(حديث موقوف) (حديث مرفوع) واهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم لحم حمار وحش وهو بالابواء، او بودان، فرده علي، فلما راى الكراهية في وجهي، قال:" إنه ليس منا رد عليك، ولكنا حرم".(حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَأَهْدَيْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَحْمَ حِمَارِ وَحْشٍ وَهُوَ بِالْأَبْوَاءِ، أَوْ بِوَدَّانَ، فَرَدَّهُ عَلَيَّ، فَلَمَّا رَأَى الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِي، قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ مِنَّا رَدٌّ عَلَيْكَ، وَلَكِنَّا حُرُمٌ".
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے، میں نے آپ کی خدمت میں جنگلی گدھے کا گوشت ہدیۃ پیش کیا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھے واپس کر دیا اور جب میرے چہرے پر غمگینی کے آثار دیکھے تو فرمایا کہ اسے واپس کرنے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم محرم ہیں سفیان کہتے ہیں کہ سیدنا صعب کی مذکورہ حدیث ہمیں عمرو بن دینار نے امام زہری کے حوالے سے بتائی، اس وقت تک ہم امام زہری سے نہیں ملے تھے، عمرو نے اس حدیث میں یہ کہا تھا کہ مشرکین کے بچے انہی میں سے ہیں، لیکن جب امام زہری ہمارے یہاں آئے تو میں نے ان سے اس حدیث کی تحقیق کی، انہوں نے یہ لفظ نہیں فرمایا: بلکہ یہ فرمایا: تھا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد سے بہتر ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقال سفيان: «لحم حمار وحش» والمحفوظ: حمار وحش
قال سفيان : فحدثنا عمرو بن دينار ، بحديث الصعب هذا، عن الزهري قبل ان نلقاه، فقال فيه:" هم من آبائهم" فلما قدم علينا الزهري تفقدته فلم يقل، وقال: هم خير منهم.قَالَ سُفْيَانُ : فَحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، بِحَدِيثِ الصَّعْبِ هَذَا، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَبْلَ أَنْ نَلْقَاهُ، فَقَالَ فِيهِ:" هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ" فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا الزُّهْرِيُّ تَفَقَّدْتُهُ فَلَمْ يَقُلْ، وَقَالَ: هُمْ خَيْرٌ مِنْهُمْ.
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مشرکین کے اہل خانہ کے متعلق پوچھا: گیا جن پر شب خون مارا جائے اور اس دوران ان کی عورتیں اور بچے بھی مارے جائیں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ (عورتیں اور بچے) بھی مشرکین ہی کے ہیں (اس لئے مشرکین ہی میں شمار ہوں گے)۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3012، م: 1745 ، وهذا إسناد ضعيف، عبدالرحمن بن أبى الزناد وعبدالرحمن بن الحارث ضعيفان، وعبدالرحمن بن الحارث لم يسمع من عبيدالله
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، میں اس وقت مقام ابواء یاودان میں تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے، میں نے آپ کی خدمت میں جنگلی گدھے کا گوشت ہدیۃ پیش کیا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھے واپس کر دیا اور جب میرے چہرے پر غمگینی کے آثار دیکھے تو فرمایا کہ اسے واپس کرنے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم محرم ہیں
سیدنا صعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی علاقے کو ممنوعہ علاقہ قرار دینا اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں۔
(حديث مرفوع) قال عبد الله بن احمد: حدثنا ابو احمد الهيثم بن خارجة ، قال: حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي فروة ، عن يوسف بن سليمان ، عن جدته ميمونة ، عن عبد الرحمن بن سنة ، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" بدا الإسلام غريبا، ثم يعود غريبا كما بدا، فطوبى للغرباء"، قيل: يا رسول الله، ومن الغرباء؟، قال:" الذين يصلحون إذا فسد الناس، والذي نفسي بيده ليحازن الإيمان إلى المدينة كما يحوز السيل، والذي نفسي بيده ليارزن الإسلام إلى ما بين المسجدين كما تارز الحية إلى جحرها".(حديث مرفوع) قال عَبْد اللَّهِ بن أحمد: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنْ جَدَّتِهِ مَيْمُونَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَنَّةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا، ثُمَّ يَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَأَ، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ الْغُرَبَاءُ؟، قَالَ:" الَّذِينَ يَصْلُحُونَ إِذَا فَسَدَ النَّاسُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُحَازَنَّ الْإِيمَانُ إِلَى الْمَدِينَةِ كَمَا يَحْوزُ السَّيْلُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيَأْرِزَنَّ الْإِسْلَامُ إِلَى مَا بَيْنَ الْمَسْجِدَيْنِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ إِلَى جُحْرِهَا".
سیدنا عبدالرحمن بن سنہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا تھا اور بالآخر یہ دوبارہ اجنبی جائے گا، جیسے آغاز میں تھا، سو خوشخبری ہے غرباء کے لئے، کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ!! غرباء سے کون لوگ مراد ہیں؟ فرمایا: جو لوگوں کے فساد پھیلانے کے زمانے میں اصلاح کا کام کرتے ہیں، اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ ایمان اسی طرح مدینہ منورہ میں سمٹ آئے گا جیسے پانی کی نالی سمٹ جاتی ہے اور اس ذات کی قسم جس کے دست قدر میں میری جان ہے، اسلام دو مسجدوں کے درمیان اس طرح داخل ہو جائے گا جیسے سانپ اپنے بل میں داخل ہو جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا بهذه السياقة، إسحاق بن عبدالله متروك ، ويوسف ابن سليمان مجهول
(حديث مرفوع) قال عبد الله بن احمد: حدثنا مصعب بن عبد الله هو الزبيري ، قال: حدثني ابي ، عن فائد مولى عبادل، قال: خرجت مع إبراهيم بن عبد الرحمن بن عبد الله بن ابي ربيعة، فارسل إبراهيم بن عبد الرحمن إلى ابن سعد، حتى إذا كنا بالعرج اتانا ابن لسعد، وسعد هو الذي دل رسول الله صلى الله عليه وسلم على طريق ركوبه، فقال إبراهيم: اخبرني ما حدثك ابوك؟، قال ابن سعد : حدثني ابي ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتاهم ومعه ابو بكر، وكانت لابي بكر عندنا بنت مسترضعة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اراد الاختصار في الطريق إلى المدينة، فقال له سعد: هذا الغائر من ركوبة، وبه لصان من اسلم، يقال لهما: المهانان، فإن شئت اخذنا عليهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خذ بنا عليهما"، قال سعد: فخرجنا حتى إذا اشرفنا إذا احدهما يقول لصاحبه هذا اليماني، فدعاهما رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعرض عليهما الإسلام فاسلما، ثم سالهما عن اسمائهما، فقالا: نحن المهانان، فقال:" بل انتما المكرمان، وامرهما ان يقدما عليه المدينة، فخرجنا حتى اتينا ظاهر قباء، فتلقى بنو عمرو بن عوف، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اين ابو امامة اسعد بن زرارة؟"، فقال سعد بن خيثمة: إنه اصاب قبلي يا رسول الله، افلا اخبره لك؟ ثم مضى حتى إذا طلع على النخل، فإذا الشرب مملوء، فالتفت النبي صلى الله عليه وسلم إلى ابي بكر رضي الله عنه، فقال:" يا ابا بكر هذا المنزل رايتني انزل على حياض كحياض بني مدلج".(حديث مرفوع) قال عَبْد اللَّه ِبن أحمد: حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ الزُّبَيْرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ فَائِدٍ مَوْلَى عَبَادِلَ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، فَأَرْسَلَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَى ابْنِ سَعْدٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَرْجِ أَتَانا ابْنٌ لسَعْدٍ، وَسَعْدٌ هُوَ الَّذِي دَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى طَرِيقِ رَكُوبِهِ، فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: أَخْبِرْنِي مَا حَدَّثَكَ أَبُوكَ؟، قَالَ ابْنُ سَعْدٍ : حَدَّثَنِي أَبِي ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُمْ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَكَانَتْ لِأَبِي بَكْرٍ عِنْدَنَا بِنْتٌ مُسْتَرْضَعَةٌ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ الِاخْتِصَارَ فِي الطَّرِيقِ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: هَذَا الْغَائِرُ مِنْ رَكُوبَةٍ، وَبِهِ لِصَّانِ مِنْ أَسْلَمَ، يُقَالُ لَهُمَا: الْمُهَانَانِ، فَإِنْ شِئْتَ أَخَذْنَا عَلَيْهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذْ بِنَا عَلَيْهِمَا"، قَالَ سَعْدٌ: فَخَرَجْنَا حَتَّى إذا أَشْرَفْنَا إِذَا أَحَدُهُمَا يَقُولُ لِصَاحِبِهِ هَذَا الْيَمَانِي، فَدَعَاهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَرَضَ عَلَيْهِمَا الْإِسْلَامَ فَأَسْلَمَا، ثُمَّ سَأَلَهُمَا عَنْ أَسْمَائِهِمَا، فَقَالَا: نَحْنُ الْمُهَانَانِ، فَقَالَ:" بَلْ أَنْتُمَا الْمُكْرَمَانِ، وَأَمَرَهُمَا أَنْ يَقْدَمَا عَلَيْهِ الْمَدِينَةَ، فَخَرَجْنَا حَتَّى أَتَيْنَا ظَاهِرَ قُبَاءَ، فَتَلَقَّى بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيْنَ أَبُو أُمَامَةَ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ؟"، فَقَالَ سَعْدُ بْنُ خَيْثَمَةَ: إِنَّهُ أَصَابَ قَبْلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا أُخْبِرُهُ لَكَ؟ ثُمَّ مَضَى حَتَّى إِذَا طَلَعَ عَلَى النَّخْلِ، فَإِذَا الشَّرْبُ مَمْلُوءٌ، فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ هَذَا الْمَنْزِلُ رَأَيْتُنِي أَنْزِلُ عَلَى حِيَاضٍ كَحِيَاضِ بَنِي مُدْلِجٍ".
فائد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ابراہیم بن عبدالرحمن کے ساتھ نکلا، انہوں نے ابن سعد کے پاس پیغام بھیج کر انہیں بلایا، ابھی ہم مقام عرج میں تھے کہ ابن سعد ہمارے پاس آپہنچے، یاد رہے کہ یہ سیدنا سعد کے صاحبزادے ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شب ہجرت راستہ بتایا تھا، ابراہیم ان سے کہنے لگے کہ مجھے وہ حدیث بتایئے جو آپ کے والد نے آپ سے بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد نے یہ حدیث سنائی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے، آپ کے ہمراہ سیدنا صدیق اکبر بھی تھے، جن کی ایک بیٹی ہمارے یہاں دودھ بھی پیتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچنے کے لئے کوئی مختصر راستہ معلوم کرنا چاہتے تھے، سعد نے عرض کیا: یہ ایک چلتا ہوا پہاڑی راستہ ہے لیکن قبیلہ اسلم کے دو ڈاکو رہتے ہیں جنہیں ' مہانان ' کہا جاتا ہے، اگر آپ چاہیں تو ہم اسی راستے پر چل پڑتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیں ان دونوں کے پاس سے ہی لے چلو، چنانچہ ہم روانہ ہو گئے، جب ہم وہاں پہنچے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا یہ یمانی آدمی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور اسلام قبول کرنے کی پیشکش کی، انہوں نے اسلام قبول کر لیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کا نام پوچھا: تو انہوں نے بتایا کہ ہم مہانان ہیں، (جس کا لفظی معنی ذلیل لوگ ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم دونوں مکر مان ہو (جس کا معنی معزز لوگ ہے) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی مدینہ منورہ پہنچنے کا حکم دیا۔ ہم لوگ چلتے رہے یہاں تک کہ قباء کے قریب پہنچ گئے، وہاں ہمیں بنوعمرو بن عوف مل گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ابوامامہ اسعد بن زرارہ کہاں ہیں؟ تو سعد بن خیثمہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ!! وہ مجھ سے پہلے گئے ہیں، میں انہیں مطلع نہ کر دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر روانہ ہو گئے، یہاں تک کہ جب کھجوروں کے درخت نظر آنے لگے تو معلوم ہوا کہ راستہ میں لوگوں کا جم غفیر بھرا ہوا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ابوبکر! ہماری منزل یہی ہے، میں نے خواب دیکھا تھا کہ میں بنو مدلج کے حوضوں کی طرح کچھ حوضوں پر اتر رہا ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالله بن مصعب بن ثابت والد مصعب بن عبدالله يكتب حديثه للمتابعة، ولا يحتج به
سیدنا مسور بن یزید سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جہری نماز پڑھائی اور اس میں کوئی آیت چھوڑ دی، نماز کے بعد ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! آپ نے فلاں فلاں آیت چھوڑ دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم نے مجھے یاد کیوں نہیں دلائی؟
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف يحيى بن كثير الكاهلي
(حديث مرفوع) قال عبد الله بن احمد: حدثني سريج بن يونس من كتابه، قال: حدثنا عباد بن عباد يعني المهلبي ، عن عبد الله بن عثمان ابن خثيم ، عن سعيد بن ابي راشد مولى لآل معاوية، قال: قدمت الشام، فقيل لي: في هذه الكنيسة رسول قيصر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فدخلنا الكنيسة، فإذا انا بشيخ كبير، فقلت له: انت رسول قيصر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فقال: نعم، قال: قلت: حدثني عن ذلك، قال: إنه لما غزا تبوك، كتب إلى قيصر كتابا، وبعث مع رجل، يقال له: دحية بن خليفة، فلما قرا كتابه وضعه معه على سريره، وبعث إلى بطارقته ورءوس اصحابه، فقال: إن هذا الرجل قد بعث إليكم رسولا، وكتب إليكم كتابا يخيركم إحدى ثلاث إما ان تتبعوه على دينه، او تقروا له بخراج يجري له عليكم ويقركم على هيئتكم في بلادكم، او ان تلقوا إليه بالحرب، قال: فنخروا نخرة حتى خرج بعضهم من برانسهم، وقالوا: لا نتبعه على دينه، وندع ديننا ودين آبائنا، ولا نقر له بخراج يجري له علينا، ولكن نلقي إليه الحرب، فقال: قد كان ذاك، ولكني كرهت ان افتات دونكم بامر، قال عباد: فقلت لابن خثيم: اوليس قد كان قارب وهم بالإسلام فيما بلغنا؟، قال: بلى، لولا انه راى منهم، قال: فقال: ابغوني رجلا من العرب اكتب معه إليه جواب كتابه، قال: فاتيت وانا شاب، فانطلق بي إليه، فكتب جوابه، وقال لي: مهما نسيت من شيء فاحفظ عني ثلاث خلال انظر إذا هو قرا كتابي هل يذكر الليل والنهار، وهل يذكر كتابه إلي، وانظر هل ترى في ظهره علما، قال: فاقبلت حتى اتيته وهو بتبوك في حلقة من اصحابه منتجين فسالت فاخبرت به، فدفعت إليه الكتاب، فدعا معاوية فقرا عليه الكتاب، فلما اتى على قوله: دعوتني إلى جنة عرضها السموات والارض، فاين النار؟، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا جاء الليل فاين النهار؟"، قال: فقال:" إني قد كتبت إلى النجاشي فخرقه، فخرقه الله مخرق الملك"، قال عباد: فقلت لابن خثيم: اليس قد اسلم النجاشي، ونعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة إلى اصحابه، فصلى عليه؟، قال: بلى، ذاك فلان بن فلان، وهذا فلان ابن فلان، قد ذكرهم ابن خثيم جميعا ونسيتهما" وكتبت إلى كسرى كتابا، فمزقه، فمزقه الله تمزيق الملك، وكتبت إلى قيصر كتابا، فاجابني فيه، فلم تزل الناس يخشون منهم باسا ما كان في العيش خير"، ثم قال لي:" من انت؟"، قلت: من تنوخ، قال:" يا اخا تنوخ، هل لك في الإسلام؟"، قلت: لا، إني اقبلت من قبل قوم وانا فيهم على دين، ولست مستبدلا بدينهم حتى ارجع إليهم، قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم او تبسم، فلما قضيت حاجتي، قمت، فلما وليت دعاني، فقال:" يا اخا تنوخ، هلم فامض للذي امرت به"، قال: وكنت قد نسيتها، فاستدرت من وراء الحلقة، القى بردة كانت عليه عن ظهره، فرايت غضروف كتفه مثل المحجم الضخم.(حديث مرفوع) قال عَبْد اللَّهِ بن أحمد: حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ مِنْ كِتَابِهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ يَعْنِي الْمُهَلَّبِيَّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ ابْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ مَوْلًى لِآلِ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: قَدِمْتُ الشَّامَ، فَقِيلَ لِي: فِي هَذِهِ الْكَنِيسَةِ رَسُولُ قَيْصَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَدَخَلْنَا الْكَنِيسَةَ، فَإِذَا أَنَا بِشَيْخٍ كَبِيرٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَنْتَ رَسُولُ قَيْصَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: حَدِّثْنِي عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: إِنَّهُ لَمَّا غَزَا تَبُوكَ، كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ كِتَابًا، وَبَعَثَ مَعَ رَجُلٍ، يُقَالُ لَهُ: دِحْيَةُ بْنُ خَلِيفَةَ، فَلَمَّا قَرَأَ كِتَابَهُ وَضَعَهُ مَعَهُ عَلَى سَرِيرِهِ، وَبَعَثَ إِلَى بَطَارِقَتِهِ وَرُءُوسِ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ بَعَثَ إِلَيْكُمْ رَسُولًا، وَكَتَبَ إِلَيْكُمْ كِتَابًا يُخَيِّرُكُمْ إِحْدَى ثَلَاثٍ إِمَّا أَنْ تَتَّبِعُوهُ عَلَى دِينِهِ، أَوْ تُقِرُّوا لَهُ بِخَرَاجٍ يَجْرِي لَهُ عَلَيْكُمْ وَيُقِرَّكُمْ عَلَى هَيْئَتِكُمْ فِي بِلَادِكُمْ، أَوْ أَنْ تُلْقُوا إِلَيْهِ بِالْحَرْبِ، قَالَ: فَنَخَرُوا نَخْرَةً حَتَّى خَرَجَ بَعْضُهُمْ مِنْ بَرَانِسِهِمْ، وَقَالُوا: لَا نَتَّبِعُهُ عَلَى دِينِهِ، وَنَدَعُ دِينَنَا وَدِينَ آبَائِنَا، وَلَا نُقِرُّ لَهُ بِخَرَاجٍ يَجْرِي لَهُ عَلَيْنَا، وَلَكِنْ نُلْقِي إِلَيْهِ الْحَرْبَ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ ذَاكَ، وَلَكِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أَفْتَاتَ دُونَكُمْ بِأَمْرٍ، قَالَ عَبَّادٌ: فَقُلْتُ لِابْنِ خُثَيْمٍ: أَوَلَيْسَ قَدْ كَانَ قَارَبَ وَهَمَّ بِالْإِسْلَامِ فِيمَا بَلَغَنَا؟، قَالَ: بَلَى، لَوْلَا أَنَّهُ رَأَى مِنْهُمْ، قَالَ: فَقَالَ: ابْغُونِي رَجُلًا مِنَ الْعَرَبِ أَكْتُبْ مَعَهُ إِلَيْهِ جَوَابَ كِتَابِهِ، قَالَ: فَأَتَيْتُ وَأَنَا شَابٌّ، فَانْطُلِقَ بِي إِلَيْهِ، فَكَتَبَ جَوَابَهُ، وَقَالَ لِي: مَهْمَا نَسِيتَ مِنْ شَيْءٍ فَاحْفَظْ عَنِّي ثَلَاثَ خِلَالٍ انْظُرْ إِذَا هُوَ قَرَأَ كِتَابِي هَلْ يَذْكُرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَهَلْ يَذْكُرُ كِتَابَهُ إِلَيَّ، وَانْظُرْ هَلْ تَرَى فِي ظَهْرِهِ عَلَمًا، قَالَ: فَأَقْبَلْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ وَهُوَ بِتَبُوكَ فِي حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ مُنْتِجينَ فَسَأَلْتُ فَأُخْبِرْتُ بِهِ، فَدَفَعْتُ إِلَيْهِ الْكِتَابَ، فَدَعَا مُعَاوِيَةَ فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَلَمَّا أَتَى عَلَى قَوْلِهِ: دَعَوْتَنِي إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ، فَأَيْنَ النَّارُ؟، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا جَاءَ اللَّيْلُ فَأَيْنَ النَّهَارُ؟"، قَالَ: فَقَالَ:" إِنِّي قَدْ كَتَبْتُ إِلَى النَّجَاشِيِّ فَخَرَّقَهُ، فَخَرَّقَهُ اللَّهُ مُخَرِّقَ الْمُلْكِ"، قَالَ عَبَّادٌ: فَقُلْتُ لِابْنِ خُثَيْمٍ: أَلَيْسَ قَدْ أَسْلَمَ النَّجَاشِيُّ، وَنَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ؟، قَالَ: بَلَى، ذَاكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، وَهَذَا فُلَانُ ابْنُ فُلَانٍ، قَدْ ذَكَرَهُمْ ابْنُ خُثَيْمٍ جَمِيعًا وَنَسِيتُهُمَا" وَكَتَبْتُ إِلَى كِسْرَى كِتَابًا، فَمَزَّقَهُ، فَمَزَّقَهُ اللَّهُ تَمْزِيقَ الْمُلْكِ، وَكَتَبْتُ إِلَى قَيْصَرَ كِتَابًا، فَأَجَابَنِي فِيهِ، فَلَمْ تَزَلْ النَّاسُ يَخْشَوْنَ مِنْهُمْ بَأْسًا مَا كَانَ فِي الْعَيْشِ خَيْرٌ"، ثُمَّ قَالَ لِي:" مَنْ أَنْتَ؟"، قُلْتُ: مِنْ تَنُوخٍ، قَالَ:" يَا أَخَا تَنُوخٍ، هَلْ لَكَ فِي الْإِسْلَامِ؟"، قُلْتُ: لَا، إِنِّي أَقْبَلْتُ مِنْ قِبَلِ قَوْمٍ وَأَنَا فِيهِمْ عَلَى دِينٍ، وَلَسْتُ مُسْتَبْدِلًا بِدِينِهِمْ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْهِمْ، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ تَبَسَّمَ، فَلَمَّا قَضَيْتُ حَاجَتِي، قُمْتُ، فَلَمَّا وَلَّيْتُ دَعَانِي، فَقَالَ:" يَا أَخَا تَنُوخٍ، هَلُمَّ فَامْضِ لِلَّذِي أُمِرْتَ بِهِ"، قَالَ: وَكُنْتُ قَدْ نَسِيتُهَا، فَاسْتَدَرْتُ مِنْ وَرَاءِ الْحَلْقَةِ، أَلْقَى بُرْدَةً كَانَتْ عَلَيْهِ عَنْ ظَهْرِهِ، فَرَأَيْتُ غُضْرُوفَ كَتِفِهِ مِثْلَ الْمِحْجَمِ الضَّخْمِ.
سعید بن ابوراشد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حمص میں میری ملاقات تنوخی سے ہوئی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہرقل کے ایلچی بن کر آئے تھے، وہ میرے پڑوسی تھے، انتہائی بوڑھے ہو چکے تھے اور سٹھیا جانے کی عمر تک پہنچ چکے تھے، میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہرقل کے خط اور ہرقل کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کے بارے کچھ بتاتے کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں تشریف لائے ہوئے تھے، آپ نے سیدنا دحیہ کلبی کو ہرقل کے پاس بھیجا، جب ہرقل کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک خط پہنچا تو اس نے رومی پادریوں اور سرداروں کو جمع کیا اور کمرے کا دروازہ بند کر لیا اور ان سے کہنے لگا کہ یہ آدمی میرے پاس آیا ہے جیسا کہ تم نے دیکھ ہی لیا ہے، مجھے جو خط بھیجا گیا ہے، اس میں مجھے تین میں سے کسی ایک صورت کو قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے، یا تو میں ان کے دین کی پیروی کر لوں یا انہیں زمین پر مال کی صورت میں ٹیکس دوں اور زمین ہمارے پاس ہی رہے، یا پھر ان سے جنگ کر وں، اللہ کی قسم! آپ لوگ جو کتابیں پڑھتے ہو، ان کی روشنی میں آپ جانتے ہو کہ وہ میرے ان قدموں کے نیچے کی جگہ بھی حاصل کر لیں گے، تو کیوں نہ ہم ان کے دین کی پیروی کر لیں یا اپنی زمین کا مال کی صورت میں ٹیکس دے دیا کر یں۔ یہ سن کر ان سب کے نرخروں سے ایک جیسی آواز نکلنے لگی، حتی کہ انہوں نے اپنی ٹوپیاں اتاردیں اور کہنے لگے کہ کیا آپ ہمیں عیسائیت چھوڑنے کی دعوت دے رہے ہیں یا یہ کہ ہم کسی دیہاتی کے جو حجاز سے آیا ہے، غلام بن جائیں، جب ہرقل نے دیکھا کہ اگر یہ لوگ اس کے پاس سے اسی حال میں چلے گئے تو وہ پورے روم میں اس کے خلاف فساد برپا کر دیں گے تو اس نے فورا پینترا بدل کر کہا کہ میں نے تو یہ بات محض اس لئے کہی تھی کہ اپنے دین پر تمہارا جماؤ اور مضبوطی دیکھ سکوں۔ پھر اس نے عرب تجیب کے ایک آدمی کو جو نصار عرب پر امیر مقرر تھا، بلایا اور کہا کہ میرے پاس ایسے آدمی کو بلا کر لاؤ جو حافظہ کا قوی ہواور عربی زبان جانتاہو، تاکہ میں اسے اس شخص کی طرف اس کے خط کا جواب دے کر بھیجوں، وہ مجھے بلا لایا، ہرقل نے اپنا خط میرے حوالے کر دیا اور کہنے لگا کہ میرا یہ خط اس شخص کے پاس لے جاؤ، اگر اس کی ساری باتیں تم یاد نہ رکھ سکو تو کم از کم تین چیزیں ضرور یاد رکھ لینا، یہ دیکھنا کہ وہ میری طرف بھیجے ہوئے اپنے خط کا کوئی ذکر کرتے ہیں یا نہیں؟ یہ دیکھنا کہ جب وہ میرا خط پڑھتے ہیں تورات کا ذکر کرتے ہیں یا نہیں؟ اور ان کی پشت پر دیکھنا، تمہیں کوئی عجیب چیز دکھائی دیتی ہے یا نہیں؟ میں ہرقل کا خط لے کر روانہ ہواور تبوک پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان پانی کے قریبی علاقے میں اپنی ٹانگوں کے گرد ہاتھوں سے حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے ساتھی کہاں ہیں؟ انہوں نے مجھے اشارہ سے بتادیا، میں چلتا ہوا آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، انہیں خط پکڑایا جسے انہوں نے اپنی گود میں رکھ لی اور اور مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے کہا کہ میں ایک تنوخی آدمی ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہیں ملت حنیفیہ اسلام جو تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ہے میں کوئی رغبت محسوس ہو تی ہے؟ میں نے کہا میں ایک قوم کا قاصد ہوں اور ایک قوم کے دین پر ہوں، میں جب تک ان کے پاس لوٹ نہ جاؤں اس دین سے برگشتہ نہیں ہو سکتا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا کر یہ آیت پڑھنے لگے کہ، جسے آپ چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے، ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو زیادہ جانتا ہے۔ اے تنوخی بھائی! میں نے ایک خط کسری کی طرف لکھا تھا، اس نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، اللہ اسے اور اس کی حکومت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا، میں نے نجاشی کی طرف بھی خط لکھا تھا، اس نے اسے پھاڑ دیا، اللہ اسے اور اس کی حکومت کو توڑ پھوڑ دے گا، میں نے تمہارے بادشاہ کو بھی خط لکھا لیکن اس نے اسے محفوظ کر لیا، لہذا جب تک زندگی میں کوئی خیر رہے گی، لوگوں پر اس کا رعب ودبدبہ باقی رہے گا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ تین میں سے پہلی بات ہے جس کی مجھے بادشاہ نے وصیت کی تھی، چنانچہ میں اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور اس سے اپنی تلوار کی جلد پر یہ بات لکھ لی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خط اپنی بائیں جانب بیٹھے ہوئے ایک آدمی کو دے دیا، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خط پڑھنے والے صاحب کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں، بہرحال! ہمارے بادشاہ کے خط میں لکھا ہوا تھا کہ آپ مجھے اس جنت کی دعوت دیتے ہیں جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے جو متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے،
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سعيد بن أبى راشد