(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني سعيد بن ابي سعيد المقبري ، عن ابي شريح الخزاعي ، قال: لما بعث عمرو بن سعيد إلى 60 مكة 60 بعثه يغزو ابن الزبير، اتاه ابو شريح، فكلمه واخبره بما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم خرج إلى نادي قومه، فجلس فيه، فقمت إليه، فجلست معه، فحدث قومه كما حدث عمرو بن سعيد، ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعما قال له عمرو بن سعيد، قال: قلت: هذا إنا كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حين افتتح مكة، فلما كان الغد من يوم الفتح عدت خزاعة على رجل من هذيل، فقتلوه، وهو مشرك، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا خطيبا، فقال:" يا ايها الناس، إن الله عز وجل حرم مكة يوم خلق السماوات والارض، فهي حرام من حرام الله تعالى إلى يوم القيامة، لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر ان يسفك فيها دما، ولا يعضد بها شجرا، لم تحلل لاحد كان قبلي، ولا تحل لاحد يكون بعدي، ولم تحلل لي إلا هذه الساعة، غضبا على اهلها، الا ثم قد رجعت كحرمتها بالامس، الا فليبلغ الشاهد منكم الغائب، فمن قال لكم: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قاتل بها، فقولوا: إن الله عز وجل قد احلها لرسوله ولم يحللها لكم. يا معشر خزاعة، وارفعوا ايديكم عن القتل، فقد كثر ان يقع، لئن قتلتم قتيلا لادينه، فمن قتل بعد مقامي هذا فاهله بخير النظرين إن شاءوا فدم قاتله، وإن شاءوا فعقله"، ثم ودى رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجل الذي قتلته خزاعة. فقال عمرو بن سعيد لابي شريح: انصرف ايها الشيخ، فنحن اعلم بحرمتها منك، إنها لا تمنع سافك دم، ولا خالع طاعة، ولا مانع جزية، قال: فقلت: قد كنت شاهدا، وكنت غائبا، وقد بلغت، وقد امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبلغ شاهدنا غائبنا، وقد بلغتك فانت وشانك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: لَمَّا بَعَثَ عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ إِلَى 60 مَكَّةَ 60 بَعْثَهُ يَغْزُو ابْنَ الزُّبَيْرِ، أَتَاهُ أَبُو شُرَيْحٍ، فَكَلَّمَهُ وَأَخْبَرَهُ بِمَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى نَادِي قَوْمِهِ، فَجَلَسَ فِيهِ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَجَلَسْتُ مَعَهُ، فَحَدَّثَ قَوْمَهُ كَمَا حَدَّثَ عَمْرَو بْنَ سَعِيدٍ، مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَمَّا قَالَ لَهُ عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: قُلْتُ: هَذَا إِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ مَكَّةَ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ عَدَتْ خُزَاعَةُ عَلَى رَجُلٍ مِنْ هُذَيْلٍ، فَقَتَلُوهُ، وَهُوَ مُشْرِكٌ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا خَطِيبًا، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهِيَ حَرَامٌ مِنْ حَرَامِ اللَّهِ تَعَالَى إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ فِيهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرًا، لَمْ تَحْلِلْ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِي، وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ يَكُونُ بَعْدِي، وَلَمْ تَحْلِلْ لِي إِلَّا هَذِهِ السَّاعَةَ، غَضَبًا عَلَى أَهْلِهَا، أَلَا ثُمَّ قَدْ رَجَعَتْ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، أَلَا فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ مِنْكُمْ الْغَائِبَ، فَمَنْ قَالَ لَكُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَاتَلَ بِهَا، فَقُولُوا: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَحَلَّهَا لِرَسُولِهِ وَلَمْ يُحْلِلْهَا لَكُمْ. يَا مَعْشَرَ خُزَاعَةَ، وَارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ عَنِ الْقَتْلِ، فَقَدْ كَثُرَ أَنْ يَقَعَ، لَئِنْ قَتَلْتُمْ قَتِيلًا لَأَدِيَنَّهُ، فَمَنْ قُتِلَ بَعْدَ مَقَامِي هَذَا فَأَهْلُهُ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِنْ شَاءُوا فَدَمُ قَاتِلِهِ، وَإِنْ شَاءُوا فَعَقْلُهُ"، ثُمَّ وَدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَ الَّذِي قَتَلَتْهُ خُزَاعَةُ. فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ لِأَبِي شُرَيْحٍ: انْصَرِفْ أَيُّهَا الشَّيْخُ، فَنَحْنُ أَعْلَمُ بِحُرْمَتِهَا مِنْكَ، إِنَّهَا لَا تَمْنَعُ سَافِكَ دَمٍ، وَلَا خَالِعَ طَاعَةٍ، وَلَا مَانِعَ جِزْيَةٍ، قَالَ: فَقُلْتُ: قَدْ كُنْتُ شَاهِدًا، وَكُنْتَ غَائِبًا، وَقَدْ بَلَّغْتُ، وَقَدْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبَلِّغَ شَاهِدُنَا غَائِبَنَا، وَقَدْ بَلَّغْتُكَ فَأَنْتَ وَشَأْنُكَ.
ضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ جب عمرو بن سعید نے سیدنا عبداللہ بن زبیر سے مقابلے کے لئے مکہ کی طرف اپنالشکر روانہ کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اس کے پاس گئے اور اس سے بات کی اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے متعلق بتایا پھر اپنی قوم کی مجلس میں آ کر بیٹھ گئے میں بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور پھر عمرو بن سعید کا جواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اس سے کہا کہ اے فلاں۔ فتح مکہ کے موقع پر ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے فتح مکہ کے اگلے دن بنوخزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک آدمی پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا وہ مقتول مشرک تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ لوگو اللہ نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا: تھا اسی دن مکہ کو حرم قرار دیا تھا لہذا وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی آدمی کے لئے اس میں خون ریزی کرنا اور درخت کاٹنا جائز نہیں ہے یہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہو گا اور میرے لئے بھی صرف اس مختصر وقت کے لئے حلال تھا جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں پر اللہ کا غضب تھا یاد رکھو کہ اب اس کی حرمت لوٹ کر کل کی طرح ہو چکی ہے یادر کھوتم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ غائبین تک پہنچادیں اور جو شخص تم سے یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو مکہ میں قتال کیا تھا تو کہہ دینا کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اسے حلال کیا تھا تمہارے لئے نہیں کیا اے گروہ خزاعہ اب قتل سے اپنے ہاتھ اٹھالو کہ بہت ہو چکا ہے اس سے پہلے تم نے جس شخص کو قتل کیا ہے میں اس کی دیت دے دوں گا لیکن اس جگہ پر میرے کھڑے ہو نے کے بعد جو شخص کسی کو قتل کر ے گا تو مقتول کے ورثا کو دو میں سے ایک بات کا اختیار ہو گا۔ یاتوقاتل سے قصاص لے لیں یا پھر دیت لے لیں اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کی دیت ادا کر دی جسے بنوخزاعہ نے قتل کر دیا تھا۔ یہ حدیث سن کر عمرو بن سعید نے سیدنا ابوشریح سے کہا بڑے میاں آپ واپس چلے جائیں ہم اس کی حرمت آپ سے زیادہ جانتے ہیں یہ حرمت کسی خون ریزی کرنے والے اطاعت چھوڑنے والے اور جزیہ روکنے والے کی حفاظت نہیں کر سکتی میں نے اس سے کہا کہ میں اس موقع پر موجود تھا تم غائب تھے اور ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غائبین تک اسے پہنچانے کا حکم دیا تھا سو میں نے یہ حکم پہنچادیا اب تم جانو اور تمہارا کام جانے۔
سیدنا ابوشریح سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سرکش تین طرح کے لوگ ہیں۔ ١۔ حرم میں کسی کو قتل کرنے والا۔ ٢۔ اپنے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے والا۔ ٣۔ زمانہ جاہلیت کے خون کا قصاص لینے والا۔ اور واللہ میں اس شخص کی دیت ضرور ادا کر وں گا جسے تم نے قتل کیا ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت ادا کر دی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالرحمن بن إسحاق ليس ممن يعتمد على حفظه إذا خالف، وقد خولف. والجملۃ الأولي حسن لغيره، كما برقم: 16376، والجمله الأخري: «أو بصر ......» صحيحۃ من حديث ابن عمر.
سیدنا ولید بن عقبہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکر مہ کو فتح کر لیا تو اہل مکہ کے اپنے بچوں کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے اور ان کے لئے دعا کرتے مجھے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا میں نے اس وقت خلوق نامی خوشبو لگا رکھی تھی اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہ تھی کہ میری والدہ نے مجھے خلوق لگادی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالله الهمداني، والخبر منكر
سیدنا لقیط بن صبرہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: جب وضو کیا کر و تو انگلیوں میں خلال بھی کیا کر و۔
سیدنا لقیط بن صبرہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ہمارے لئے ایک بکری ذبح فرمائی اور فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے صرف تمہاری وجہ سے اسے ذبح کیا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ہمارا بکریوں کا ریوڑ ہے جب بکریوں کی تعداد سو تک پہنچ جاتی ہے تو ہم اس میں سے ایک ذبح کر لیتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا ابن جريج ، قال: حدثنا إسماعيل بن كثير ابو هاشم المكي ، عن عاصم بن لقيط بن صبرة ، عن ابيه او جده وافد بني المنتفق. قال: انطلقت انا وصاحب لي حتى انتهينا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم نجده، فاطعمتنا عائشة تمرا، وعصدت لنا عصيدة إذ جاء النبي صلى الله عليه وسلم يتقلع، فقال:" هل اطعمتم من شيء؟" قلنا: نعم يا رسول الله، فبينا نحن كذلك دفع راعي الغنم في المراح على يده سخلة، قال:" هل ولدت؟"، قال: نعم، قال:" فاذبح لنا شاة"، ثم اقبل علينا، فقال:" لا تحسبن ولم يقل: لا تحسبن إنا ذبحنا الشاة من اجلكما. لنا غنم مائة لا نريد ان تزيد عليها، فإذا ولد الراعي بهمة امرناه بذبح شاة"، فقال: يا رسول الله، اخبرني عن الوضوء، قال:" إذا توضات فاسبغ وخلل الاصابع، وإذا استنثرت، فابلغ إلا ان تكون صائما"، قال: يا رسول الله، إن لي امراة، فذكر من طول لسانها وإيذائها، فقال:" طلقها"، قال: يا رسول الله، إنها ذات صحبة وولد، قال:" فامسكها وامرها، فإن يك فيها خير، فستفعل، ولا تضرب ظعينتك ضربك امتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ كَثِيرٍ أَبُو هَاشِمٍ الْمَكِّيُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ ، عَنْ أَبِيه أو جَدِّه وَافِدِ بَنِي الْمُنْتَفِقِ. قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ نَجِدْهُ، فَأَطْعَمَتْنَا عَائِشَةُ تَمْرًا، وَعَصَدَتْ لَنَا عَصِيدَةً إِذْ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَلَّعُ، فَقَالَ:" هَلْ أُطْعِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ؟" قُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ دَفَعَ رَاعِي الْغَنَمِ فِي الْمُرَاحِ عَلَى يَدِهِ سَخْلَةٌ، قَالَ:" هَلْ وَلَدَتْ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَاذْبَحْ لَنَا شَاةً"، ثُمَّ أَقْبِلْ عَلَيْنَا، فَقَالَ:" لَا تَحْسِبَنَّ وَلَمْ يَقُلْ: لَا تَحْسَبَنَّ إِنَّا ذَبَحْنَا الشَّاةَ مِنْ أَجْلِكُمَا. لَنَا غَنَمٌ مِائَةٌ لَا نُرِيدُ أَنْ تَزِيدَ عَلَيْهَا، فَإِذَا وَلَّدَ الرَّاعِي بَهْمَةً أَمَرْنَاهُ بِذَبْحِ شَاةٍ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي عَنِ الْوُضُوءِ، قَالَ:" إِذَا تَوَضَّأْتَ فَأَسْبِغْ وَخَلِّلْ الْأَصَابِعَ، وَإِذَا اسْتَنْثَرْتَ، فَأَبْلِغْ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي امْرَأَةً، فَذَكَرَ مِنْ طُولِ لِسَانِهَا وَإِيذَائِهَا، فَقَالَ:" طَلِّقْهَا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا ذَاتُ صُحْبَةٍ وَوَلَدٍ، قَالَ:" فَأَمْسِكْهَا وَأْمُرْهَا، فَإِنْ يَكُ فِيهَا خَيْرٌ، فَسَتَفْعَلْ، وَلَا تَضْرِبْ ظَعِينَتَكَ ضَرْبَكَ أَمَتَكَ".
سیدنا لقیط بن صبرہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے سیدنا عائشہ نے ہمیں کھجوریں کھلائیں اور گھی آٹاملا کر ہمارے لئے کھانا تیار کیا اسی اثناء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جھک کر چلتے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا کہ تم نے کچھ کھایا ہے ہم نے عرض کیا: جی یا رسول اللہ! اسی دوران بکریوں کے باڑے میں سے ایک چرواہے نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بکری کا ایک بچہ پیش کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا بکری نے بچہ دیا ہے اس نے کہا جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ایک بکری کو ذبح کر و اور ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے صرف تمہاری وجہ سے ذبح کیا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ہمارا بکریوں کا ریوڑ ہے جب بکریوں کی تعداد سو تک پہنچ جاتی ہے تو ہم اس میں سے ایک ذبح کر لیتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ ان کی تعداد سو سے زیادہ ہو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے وضو کے بارے میں بتائیں آپ نے فرمایا: جب وضو کیا کر و تو خوب اچھی طرح کیا کر و اور انگلیوں کا خلال بھی کیا کر و اور جب تم ناک میں پانی ڈالو تو خوب مبالغہ کر و الاّ یہ تم روزے سے ہو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بیوی بڑی زبان دراز اور بےہو دہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے طلاق دیدو میں نے کہا یا رسول اللہ! وہ کافی عرصے سے میرے یہاں ہے اور اس سے میری اولاد بھی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اسے اپنے پاس رکھ کر سمجھاتے رہواگر اس میں کوئی خیر ہوئی تو وہ تمہاری بات مان لے گی لیکن اپنی بیوی کو اپنی باندی کی طرح نہ مارنا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، قال: حدثنا هشام . ويزيد ، قال: اخبرنا هشام ، قال: حدثني يحيى ، عن ابي قلابة ، عن ثابت بن الضحاك ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لعن المؤمن كقتله، ومن قتل نفسه بشيء في الدنيا، عذب به في الآخرة، وليس على رجل مسلم نذر فيما لا يملك، ومن رمى مؤمنا بكفر، فهو كقتله، ومن حلف بملة سوى الإسلام كاذبا، فهو كما قال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ . وَيَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَعْنُ الْمُؤْمِنِ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ فِي الدُّنْيَا، عُذِّبَ بِهِ فِي الْآخِرَةِ، وَلَيْسَ عَلَى رَجُلٍ مُسْلِمٍ نَذْرٌ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَمَنْ رَمَى مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ، فَهُوَ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ سِوَى الْإِسْلَامِ كَاذِبًا، فَهُوَ كَمَا قَالَ".
سیدنا ثابت بن ضحاک سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا فرمایا: کسی مسلمان پر لعنت بھیجنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے اور جو شخص دنیا میں کسی کو جس چیز سے مارے گا آخرت میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا اور کسی مسلمان آدمی پر ایسی منت نہیں ہے جو اس کی طاقت میں نہ ہواور جو شخص کسی مسلمان پر کفر کی تہمت لگائے وہ اسے قتل کرنے کی طرح ہے اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسری ملت پر جھوٹی قسم کھائے تو وہ ویسا ہی تصور ہو گا جیسا کہ اس نے کہا (مثلاقادیانی، ہندو، یا عیسائی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا سفيان ، عن خالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، عن ثابت بن الضحاك الانصاري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من حلف بملة سوى الإسلام كاذبا متعمدا، فهو كما قال". رقم الحديث: 16042 (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال:" من قتل نفسه بشيء عذبه الله به في نار جهنم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ سِوَى الْإِسْلَامِ كَاذِبًا مُتَعَمِّدًا، فَهُوَ كَمَا قَالَ". رقم الحديث: 16042 (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ:" مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ عَذَّبَهُ اللَّهُ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ".
سیدنا ثابت بن ضحاک سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسری ملت کی جھوٹی قسم کھاتا ہے تو وہ ویسا ہی تصور کیا جاتا ہے جیسا اس نے کہا۔ اور جو شخص دنیا میں کسی کو جس چیز سے مارے گا آخرت میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔