(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا وهيب ، قال: حدثنا موسى بن عقبة ، قال: حدثني ابو سلمة ، عن الرجل الذي مر برسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يناجي جبريل عليه السلام، فزعم ابو سلمة انه تجنب ان يدنو من رسول الله صلى الله عليه وسلم تخوفا ان يسمع حديثه، فلما اصبح، قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما منعك ان تسلم إذ مررت بي البارحة"، قال: رايتك تناجي رجلا، فخشيت ان تكره ان ادنو منكما، قال:" وهل تدري من الرجل؟"، قال: لا، قال:" فذلك جبريل عليه السلام، ولو سلمت لرد السلام"، وقد سمعت من غير ابي سلمة انه حارثة بن النعمان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، عَنْ الرَّجُلِ الَّذِي مَرَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُنَاجِي جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَزَعَمَ أَبُو سَلَمَةَ أَنَّهُ تَجَنَّبَ أَنْ يَدْنُوَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَخَوُّفًا أَنْ يَسْمَعَ حَدِيثَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مَنَعَكَ أَنْ تُسَلِّمَ إِذْ مَرَرْتَ بِي الْبَارِحَةَ"، قَالَ: رَأَيْتُكَ تُنَاجِي رَجُلًا، فَخَشِيتُ أَنْ تَكْرَهَ أَنْ أَدْنُوَ مِنْكُمَا، قَالَ:" وَهَلْ تَدْرِي مَنْ الرَّجُلُ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" فَذَلِكَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، وَلَوْ سَلَّمْتَ لَرَدَّ السَّلَامَ"، وَقَدْ سَمِعْتُ مِنْ غَيْرِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهُ حَارِثَةَ بْنَ النُّعْمَانِ.
ابوسلمہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا جبرائیل سے سرگوشی فرما رہے تھے کہ ایک آدمی وہاں سے گزرا وہ اس خوف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہیں گیا کہ کہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کانوں میں نہ پڑ جائے اور وہ کوئی اہم بات ہو صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ رات کو جب تم میرے پاس گزر رہے تھے تو تمہیں مجھ کو سلام کرنے سے کس چیز نے روکا اس نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کسی شخص سے سرگوشی کر رہے ہیں مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کو میرا قریب آنا ناگوار نہ لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو وہ آدمی کون تھا اس نے کہا نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرائیل تھے اگر تم سلام کرتے تو وہ بھی تمہیں جواب دیتے بعض اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گزرنے والے حارثہ بن نعمان تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے والے ایک صحابی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صرف ایک کپڑے میں اس طرح نماز پڑھی کہ اس کے دونوں کنارے مخالف سمت سے نکال کر کندھے پر ڈال رکھے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عبد الله بن زمعة ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر النساء، فوعظ فيهن، وقال:" علام يضرب احدكم امراته، ولعله ان يضاجعها من آخر النهار او آخر الليل؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ النِّسَاءَ، فَوَعَظَ فِيهِنَّ، وَقَالَ:" عَلَامَ يَضْرِبُ أَحَدُكُمْ امْرَأَتَهُ، وَلَعَلَّهُ أَنْ يُضَاجِعَهَا مِنْ آخِرِ النَّهَارِ أَوْ آخِرِ اللَّيْلِ؟".
سیدنا عبداللہ بن زمعہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواتین کا تذکر ہ کرتے ہوئے سنا اور ان کے متعلق نصیحت کرتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو کس طرح مار لیتا ہے حالانکہ ہو سکتا ہے کہ اسی دن کے آخر یا رات کے آخر میں وہ اس کے ساتھ ہم بستری بھی کر ے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عبد الله بن زمعة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذ انبعث اشقاها سورة الشمس آية 12 انبعث لها رجل عارم عزيز منيع في رهطه مثل ابي زمعة" ثم وعظهم في الضحك من الضرطة، فقال:" إلى ما يضحك احدكم مما يفعل؟"، قال: ثم قال:" إلى ما يجلد احدكم امراته جلد العبد، ثم لعله ان يضاجعها من آخر يومه؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا سورة الشمس آية 12 انْبَعَثَ لَهَا رَجُلٌ عَارِمٌ عَزِيزٌ مَنِيعٌ فِي رَهْطِهِ مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ" ثُمَّ وَعَظَهُمْ فِي الضَّحِكِ مِنَ الضَّرْطَةِ، فَقَالَ:" إِلَى مَا يَضْحَكُ أَحَدُكُمْ مِمَّا يَفْعَلُ؟"، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" إِلَى مَا يَجْلِدُ أَحَدُكُمْ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ، ثُمَّ لَعَلَّهُ أَنْ يُضَاجِعَهَا مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ؟".
سیدنا عبداللہ بن زمعہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اذانبعث اشقہا کی تفسیر میں فرمایا کہ ناقۃ اللہ کی ٹانگیں کاٹنے کے لئے ایک موذی آدمی جسے اپنے گروہ میں اہمیت وعزت حاصل تھی روانہ ہوا جیسے ابوزمعہ کی حثییت ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے خروج ریح پر ہنسنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اس کام پر کیوں ہنستے ہو جو خود کرتے ہو پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح کیوں مارتا ہے ہو سکتا ہے کہ دن کے آخری حصے میں اس کے ساتھ ہم بستری بھی کر ے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، قال: حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عبد الله بن زمعة ، قال: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر الناقة، وذكر الذي عقرها، فقال:" إذ انبعث اشقاها سورة الشمس آية 12 انبعث لها رجل عارم عزيز منيع في رهطه مثل ابي زمعة"، ثم ذكر النساء، فوعظهم فيهن، فقال:" علام يجلد احدكم امراته جلد العبد، ولعله يضاجعها من آخر يومه؟"، ثم وعظهم في ضحكهم من الضرطة، فقال" علام يضحك احدكم على ما يفعل؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ النَّاقَةَ، وَذَكَرَ الَّذِي عَقَرَهَا، فَقَالَ:" إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا سورة الشمس آية 12 انْبَعَثَ لَهَا رَجُلٌ عَارِمٌ عَزِيزٌ مَنِيعٌ فِي رَهْطِهِ مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ"، ثُمَّ ذَكَرَ النِّسَاءَ، فَوَعَظَهُمْ فِيهِنَّ، فَقَالَ:" عَلَامَ يَجْلِدُ أَحَدُكُمْ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ، وَلَعَلَّهُ يُضَاجِعُهَا مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ؟"، ثُمَّ وَعَظَهُمْ فِي ضَحِكِهِمْ مِنَ الضَّرْطَةِ، فَقَالَ" عَلَامَ يَضْحَكُ أَحَدُكُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُ؟".
سیدنا عبداللہ بن زمعہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اذانبعث اشقہا کی تفسیر میں فرمایا کہ ناقۃ اللہ کی ٹانگیں کاٹنے کے لئے ایک موذی آدمی جسے اپنے گروہ میں اہمیت وعزت حاصل تھی روانہ ہوا جیسے ابوزمعہ کی حثییت ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے خروج ریح پر ہنسنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اس کام پر کیوں ہنستے ہو جو خود کرتے ہو پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح کیوں مارتا ہے ہو سکتا ہے کہ دن کے آخری حصے میں اس کے ساتھ ہم بستری بھی کر ے۔
سیدنا عبداللہ بن زمعہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواتین کا تذکر ہ کرتے ہوئے سنا اور ان کے متعلق نصیحت کرتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو کس طرح مار لیتا ہے حالانکہ ہو سکتا ہے کہ اسی دن کے آخر یا رات کے آخر میں وہ اس کے ساتھ ہم بستری بھی کر ے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3377 بعد رقم: 3345، م: 2855
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا هشام ، عن حفصة ، عن الرباب الضبية ، عن سلمان بن عامر الضبي ، انه قال:" إذا افطر احدكم فليفطر على تمر، فإن لم يجد، فليفطر على الماء، فإن الماء طهور" قال هشام: وحدثني عاصم الاحول ان حفصة رفعته إلى النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنِ الرَّبَابِ الضَّبِّيَّةِ ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ ، أَنَّهُ قَالَ:" إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ، فَلْيُفْطِرْ عَلَى الْمَاءِ، فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ" قَالَ هِشَامٌ: وَحَدَّثَنِي عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ أَنَّ حَفْصَةَ رَفَعَتْهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا سلمان بن عامر سے موقوفاً مروی ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص روزہ افطار کر ے تو اسے چاہیے کہ کھجور سے روزہ افطار کر ے اگر کھجور نہ ملے تو پھر پانی سے افطار کر لے کیونکہ پانی پاکیزگی بخش ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عاصم ، عن حفصة ، عن الرباب ، عن عمها سلمان بن عامر الضبي ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" فليفطر على تمر، فإن لم يجد، فليفطر على ماء، فإنه طهور". (حديث مرفوع) (حديث موقوف)" ومع الغلام عقيقته، فاميطوا عنه الاذى، واريقوا عنه دما، والصدقة على ذي القرابة ثنتان صدقة وصلة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنِ الرَّبَابِ ، عَنْ عَمِّهَا سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ، فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءٍ، فَإِنَّهُ طَهُورٌ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف)" وَمَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَتُهُ، فَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى، وَأَرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَالصَّدَقَةُ عَلَى ذِي الْقَرَابَةِ ثِنْتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ".
سیدنا سلمان بن عامر سے موقوفاً مروی ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص روزہ افطار کر ے تو اسے چاہیے کہ کھجور سے روزہ افطار کر ے اگر کھجور نہ ملے تو پھر پانی سے افطار کر لے کیونکہ پانی پاکیزگی بخش ہوتا ہے۔ لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ کیا کر و اس سے آلائیشیں وغیرہ دور کر کے اس کی طرف جانور قربان کیا کر و۔ اور قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کرنے کا ثواب دہرا ہے ایک صدقے کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، دون قوله: «فليفطر على تمر فإنه طهور» ، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الرباب
سیدنا سلمان سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسکین پر خرچ کرنا اکہرا صدقہ ہے اور قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کرنے کا ثواب دہرا ہے اور ایک صدقے کا اور دوسراصلہ رحمی کا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناده ضعيف لجهالة الرباب بنت صليع
سیدنا سلمان بن عامر سے موقوفاً مروی ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص روزہ افطار کر ے تو اسے چاہیے کہ کھجور سے روزہ افطار کر ے اگر کھجور نہ ملے تو پھر پانی سے افطار کر لے کیونکہ پانی پاکیزگی بخش ہوتا ہے۔