبر پر جنازہ پڑھنا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک کالی عورت یا ایک مرد مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موجود نہ پایا تو لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ وہ تو مر گیا ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں نے مجھے اس کی خبر کیوں نہیں دی؟ آپ نے فرمایا: مجھے اس کی قبر بتاؤ، لوگوں نے بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3203]
فوائد ومسائل:

قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے۔

رسول اللہ ﷺ ضعیف مسلمانوں کا بھی خاص خیال رکھا کرتے تھے۔

مسجد کی صفائی ستھرائی بہت ہی بڑے اجر کا کام ہے۔
اور یہ اسی عمل کی برکت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر جاکر نماز جنازہ پڑھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3203   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1527  
´(مردہ دفن ہو جائے تو) قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں دیکھا، کچھ روز کے بعد اس کے متعلق پوچھا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ اس کا انتقال ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے خبر کیوں نہ دی، اس کے بعد آپ اس کی قبر پہ آئے، اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1527]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خدام کی خبر گیری اور ان کے حالات معلوم کرنا اخلاقی فرض ہے۔

(2)
چند دن بعد غالباً اس لئے دریافت فرمایا کہ اس سے پہلے یہ خیال ہوسکتا ہے کہ کسی کام سے یا کسی ر شتہ دار کو ملنے چلی گئی ہوگی یا معمولی بیماری یا مصروفیت کی وجہ سے مسجد کی صفائی کے لئے نہیں آ سکی۔

(3)
جو شخص کسی وجہ سے نماز جنازہ میں شریک نہ ہوسکا ہو وہ قبر پر جاکر نماز جنازہ ادا کرسکتا ہے۔
اس کی کیفیت وہی ہوگی جیسے میت چار پائی پر سامنے رکھ کر جنازہ پڑھا جاتا ہے۔

(4)
نماز جنازہ کی مذکورہ بالا صورت کے سوا کوئی بھی نماز ادا کرنا حرام ہے۔
ارشاد نبوی ہے۔
ساری زمین مسجد (عبادت کی جگہ)
ہے۔
سوائے قبرستان اور حمام کے (سنن ابی داؤد، الصلاۃ، باب فی المراضع لاتجوز فیھا الصلاۃ، حدیث: 493، وجامع الترمذي، الصلاۃ، باب ما جاء أن الأرض کلھا مسجد إلا المقبرۃ والحمام، حدیث: 317)
 نیز ارشاد نبوی ہے۔
قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو۔
نہ ان پر بیٹھو۔ (صحیح مسلم، الجنائز، باب النھی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیه، حدیث: 974)

(5)
سنن بہیقی میں اس خاتون کا نام ام محجن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکور ہے۔
دیکھئے: (سنن الکبریٰ للبہقي: 48/4)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1527   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2215  
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک حبشن (حبشی عورت) یا حبشی جوان مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گم پایا (اس کو نہ دیکھا) تو اس عورت یا مرد کے بارے میں پوچھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بتایا: وہ فوت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں؟ راوی کا خیال ہے گویا کہ سب نے اس کے معاملہ کو حقیر خیال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2215]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

مسجد کی دیکھ بھال اور صفائی کرنا ایک بہت اچھا کام ہے۔
اس کام کو حقیر خیال نہیں کرنا چاہیے۔

امام کو اپنے مقتدیوں کا خیال رکھنا چاہیے اگر ان میں سے کوئی غیر حاضر ہو یا نظر نہ آئے تو اس کے بارے میں ساتھیوں سے معلومات حاصل کرنی چاہیے۔

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے اور اس کا طریقہ وہی ہے جو عام جنازہ کا ہے جمہور کے نزدیک قبر پر جنازہ پڑھنا جائز ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صرف میت کا ولی اگر اس نے جنازہ نہ پڑھا ہو تو قبر پر جنازہ پڑھ سکتا ہے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی قبر پر جنازہ پڑھنا صحیح نہیں ہے یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ آپﷺ کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی نماز جنازہ پڑھی تھی۔

قبر کی ظلمت اور اندھیرا نیک لوگوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں زائل ہو جاتا ہے اور قبر روشن ہو جاتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2215   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:458  
458. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام مرد یا عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، وہ فوت ہو گیا تو نبی ﷺ نے لوگوں سے اس کی بابت پوچھا؟ انھوں نے کہا: وہ توفوت ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: بھلا تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہ دی؟ اچھا اب مجھے اس کی قبر بتاؤ۔ چنانچہ آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں نماز جنازہ ادا کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:458]
حدیث حاشیہ:

ایک عورت مسجد نبوی کی خدمت کیا کرتی تھی، ذکر کردہ روایت میں شک کا صیغہ استعمال ہوا ہے کہ وہ عورت تھی یا مرد تھا، لیکن بعض روایات میں عورت کا تعین ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت حماد کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق وہ عورت تھی۔
(حدیث: 460)
پھر ابن خزیمہ کی روایت میں صراحت ہے کہ وہ عورت تھی بیہقی میں اس کی کنیت ام مجحن بتائی گئی ہے۔
ابن مندہ نے اس کا نام خرقاء لکھاہے۔
ایک روایت کے مطابق جس شخص نے اس کی وفات کے متعلق آپ کو مطلع کیا تھا وہ جناب ابوبکرصدیق ؓ تھے۔
(فتح الباري: 715/1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں ایسی چیزیں ذکر کی ہیں جن کی تفصیل حدیث میں نہیں ہے، البتہ(يَقُمُّ الْمَسْجِدَ)
کے الفاظ ان تمام چیزوں کو شامل ہیں، کیونکہ ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسجد نبوی کاتمام کوڑا کرکٹ، یعنی چیتھڑے، لکڑی کا چورا اور تنکے اور گردوغبار سب چیزوں کو جھاڑ دے کر مسجد سے باہر پھینکتی تھی۔
اس کے علاوہ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ عنوان کے الفاظ سے ذکرکردہ حدیث کے دیگر طرق کی طرف اشارہ کردیتے ہیں، چنانچہ صحیح ابن خذیمہ کی روایت میں ہے کہ وہ مسجد سے خس وخاشاک چننے میں خصوصیت شغف رکھتی تھی۔
اور بیہقی ؒ میں ہے کہ وہ مسجد سے بوسیدہ کپڑے اور لکڑی کا چورا وغیرہ چنتی رہتی تھی۔
ان روایات میں ان تمام چیزوں کو بیان کیا گیا جو امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوان میں ذکر کی ہیں۔
گویا امام بخاری نے اپنے ذوق کےمطابق عنوان بالا سے حدیث کے دیگر طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
(فت (فتح الباري: 715/1)

قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق ہم اپنے موقف کی وضاحت آئندہ کتاب الجنائز میں کریں گے۔
بإذن اللہ۔
البتہ اس بات کاذکر کرنا ضروری ہے کہ مسجد کی صفائی کرنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر جنازہ پڑھ کر اس اہمیت کو اجاگر فرمایا کہ مسجد میں جھاڑ دینے کی خدمت کوئی معمولی خدمت نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 458   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:460  
460. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، ایک عورت۔۔ یا مرد۔۔ مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتا تھا۔۔ راوی حدیث ابورافع کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق وہ عورت ہی تھی۔۔ پھر انھوں نے نبی ﷺ کی حدیث نقل فرمائی کہ آپ ﷺ نے اس کی قبر پر نماز پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:460]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد کی دیکھ بھال کے لیے خادم رکھنا سنت قدیمہ ہے۔
جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کے اثر سے معلوم ہوتا ہے۔
اسے ابوحاتم ؒ نے اپنی تفسیر میں موصولاً بیان کیا ہے۔
پیش کردہ روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مساجد کی خدمت کے لیے خادم کا تقررجائز ہے۔
جیسا کہ حدیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
اگردوسرے حضرات خدمت کرنا چاہیں تو ان کے لیے کوئی ممانعت نہیں، نیز اس خدمت کے لیے جس شخص کا تقرر ہوگا، وہ بھی تمام مسلمانوں کی طرف سے نائب کے طور پر کام کرے گا، کیونکہ اہل محلہ مل کر اس کی خدمت کریں گے۔
چونکہ یہ ضرورت سے ہے اس بنا پر اس خدمت کے عوض تنخواہ لینا بھی جائز ہے۔
یہ روایت تفصیلاً پہلے (458)
گزر چکی ہے۔

اس حدیث سے خدمت مسجد کی عظمت اور اہمیت کا پتہ چلتاہے، کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے باز پرس فرمانے پر یہ معذرت کی گئی کہ آرام کا وقت تھا ہم لوگوں نے خیال کیا کہ آپ کو بیدار کرنے میں زحمت ہوگی، اس لیے آپ کو اطلاع نہیں دی گئی۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رات تاریک تھی، اس لیے اس حادثے کواہمیت نہیں دی گئی۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ان حضرات نے خادمہ کے معاملے کو معمولی خیال کیا کہ ایک بے سروسامان مسجد کی خادمہ کا انتقال ہوگیا ہے۔
اس کا یہاں خویش واقارب بھی نہیں ہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر جنازہ پڑھ کر اس کی عظمت واہمیت کو اجاگر فرمایا کہ مسجد میں جھاڑودینے کی خدمت کو معمولی کام نہیں خیال کرنا چاہیے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبر پر جنازہ پڑھنے کے بعد فرمایا:
ان قبروں میں اہل قبور پر تاریکی چھائی رہتی ہے، اللہ تعالیٰ ان پر میرے جنازہ پڑھنے کی وجہ سے قبروں کو ان کے لیے منور کردیتاہے۔
(صحیح المسلم، الجنائز، حدیث: 2215 (956)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 460   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.