(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا ابن جريج ، قال: حدثنا إسماعيل بن كثير ابو هاشم المكي ، عن عاصم بن لقيط بن صبرة ، عن ابيه او جده وافد بني المنتفق. قال: انطلقت انا وصاحب لي حتى انتهينا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم نجده، فاطعمتنا عائشة تمرا، وعصدت لنا عصيدة إذ جاء النبي صلى الله عليه وسلم يتقلع، فقال:" هل اطعمتم من شيء؟" قلنا: نعم يا رسول الله، فبينا نحن كذلك دفع راعي الغنم في المراح على يده سخلة، قال:" هل ولدت؟"، قال: نعم، قال:" فاذبح لنا شاة"، ثم اقبل علينا، فقال:" لا تحسبن ولم يقل: لا تحسبن إنا ذبحنا الشاة من اجلكما. لنا غنم مائة لا نريد ان تزيد عليها، فإذا ولد الراعي بهمة امرناه بذبح شاة"، فقال: يا رسول الله، اخبرني عن الوضوء، قال:" إذا توضات فاسبغ وخلل الاصابع، وإذا استنثرت، فابلغ إلا ان تكون صائما"، قال: يا رسول الله، إن لي امراة، فذكر من طول لسانها وإيذائها، فقال:" طلقها"، قال: يا رسول الله، إنها ذات صحبة وولد، قال:" فامسكها وامرها، فإن يك فيها خير، فستفعل، ولا تضرب ظعينتك ضربك امتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ كَثِيرٍ أَبُو هَاشِمٍ الْمَكِّيُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ ، عَنْ أَبِيه أو جَدِّه وَافِدِ بَنِي الْمُنْتَفِقِ. قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ نَجِدْهُ، فَأَطْعَمَتْنَا عَائِشَةُ تَمْرًا، وَعَصَدَتْ لَنَا عَصِيدَةً إِذْ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَلَّعُ، فَقَالَ:" هَلْ أُطْعِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ؟" قُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ دَفَعَ رَاعِي الْغَنَمِ فِي الْمُرَاحِ عَلَى يَدِهِ سَخْلَةٌ، قَالَ:" هَلْ وَلَدَتْ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَاذْبَحْ لَنَا شَاةً"، ثُمَّ أَقْبِلْ عَلَيْنَا، فَقَالَ:" لَا تَحْسِبَنَّ وَلَمْ يَقُلْ: لَا تَحْسَبَنَّ إِنَّا ذَبَحْنَا الشَّاةَ مِنْ أَجْلِكُمَا. لَنَا غَنَمٌ مِائَةٌ لَا نُرِيدُ أَنْ تَزِيدَ عَلَيْهَا، فَإِذَا وَلَّدَ الرَّاعِي بَهْمَةً أَمَرْنَاهُ بِذَبْحِ شَاةٍ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي عَنِ الْوُضُوءِ، قَالَ:" إِذَا تَوَضَّأْتَ فَأَسْبِغْ وَخَلِّلْ الْأَصَابِعَ، وَإِذَا اسْتَنْثَرْتَ، فَأَبْلِغْ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي امْرَأَةً، فَذَكَرَ مِنْ طُولِ لِسَانِهَا وَإِيذَائِهَا، فَقَالَ:" طَلِّقْهَا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا ذَاتُ صُحْبَةٍ وَوَلَدٍ، قَالَ:" فَأَمْسِكْهَا وَأْمُرْهَا، فَإِنْ يَكُ فِيهَا خَيْرٌ، فَسَتَفْعَلْ، وَلَا تَضْرِبْ ظَعِينَتَكَ ضَرْبَكَ أَمَتَكَ".
سیدنا لقیط بن صبرہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے سیدنا عائشہ نے ہمیں کھجوریں کھلائیں اور گھی آٹاملا کر ہمارے لئے کھانا تیار کیا اسی اثناء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جھک کر چلتے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا کہ تم نے کچھ کھایا ہے ہم نے عرض کیا: جی یا رسول اللہ! اسی دوران بکریوں کے باڑے میں سے ایک چرواہے نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بکری کا ایک بچہ پیش کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا بکری نے بچہ دیا ہے اس نے کہا جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ایک بکری کو ذبح کر و اور ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے صرف تمہاری وجہ سے ذبح کیا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ہمارا بکریوں کا ریوڑ ہے جب بکریوں کی تعداد سو تک پہنچ جاتی ہے تو ہم اس میں سے ایک ذبح کر لیتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ ان کی تعداد سو سے زیادہ ہو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے وضو کے بارے میں بتائیں آپ نے فرمایا: جب وضو کیا کر و تو خوب اچھی طرح کیا کر و اور انگلیوں کا خلال بھی کیا کر و اور جب تم ناک میں پانی ڈالو تو خوب مبالغہ کر و الاّ یہ تم روزے سے ہو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بیوی بڑی زبان دراز اور بےہو دہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے طلاق دیدو میں نے کہا یا رسول اللہ! وہ کافی عرصے سے میرے یہاں ہے اور اس سے میری اولاد بھی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اسے اپنے پاس رکھ کر سمجھاتے رہواگر اس میں کوئی خیر ہوئی تو وہ تمہاری بات مان لے گی لیکن اپنی بیوی کو اپنی باندی کی طرح نہ مارنا۔