صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: تہجد کا بیان
The Book of Salat-Ut-Tahajjud (Night Prayer)
17. بَابُ فَضْلِ الطُّهُورِ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَفَضْلِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْوُضُوءِ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ:
17. باب: دن اور رات میں باوضو رہنے کی فضیلت اور وضو کے بعد رات اور دن میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔
(17) Chapter. The superiority of remaining with ablution during the day and night and the superiorit of offering As-Salat (prayers) after ablution during the day and night.
حدیث نمبر: 1149
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن نصر، حدثنا ابو اسامة، عن ابي حيان، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة رضي الله عنه،" ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لبلال عند صلاة الفجر: يا بلال حدثني بارجى عمل عملته في الإسلام، فإني سمعت دف نعليك بين يدي في الجنة، قال: ما عملت عملا ارجى عندي اني لم اتطهر طهورا في ساعة ليل او نهار إلا صليت بذلك الطهور ما كتب لي ان اصلي"، قال ابو عبد الله: دف نعليك يعني تحريك.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ: يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الْإِسْلَامِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ، قَالَ: مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طَهُورًا فِي سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: دَفَّ نَعْلَيْكَ يَعْنِي تَحْرِيكَ.
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ حماد بن اسابہ نے بیان کیا، ان سے ابوحیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فجر کے وقت پوچھا کہ اے بلال! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا رہتا جتنی میری تقدیر لکھی گئی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: At the time of the Fajr prayer the Prophet asked Bilal, "Tell me of the best deed you did after embracing Islam, for I heard your footsteps in front of me in Paradise." Bilal replied, "I did not do anything worth mentioning except that whenever I performed ablution during the day or night, I prayed after that ablution as much as was written for me."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 250


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري1149عبد الرحمن بن صخرحدثني بأرجى عمل عملته في الإسلام فإني سمعت دف نعليك بين يدي في الجنة قال ما عملت عملا أرجى عندي أني لم أتطهر طهورا في ساعة ليل أو نهار إلا صليت بذلك الطهور ما كتب لي أن أصلي
   صحيح مسلم6324عبد الرحمن بن صخرما عملت عملا في الإسلام أرجى عندي منفعة من أني لا أتطهر طهورا تاما في ساعة من ليل ولا نهار إلا صليت بذلك الطهور ما كتب الله لي أن أصلي

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1149 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1149  
حدیث حاشیہ:
یعنی جیسے تو بہشت میں چل رہا ہے اور تیری جوتیوں کی آواز نکل رہی ہے۔
یہ اللہ تعالی نے آپ کو دکھلا دیا جو نظر آیا وہ ہونے والا تھا۔
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ بہشت میں بیداری کے عالم میں اس دنیا میں رہ کر آنحضرت ﷺ کے سوا اور کوئی نہیں گیا۔
آپ معراج کی شب میں وہاں تشریف لے گئے۔
اسی طرح دوزخ میں اور یہ جو بعض فقراء سے منقول ہے کہ ان کا خادم حقہ کی آگ لینے کے لیے دوزخ میں گیا محض غلط ہے۔
بلال ؓ دنیا میں بھی بطور خادم کے آنحضرت ﷺ کے آگے سامان وغیرہ لے کر چلا کرتے، ویسا ہی اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو دکھلا دیا کہ بہشت میں بھی ہو گا۔
اس حدیث سے بلال ؓ کی فضیلت نکلی اور ان کا جنتی ہونا ثابت ہوا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1149   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1149  
حدیث حاشیہ:
(1)
جامع ترمذی اور صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں ہے کہ حضرت بلال ؓ نے عرض کیا:
میں جب بھی بے وضو ہوتا ہوں تو وضو کر لیتا ہوں اور اس کے بعد دو رکعت پڑھتا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اسی وجہ سے تم نے یہ انعام حاصل کیا ہے۔
(جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3689، و صحیح ابن خزیمة: 213/2، و مسند أحمد: 360/5)
یہ حدیث ان احادیث کے معارض نہیں جن میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو گا کیونکہ جنت میں داخلہ تو صرف اللہ کے فضل و کرم سے ہو گا، پھر داخلے کے بعد درجات کا تفاوت اعمال کی وجہ سے ہو گا۔
(فتح الباري: 48/3)
اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت بلال ؓ نبی ؑ سے پہلے جنت میں داخل ہو گئے، کیونکہ حضرت بلال اس عالم رنگ و بو میں ایک خادم خاص کی حیثیت سے آپ کے آگے آگے ہوتے تھے، اس لیے نیند میں بھی وہ اسی صورت میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے آئے۔
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو نیند کی حالت میں دیکھا تھا اور آپ کی عادت مبارک تھی کہ نماز فجر کے بعد اپنا خواب بیان کرتے یا کسی دوسرے کا خواب سن کر اس کی تعبیر کرتے تھے۔
روایت میں نماز فجر کے ذکر سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے۔
(فتح الباري: 44/3) (2)
ابن جوزی فرماتے ہیں کہ وضو کے بعد نماز پڑھنی چاہیے تاکہ وضو بلا مقصد نہ ہو۔
امام بخاری ؒ اس حدیث کو نماز تہجد میں لائے ہیں تاکہ تحیۃ الوضوء ثابت کیا جائے۔
ہمیشہ با وضو رہنا مومن کے لیے ایک زبردست ہتھیار ہے، کیونکہ شیطان نجس اور پلید چیزوں سے مانوس ہوتا ہے اور طہارت و پاکیزگی سے نفرت کرتا ہے، نیز جب آدمی باوضو رہتا ہے تو رات دن کی نمازیں اس سے فوت نہیں ہوتیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1149   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6324  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال سے صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ اے بلال! مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہے اور جس کے فائدے کی تجھے بہت امید ہے، کیونکہ میں نے آج کی رات تیری جوتیوں کی آواز اپنے سامنے جنت میں سنی ہے۔ سیدنا بلال ؓ نے کہا کہ میں نے اسلام میں کوئی عمل ایسا نہیں کیا جس کے نفع کی امید بہت ہو۔ سوا اس کے کہ رات یا دن میں کسی بھی وقت جب پورا وضو کرتا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6324]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے استنباط کرنا کہ اپنے اجتہاد سے کسی عبادت کا وقت مقرر کرنا جائز ہے،
کیونکہ حضرت بلال نے دخول جنت کا یہ مرتبہ،
اپنے اجتہاد اور استنباط سے حاصل کیا،
درست نہیں ہے،
کیونکہ شریعت جس کام کے لیے وقت مقرر نہیں کرتی،
اس کے لیے وقت مقرر کرنا،
درست نہیں ہے،
تحیۃ الوضوء اور تحیۃ المسجد کی آپ نے خود تلقین فرمائی ہے یہ عمل حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے استنباط اور اجتہاد سے شروع نہیں کیا بلکہ آپ کی ترغیب و تحریص سے شروع کیا۔
جاہلیت کے دور میں لوگوں نے عتیرہ کے لیے رجب کا مہینہ مقرر کیا تھا،
جب آپ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
عتیرہ درست ہے،
اگر کوئی اس پر عمل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے،
لیکن اس کے لیے ماہ رجب کی تخصیص درست نہیں ہے،
جس مہینہ میں بھی اس کی توفیق ہو کر لے اور لوگوں کو کھلا دے،
جس سے ثابت ہوا،
اپنی طرف سے وقت مقرر کرنا درست نہیں ہے۔
حدیث کی وضاحت پیچھے گزر چکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6324   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.