28. باب: ان کے بیان میں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنا کفن خود ہی تیار رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کسی طرح کا اعتراض نہیں فرمایا۔
(28) Chapter. (If) somebody prepared his shroud (before his death) (in the lifetime of the Prophet ﷺ and the Prophet ﷺ did not object to that).
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا ابن ابي حازم، عن ابيه، عن سهل رضي الله عنه،" ان امراة جاءت النبي صلى الله عليه وسلم ببردة منسوجة فيها حاشيتها، اتدرون ما البردة؟ , قالوا: الشملة، قال: نعم، قالت: نسجتها بيدي فجئت لاكسوكها، فاخذها النبي صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها، فخرج إلينا وإنها إزاره فحسنها فلان , فقال: اكسنيها ما احسنها؟ , قال: القوم ما احسنت لبسها النبي صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها، ثم سالته وعلمت انه لا يرد، قال: إني والله ما سالته لالبسه إنما سالته لتكون كفني؟" , قال سهل: فكانت كفنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبُرْدَةٍ مَنْسُوجَةٍ فِيهَا حَاشِيَتُهَا، أَتَدْرُونَ مَا الْبُرْدَةُ؟ , قَالُوا: الشَّمْلَةُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَتْ: نَسَجْتُهَا بِيَدِي فَجِئْتُ لِأَكْسُوَكَهَا، فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَإِنَّهَا إِزَارُهُ فَحَسَّنَهَا فُلَانٌ , فَقَالَ: اكْسُنِيهَا مَا أَحْسَنَهَا؟ , قَالَ: الْقَوْمُ مَا أَحْسَنْتَ لَبِسَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، ثُمَّ سَأَلْتَهُ وَعَلِمْتَ أَنَّهُ لَا يَرُدُّ، قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا سَأَلْتُهُ لِأَلْبَسَهُ إِنَّمَا سَأَلْتُهُ لِتَكُونَ كَفَنِي؟" , قَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ كَفَنَهُ.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تحفہ لائی۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے (حاضرین سے) پوچھا کہ تم جانتے ہو چادر کیا؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں! شملہ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں شملہ (تم نے ٹھیک بتایا) خیر اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے بنا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑا قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اس وقت ضرورت بھی تھی پھر اسے ازار کے طور پر باندھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو ایک صاحب (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی چادر ہے ‘ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہنا دیجئیے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے (مانگ کر) کچھ اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پہنا تھا اور تم نے یہ مانگ لیا حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں نے اپنے پہننے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر نہیں مانگی تھی۔ بلکہ میں اسے اپنا کفن بناؤں گا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔
Narrated Sahl: A woman brought a woven Burda (sheet) having edging (border) to the Prophet, Then Sahl asked them whether they knew what is Burda, they said that Burda is a cloak and Sahl confirmed their reply. Then the woman said, "I have woven it with my own hands and I have brought it so that you may wear it." The Prophet accepted it, and at that time he was in need of it. So he came out wearing it as his waist-sheet. A man praised it and said, "Will you give it to me? How nice it is!" The other people said, "You have not done the right thing as the Prophet is in need of it and you have asked for it when you know that he never turns down anybody's request." The man replied, "By Allah, I have not asked for it to wear it but to make it my shroud." Later it was his shroud.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 367
جلس ما شاء الله في المجلس ثم رجع فطواها ثم أرسل بها إليه فقال له القوم ما أحسنت سألتها إياه وقد عرفت أنه لا يرد سائلا فقال الرجل والله ما سألتها إلا لتكون كفني يوم أموت قال سهل فكانت كفنه
أتدرون ما البردة فقال القوم هي الشملة فقال سهل هي شملة منسوجة فيها حاشيتها فقالت يا رسول الله أكسوك هذه فأخذها النبي محتاجا إليها فلبسها فرآها عليه رجل من الصحابة فقال يا رسول الله ما أحسن هذه فاكسنيها فقال نعم فلما قام النبي لامه أصحابه قالوا ما أحسنت حي
أتدرون ما البردة فقيل له نعم هي الشملة منسوج في حاشيتها قالت يا رسول الله إني نسجت هذه بيدي أكسوكها فأخذها النبي محتاجا إليها فخرج إلينا وإنها إزاره فقال رجل من القوم يا رسول الله اكسنيها فقال نعم فجلس النبي في المجلس ثم رجع فطواها ثم أرسل بها إليه فقال ل
أخذها النبي محتاجا إليها فخرج إلينا وإنها إزاره فحسنها فلان فقال اكسنيها ما أحسنها قال القوم ما أحسنت لبسها النبي محتاجا إليها ثم سألته وعلمت أنه لا يرد قال إني والله ما سألته لألبسه إنما سألته لتكون كفني
تدرون ما البردة قالوا نعم هذه الشملة منسوج في حاشيتها فقالت يا رسول الله إني نسجت هذه بيدي أكسوكها فأخذها رسول الله محتاجا إليها فخرج إلينا وإنها لإزاره
نسجت هذه بيدي لأكسوكها فأخذها رسول الله محتاجا إليها فخرج علينا فيها وإنها لإزاره فجاء فلان بن فلان رجل سماه يومئذ فقال يا رسول الله ما أحسن هذه البردة اكسنيها قال نعم فلما دخل طواها وأرسل بها إليه فقال له القوم والله ما أحسنت كسيها النبي محتاجا إليها ثم
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1277
حدیث حاشیہ: گویا حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے اپنی زندگی ہی میں اپنا کفن مہیا کر لیا۔ یہی باب کا مقصد ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی مخیر معتمد بزرگ سے کسی واقعی ضرورت کے موقع پر جائز سوال بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایسی احادیث سے نبی اکرم ﷺ پر قیاس کر کے جو آج کے پیروں کا تبرک حاصل کیا جاتا ہے یہ درست نہیں کیونکہ یہ آپ ﷺ کی خصوصیات اور معجزات میں سے ہیں اور آپ ذریعہ خیروبرکت ہیں کوئی اور نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1277
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1277
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت سے پہلے کسی چیز کو تیار کر لینا جائز ہے، اسی طرح اپنی زندگی میں کفن تیار کر کے رکھ لینا توکل کے منافی نہیں لیکن قبل از موت قبر تیار کر لینا تاکہ موت یاد رہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔ اگر یہ کام اچھا ہوتا تو کثرت سے قبر تیار کر کے رکھنے کے واقعات منقول ہوتے۔ پھر کسی کو کیا معلوم کہ اس نے کہاں مرنا ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾(لقمان: 31/34) ”کسی کو علم نہیں کہ اسے کہاں موت نے آنا ہے۔ “(فتح الباري: 185/3) لیکن کفن کا معاملہ اس سے یکسر الگ ہے کہ انسان اپنے ہمراہ جہاں چاہے لے جا سکتا ہے۔ والله أعلم۔ (2) جس شخص نے رسول اللہ ﷺ سے چادر مانگ کر اسے بطور کفن رکھا تھا وہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ تھے، جیسا کہ محب الطبری نے اپنی کتاب "الاحکام" میں اس کی صراحت کی ہے، لیکن طبرانی نے اس حدیث کو بیان کیا تو قتیبہ بن سعید کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ تھے۔ امام بخاری ؒ نے بھی قتیبہ بن سعید سے اس روایت کو کتاب اللباس میں بیان کیا ہے، لیکن اسے مبہم ہی رکھا ہے، نیز حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے اور اس سے "تبرك بآثار الصالحین" کا مسئلہ بھی کشید کیا ہے۔ ہم اس کے متعلق وضاحت کر آئے ہیں کہ اسے صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات تک محدود رکھا جائے کیونکہ صحابہ کرام ؓ نے نبی ﷺ کے علاوہ کسی اور شخصیت سے تبرک حاصل نہیں کیا، نیز ایسا کرنے سے غلو اور شرک و بدعت کا دروازہ کھلتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر قیاس کر کے پیروں کا تبرک حاصل کرنا درست نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1277
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5323
´چادریں اوڑھنے کا بیان۔` سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت ایک چادر لے کر آئی، جانتے ہو وہ کیسی چادر تھی؟ لوگوں نے کہا: ہاں، یہی شملہ، اس کی گوٹا کناری بنی ہوئی تھی، وہ بولی: اللہ کے رسول! میں نے یہ اپنے ہاتھ سے بنی ہے تاکہ آپ کو پہناؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی، پھر آپ باہر نکلے اور ہمارے پاس آئے اور آپ اسی کا تہبند باندھے ہوئے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5323]
اردو حاشہ: حاکم وقت رعایا کی طرف سے تحفہ قبول کر سکتا ہے نیز اس سے سیاہ دھاری دار چادر کے استعمال کا جواز بھی معلوم ہوا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5323
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3555
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کا بیان۔` سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں «بردہ»(چادر) لے کر آئی (ابوحازم نے پوچھا «بردہ» کیا چیز ہے؟ ان کے شیخ نے کہا: «بردہ» شملہ ہے جسے اوڑھا جاتا ہے) اور کہا: اللہ کے رسول! اسے میں نے اپنے ہاتھ سے بنا ہے تاکہ میں آپ کو پہناؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی، پھر آپ اسے پہن کر کے ہمارے درمیان نکل کر آئے، یہی آپ کا تہبند تھا، پھر فلاں کا بیٹا فلاں آیا (اس شخص کا نام حدیث بیان کرنے کے دن سہل نے لیا تھا لیکن ابوحازم اسے بھول گئے) او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3555]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) تحفہ دینا اور تحفہ قبول کرنا اچھے اخلاق میں شامل ہے۔
(2) عورتیں دستکاری کے کام کر کے گھر کی آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہیں بشرطیکہ پردے کے تقاضے کما حقہ پورے ہو سکیں۔
(3) کوئی چیز اگر کوئی شخص مانگ لے تو سخاوت کا تقاضہ ہے کہ اسے دے دی جائے اگر چہ خود کو ضرورت ہو۔
(4) رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک سے مس ہونے والی چیزحصول برکت کے لئے اپنے پاس رکھنا یا استعمال کرنا درست ہے۔ یہ صرف اس صورت میں ہے جب یہ یقینی طور پر ثابت ہو کہ اس کا تعلق نبی ﷺ کی ذات سے رہ چکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مختلف حکمرانوں کو جو خطوط اور گرامی نامے بھیجے تھے ان کے علاوہ اب دنیا میں ایسی کسی چیز کا قطعاَََ َکوئی وجود نہیں ہے۔ یہ جو عوام الناس میں ”موئے مبارک“ وغیرہ قسم کی اشیاء مشہور کر دی گئی ہیں بالکل بے اصلی اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ ایسی تمام اشیاء کے متعلق دعویٰ با لکل بلا دلیل ہے۔ جناب رسول کریم ﷺ سے متعلق کوئی بھی چیز ازقسم: عصا، عمامہ، موئے مبارک اور نعلین وغیرہ اب دنیا کے کسی بھی حصے میں کہیں موجود نہیں۔ یہ سب من گھڑت اور خود ساختہ قصے کہانیاں ہیں۔ واللہ اءعلم۔
(5) سلف صالحین نے کسی صحابی یا تابعی سے منسوب چیز کو بطور تبرک محفوظ نہیں رکھا۔ جو چیزیں بعض صحابہ ؓ کی طرف منسوب ہیں ان میں سے اکثر کی ان حضرات کی طرف نسبت درست نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3555
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2093
2093. حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک عورت بردہ لے کرآئی۔ انھوں نے فرمایا: کیا جانتے ہو کہ بردہ کیا چیز ہے؟کہا گیا: ہاں وہ بڑی چادر جس کے کنارے بنے ہوئے ہوں۔ اس عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے اس چادر کو اپنے ہاتھوں سے بنا ہے تاکہ آپ کو پہناؤں۔ نبی ﷺ نے اسے لے لیا۔ آپ کو اس کی ضرورت تھی۔ پھر آپ نے اسے تہبند کےطورپر استعمال کیا اور ہمارے پاس تشریف لائے۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ یہ چادرمجھے عنایت کردیں۔ آپ نے فرمایا: "ہاں، لے لو۔ "چنانچہ نبی ﷺ مجلس میں بیٹھے، پھر واپس تشریف لے گئے اور چادر کو لپیٹ کر اس شخص کے پاس بھیج دیا۔ لوگوں نے اس سے کہا: تونے اچھا نہیں کیا۔ آپ سے چادر کا سوال کیا حالانکہ تجھے علم تھا کہ آپ کسی سائل کو خالی واپس نہیں کرتے۔ اس شخص نے جواب دیا: میں نے آپ سے اس لیے چادر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2093]
حدیث حاشیہ: روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کے ہاں کرگھا تھا اور وہ کپڑا بنانے کا کام کرنے میں ماہر تھی۔ جو بہترین حاشیہ دار چادر بن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے لائی۔ آپ نے اسے بخوشی قبول کر لیا، مگر ایک صحابی (عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ) تھے جنہوں نے اسے آپ کے جسم پر زیب تن دیکھ کر بطور تبرک اپنے کفن کے لیے اسے آپ سے مانگ لیا۔ اور آپ نے ان کو یہ دے دی، اور ان کے کفن ہی میں وہ استعمال کی گئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں نوربافی کا فن مروج تھا اور اس میں عورتیں تک مہارت رکھتی تھیں، اور اس پیشہ کو کوئی بھی معیوب نہیں جانتا تھا۔ یہی ثابت کرنا حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2093
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5810
5810. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک عورت بردہ لے کر آئی۔۔۔ حضرت سہل ؓ نے (اپنے شاگرد سے) پوچھا: تم جانتے ہو بردہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا: ”ہاں“ یہ ایک چادر ہے جس کے حاشے بنے ہوتے ہیں۔۔۔ اس عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے یہ چادر اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے اور آپ کو پہنانا چاہتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے چادر ضرورت مند کے طور پر اس سے لے لی۔ پھر رسول اللہ ﷺ اسے تہبند کے طور پر باندھ کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ صحابہ کرام میں سے ایک صاحب نے اسے چھوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! یہ مجھےعطاء کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں لے لو۔“ پھر آپ جس قدر اللہ تعالٰی نے چاہا مجلس میں بیٹھے اس کے بعد گھر تشریف لے گئے اور وہ چادر لپیٹ کر اس کے پاس بھیج دی۔ صحابہ کرام نے اس آدمی سے کہا: تو نے اچھا نہیں کیا کہ آپ ﷺ سے وہ چادر مانگ لی جبکہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5810]
حدیث حاشیہ: یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے اس حدیث سے نکلا کہ کفن کے لیے بزرگوں کا مستعمل لباس لے لینا جائز ہے۔ وہ خاتون کس قدر خوش نصیب تھی جس نے اپنے ہاتھوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہ اونی چادر بہترین شکل میں تیار کی اور آپ نے اسے بخوشی قبول فرما لیا پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی کیسے خوش نصیب ہیں جن کو یہ چادر کفن کے لیے نصیب ہوئی چونکہ اس حدیث میں آپ کے لیے اونی چادر کا ذکر ہے باب سے یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5810
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6036
6036. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ ایک خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں ”بردہ“ لے کر حاضر ہوئی۔۔۔ حضرت سہل ؓ نے اس وقت موجود لوگوں سے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ ”بردہ“ کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں بردہ کھلی چادر کو کہتے ہیں۔ حضرت سہل ؓ نے فرمایا: ہاں ”بردہ“ وہ لنگی جسکا حاشیہ بنا ہوتا ہے۔۔۔ تو اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں یہ لنگی آپ کے پہننے کے لیے لائی ہوں۔ نبی ﷺ نے وہ لنگی اس سے قبول کر لی۔ اس وقت آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ نے اسے ذیب تن فرمایا: صحابہ کرام ؓ میں سے ایک شخص نے وہ لنگی تو عرض کی: اللہ لے رسول! یہ بڑی عمدہ لنگی ہے۔ آپ یہ مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں تم لے لو“ جب نبی ﷺ تشریف لے گئے تو اس کے ساتھیوں نے اسے ملامت کی اور کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا، جب تم نے دیکھ لیا تھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6036]
حدیث حاشیہ: یہ بہت بڑے رئیس التجار بزرگ صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف تھے، انہوں نے اس لنگی کا سوال اپنا کفن بنانے کے لئے کیا تھا، چنانچہ یہ اسی کفن میں دفن ہوئے۔ معلوم ہوا کہ جو سچے بزرگان دین باخدا ہوں ان کے ملبوسات سے اس طور پر برکت حاصل کرنا درست ہے۔ اللھم ارزقنا۔ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6036
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2093
2093. حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک عورت بردہ لے کرآئی۔ انھوں نے فرمایا: کیا جانتے ہو کہ بردہ کیا چیز ہے؟کہا گیا: ہاں وہ بڑی چادر جس کے کنارے بنے ہوئے ہوں۔ اس عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے اس چادر کو اپنے ہاتھوں سے بنا ہے تاکہ آپ کو پہناؤں۔ نبی ﷺ نے اسے لے لیا۔ آپ کو اس کی ضرورت تھی۔ پھر آپ نے اسے تہبند کےطورپر استعمال کیا اور ہمارے پاس تشریف لائے۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ یہ چادرمجھے عنایت کردیں۔ آپ نے فرمایا: "ہاں، لے لو۔ "چنانچہ نبی ﷺ مجلس میں بیٹھے، پھر واپس تشریف لے گئے اور چادر کو لپیٹ کر اس شخص کے پاس بھیج دیا۔ لوگوں نے اس سے کہا: تونے اچھا نہیں کیا۔ آپ سے چادر کا سوال کیا حالانکہ تجھے علم تھا کہ آپ کسی سائل کو خالی واپس نہیں کرتے۔ اس شخص نے جواب دیا: میں نے آپ سے اس لیے چادر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2093]
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت کپڑا بننے میں ماہر تھی بلکہ اس پر کڑھائی کا کام بھی کرتی تھی کیونکہ اس نے بہترین حاشیہ دارچادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ آپ نے اسے بخوشی قبول فرمایا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ کپڑا بننے کا پیشہ اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عورتیں اس میں مہارت رکھتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا،جس سے اس کے پیشے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (3) واضح رہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چادر بطور تبرک اپنے کفن کے لیے مانگ لی تو آپ نے انھیں عنایت کردی، حالانکہ آپ خود اس کے ضرورت مند تھے۔ راوی کے بیان کے مطابق وہی چادر مانگنے والے صحابی کے لیے بطور کفن استعمال کی گئی۔ رضي الله عنهم اجمعين.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2093
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5810
5810. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک عورت بردہ لے کر آئی۔۔۔ حضرت سہل ؓ نے (اپنے شاگرد سے) پوچھا: تم جانتے ہو بردہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا: ”ہاں“ یہ ایک چادر ہے جس کے حاشے بنے ہوتے ہیں۔۔۔ اس عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے یہ چادر اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے اور آپ کو پہنانا چاہتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے چادر ضرورت مند کے طور پر اس سے لے لی۔ پھر رسول اللہ ﷺ اسے تہبند کے طور پر باندھ کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ صحابہ کرام میں سے ایک صاحب نے اسے چھوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! یہ مجھےعطاء کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں لے لو۔“ پھر آپ جس قدر اللہ تعالٰی نے چاہا مجلس میں بیٹھے اس کے بعد گھر تشریف لے گئے اور وہ چادر لپیٹ کر اس کے پاس بھیج دی۔ صحابہ کرام نے اس آدمی سے کہا: تو نے اچھا نہیں کیا کہ آپ ﷺ سے وہ چادر مانگ لی جبکہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5810]
حدیث حاشیہ: (1) چادر مانگنے والے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرنے سے پہلے اپنا کفن تیار کرنا جائز ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک عنوان بھی قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، باب: 28)(3) وہ خاتون کس قدر خوش نصیب تھی جس نے اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہترین اونی چادر تیار کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بخوشی قبول فرمایا اور زیب تن کیا، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کس قدر خوش نصیب ہیں جنہیں یہ چادر کفن کے لیے نصیب ہوئی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اونی چادر استعمال کرنا جائز ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5810
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6036
6036. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ ایک خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں ”بردہ“ لے کر حاضر ہوئی۔۔۔ حضرت سہل ؓ نے اس وقت موجود لوگوں سے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ ”بردہ“ کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں بردہ کھلی چادر کو کہتے ہیں۔ حضرت سہل ؓ نے فرمایا: ہاں ”بردہ“ وہ لنگی جسکا حاشیہ بنا ہوتا ہے۔۔۔ تو اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں یہ لنگی آپ کے پہننے کے لیے لائی ہوں۔ نبی ﷺ نے وہ لنگی اس سے قبول کر لی۔ اس وقت آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ نے اسے ذیب تن فرمایا: صحابہ کرام ؓ میں سے ایک شخص نے وہ لنگی تو عرض کی: اللہ لے رسول! یہ بڑی عمدہ لنگی ہے۔ آپ یہ مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں تم لے لو“ جب نبی ﷺ تشریف لے گئے تو اس کے ساتھیوں نے اسے ملامت کی اور کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا، جب تم نے دیکھ لیا تھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6036]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ جب وہ شخص فوت ہوا تو یہ چادر اس کا کفن تھی۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5810)(2) واضح رہے کہ سوال کرنے والے بزرگ صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ انھوں نے اس لنگی کا سوال اپنا کفن بنانے کے لیے کیا تھا، چنانچہ فوت ہونے کے بعد ان کی یہ خواہش پوری ہو گئی۔ (3) اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور آپ کے حسن خلق کا پتہ چلتا ہے۔ سخاوت کا یہ عالم ہے کہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود آپ نے سائل کو محروم نہیں کیا، حسن خلق اس قدر کہ آپ کی پیشانی پر شکن نہیں پڑے بلکہ خوش دلی اور خندہ پیشانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چادر لپیٹ کر سائل کے حوالے کر دی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6036