سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مٹکے کی نبیذ سے منع فرمایا: تھا تب بھی میں وہاں موجود تھا اور جب اجازت دی تھی تب بھی میں وہاں موجود تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھا کہ نشہ آور چیزوں سے اجتناب کر و۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو جعفر الرازي قد اختلف فيه، وهو إلى الضعف أقرب لسوء حفظه ، ته من المكثري من الصحابة ولا يحتمل تفرده، ورواية أبى جعفر الرازي عن الربيع بن أنس مضطربة
سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ مہربان ہے، مہربانی کو پسند کرتا ہے اور مہربانی ونرمی پر وہ کچھ دے دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، فيه عنعنة الحسن البصري وهو مدلس
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، عن يونس ، عن الحسن ، عن عبد الله بن مغفل ، ان رجلا لقي امراة كانت بغيا في الجاهلية، فجعل يلاعبها حتى بسط يده إليها، فقالت المراة: مه، فإن الله عز وجل قد ذهب بالشرك وقال عفان مرة: ذهب بالجاهلية وجاءنا بالإسلام، فولى الرجل، فاصاب وجهه الحائط، فشجه، ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال:" انت عبد اراد الله بك خيرا، إذا اراد الله عز وجل بعبد خيرا عجل له عقوبة ذنبه، وإذا اراد بعبد شرا امسك عليه بذنبه حتى يوفى به يوم القيامة كانه عير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، أَنَّ رَجُلًا لَقِيَ امْرَأَةً كَانَتْ بَغِيًّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَجَعَلَ يُلَاعِبُهَا حَتَّى بَسَطَ يَدَهُ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ الْمَرْأَةُ: مَهْ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ ذَهَبَ بِالشِّرْكِ وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً: ذَهَبَ بِالْجَاهِلِيَّةِ وَجَاءَنَا بِالْإِسْلَامِ، فَوَلَّى الرَّجُلُ، فَأَصَابَ وَجْهَهُ الْحَائِطُ، فَشَجَّهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ:" أَنْتَ عَبْدٌ أَرَادَ اللَّهُ بِكَ خَيْرًا، إِذَا أَرَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِعَبْدٍ خَيْرًا عَجَّلَ لَهُ عُقُوبَةَ ذَنْبِهِ، وَإِذَا أَرَادَ بِعَبْدٍ شَرًّا أَمْسَكَ عَلَيْهِ بِذَنْبِهِ حَتَّى يُوَفَّى بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ عَيْرٌ".
سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک عورت پیشہ ور بدکارہ تھی، ایک دن اسے ایک آدمی ملا اور اس سے دل لگی کرنے لگا، اسی اثناء میں اس نے اپنے ہاتھ اس کی طرف بڑھائے تو وہ کہنے لگی پیچھے ہٹو، اللہ تعالیٰ نے شرک کو دور کر دیا اور ہمارے پاس اسلام کی نعمت لے آیا، وہ آدمی واپس چلا گیا، راستے میں کسی دیوار سے ٹکر ہوئی اور اس کا چہرہ زخمی ہو گیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ سنا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے تمہارے ساتھ خیر کا ارادہ کر لیا ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے گناہ کی سزا فوری دے دیتے ہیں اور جب کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے گناہ کو روک لیتے ہیں اور قیامت کے دن اس کا مکمل حساب چکائیں گے اور وہ گدھوں کی طرح محسوس ہو گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا ثابت بن يزيد ابو زيد ، قال: حدثنا عاصم الاحول ، عن فضيل بن زيد الرقاشي ، وقد غزا سبع غزوات في إمارة عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه، انه اتى عبد الله بن مغفل ، فقال: اخبرني بما حرم الله علينا من هذا الشراب، فقال: الخمر، قال: هذا في القرآن، قال: افلا احدثك ما سمعت محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ بدا بالاسم، او بالرسالة، قال: شرعي، اني اكتفيت؟!، قال:" نهى عن الدباء، والحنتم، والنقير والمقير"، قال: ما الحنتم؟، قال: الاخضر، والابيض، قال: ما المقير؟، قال: ما لطخ بالقار من زق، او غيره، قال: فانطلقت إلى السوق، فاشتريت افيقة، فما زالت معلقة في بيتي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ أَبُو زَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ زَيْدٍ الرَّقَاشِيِّ ، وَقَدْ غَزَا سَبْعَ غَزَوَاتٍ فِي إِمارَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ ، فَقَالَ: أَخْبِرْنِي بِمَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ هَذَا الشَّرَابِ، فَقَالَ: الْخَمْرَ، قَالَ: هَذَا فِي الْقُرْآنِ، قال: أَفَلَا أُحَدِّثُكَ ما سَمِعْتُ مُحَمَّدًا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ بَدَأَ بِالِاسْمِ، أَوْ بِالرِّسَالَةِ، قَالَ: شَرْعِي، أَنِّي اكْتَفَيْتُ؟!، قَالَ:" نَهَى عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالنَّقِيرِ وَالْمُقَيَّرِ"، قَالَ: مَا الْحَنْتَمُ؟، قَالَ: الْأَخْضَرُ، وَالْأَبْيَضُ، قَالَ: مَا الْمُقَيَّرُ؟، قَالَ: مَا لُطِخَ بِالْقَارِ مِنْ زِقٍّ، أَوْ غَيْرِهِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى السُّوقِ، فَاشْتَرَيْتُ أَفِيقَةً، فَمَا زَالَتْ مُعَلَّقَةً فِي بَيْتِي.
فضیل بن زید رقاشی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ شراب کا تذکر ہ شروع ہو گیا اور سیدنا عبداللہ بن مغفل کہنے لگے کہ شراب حرام ہے، میں نے پوچھا: کیا کتاب اللہ میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: تمہارا مقصد کیا ہے؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں نے اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنا ہے وہ تمہیں بھی سناؤں؟ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو، حنتم اور مزفت سے منع کرتے ہوئے سنا ہے، میں نے حنتم کا مطلب پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ ہر سبز اور سفید مٹکا، میں نے مزفت کا مطلب پوچھا: تو فرمایا کہ لک وغیرہ سے بنا ہوا ہر برتن چنانچہ میں بازار گیا اور چمڑے کا بڑا ڈول خرید لیا اور وہی میرے گھر میں لٹکا رہا۔
(حديث مرفوع) حدثنا زيد بن الحباب ، قال: حدثني اسامة بن زيد ، قال: حدثني الزهري ، عن عبد الرحمن بن ازهر ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخلل الناس يوم حنين يسال عن منزل خالد بن الوليد، فاتي بسكران،" فامر من كان معه ان يضربوه بما كان في ايديهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّلُ النَّاسَ يَوْمَ حُنَيْنٍ يَسْأَلُ عَنْ مَنْزِلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، فَأُتِيَ بِسَكْرَانَ،" فَأَمَرَ مَنْ كَانَ مَعَهُ أَنْ يَضْرِبُوهُ بِمَا كَانَ فِي أَيْدِيهِمْ.
سیدنا عبدالرحمن بن ازہر سے مروی ہے کہ میں نے غزوہ حنین کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ لوگوں کے درمیان سے راستہ بنا کر گزرتے جا رہے ہیں اور سیدنا خالد بن ولید کے ٹھکانے کا پتہ پوچھتے جارہے ہیں، تھوڑی ہی دیر میں ایک آدمی کو نشے کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ لے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ آنے والوں کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ میں جو کچھ ہے، وہ اسی سے اس شخص کو ماریں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الزهري لم يسمع هذا الحديث من عبدالرحمن بن الأزهر
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر ، قال: حدثنا اسامة بن زيد ، عن الزهري ، انه سمع عبد الرحمن بن ازهر ، يقول: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم غزاة يوم الفتح، وانا غلام شاب يتخلل الناس" يسال عن منزل خالد بن الوليد، فاتي بشارب، فامرهم، فضربوه بما في ايديهم، فمنهم من ضربه بعصا، ومنهم من ضربه بسوط، وحثى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم التراب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ ، يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَاةَ يَوْمِ الْفَتْحِ، وَأَنَا غُلَامٌ شَابٌّ يَتَخَلَّلُ النَّاسَ" يَسْأَلُ عَنْ مَنْزِلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، فَأُتِيَ بِشَارِبٍ، فَأَمَرَهُمْ، فَضَرَبُوهُ بِمَا فِي أَيْدِيهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ ضَرَبَهُ بِعَصًا، وَمِنْهُمْ مَنْ ضَرَبَهُ بِسَوْطٍ، وَحَثَى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ".
سیدنا عبدالرحمن بن ازہر سے مروی ہے کہ میں نے فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ لوگوں کے درمیان سے راستہ بنا کر گزرتے جارہے ہیں اور سیدنا خالد بن ولید کے ٹھکانے کا پتہ پوچھتے جارہے ہیں، تھوڑی ہی دیر میں ایک آدمی کو نشے کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ لے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ آنے والوں کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ میں جو کچھ ہے، وہ اسی سے اس شخص کو ماریں چنانچہ کسی نے اسے لاٹھی سے مارا اور کسی نے کوڑے سے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مٹی پھینکی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الزهري لم يسمع هذا الحديث من عبدالرحمن، وقد وهم أسامة بن زيد الليثي فى ذكره تصريح الزهري بسماعه من عبدالرحمن
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، عن معمر ، عن الزهري ، قال: وكان عبد الرحمن بن الازهر يحدث، ان خالد بن الوليد بن المغيرة، جرح يومئذ، وكان على الخيل خيل رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابن الازهر قد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعدما هزم الله الكفار، ورجع المسلمون إلى رحالهم يمشي في المسلمين، ويقول:" من يدل على رحل خالد بن الوليد؟"، قال: فمشيت، او قال: فسعيت بين يديه وانا محتلم، اقول: من يدل على رحل خالد، حتى حللنا على رحله، فإذا خالد بن الوليد مستند إلى مؤخرة رحله، فاتاه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنظر إلى جرحه، قال الزهري: وحسبت انه قال: ونفث فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَزْهَرِ يُحَدِّثُ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، جُرِحَ يَوْمَئِذٍ، وَكَانَ عَلَى الْخَيْلِ خَيْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ابْنُ الْأَزْهَرِ قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَمَا هَزَمَ اللَّهُ الْكُفَّارَ، وَرَجَعَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى رِحَالِهِمْ يَمْشِي فِي الْمُسْلِمِينَ، وَيَقُولُ:" مَنْ يَدُلُّ عَلَى رَحْلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ؟"، قَالَ: فَمَشَيْتُ، أَوْ قَالَ: فَسَعَيْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنَا مُحْتَلِمٌ، أَقُولُ: مَنْ يَدُلُّ عَلَى رَحْلِ خَالِدٍ، حَتَّى حَلَلْنَا عَلَى رَحْلِهِ، فَإِذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ مُسْتَنِدٌ إِلَى مُؤْخِرَةِ رَحْلِهِ، فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ إِلَى جُرْحِهِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَحَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: وَنَفَثَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا عبدالرحمن بن ازہر کہتے ہیں کہ غزوہ حنین کے موقع پر سیدنا خالد بن ولید زخمی ہو گئے تھے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے پر سوار تھے، کفار کی شکست کے بعد میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مسلمانوں کے درمیان جو کہ جنگ سے واپس آرہے تھے چلتے جارہے ہیں اور فرماتے جا رہے ہیں کہ خالد بن ولید کے خیمے کا پتہ کون بتائے گا؟ میں اس وقت بالغ لڑکا تھا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے یہ کہتے ہوئے دوڑنے لگا کہ خالد بن ولید کے خیمے کا پتہ کون بتائے گا؟ یہاں تک کہ ہم ان کے خیمے تک جا پہنچے، وہاں سیدنا خالد اپنے کجاوے کے پچھلے حصے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر ان کا زخم دیکھا پھر اس پر اپنا لعاب دہن لگا دیا۔
آخر مسند المكيين والمدنيين عن النبي صلى الله عليه وسلم رضي الله تعالى عنهم.آخِرُ مُسْنَدِ الْمَكِّيِّينَ وَالْمَدَنِيِّينَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ.