(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا معمر ، عن عثمان بن زفر ، عن بعض بني رافع بن مكيث، عن رافع بن مكيث وكان ممن شهد الحديبية، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" حسن الخلق نماء، وسوء الخلق شؤم، والبر زيادة في العمر، والصدقة تمنع ميتة السوء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ زُفَرَ ، عَنْ بَعْضِ بَنِي رَافِعِ بْنِ مَكِيثٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ مَكِيثٍ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" حُسْنُ الْخُلُقِ نَمَاءٌ، وَسُوءُ الْخُلُقِ شُؤْمٌ، وَالْبِرُّ زِيَادَةٌ فِي الْعُمُرِ، وَالصَّدَقَةُ تَمْنَعُ مِيتَةَ السَّوْءِ".
سیدنا رافع بن مکیث جو شرکاء احد میں سے ہیں سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حسن خلق ایک ایسی چیز ہے جس میں نشو ونما کی صلاحیت ہے اور بدخلقی نحوست ہے نیکی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور صدقہ بری موت کو ٹالتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام راويه عن رافع بن مكيث، ولجهالة عثمان بن زفر
حسین بن سائب کہتے ہیں کہ جب اللہ نے سیدنا ابولبابہ کی توبہ قبول فرما لی تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! میری توبہ کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ میں اپنی قوم کا گھر چھوڑ کر آپ کے پڑوس میں آ کر بس جاؤں اور اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے لئے وقف کر دوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری طرف سے ایک تہائی بھی کافی ہو گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الحسين بن السائب مجهول، وفي سنده اضطراب
(حديث مرفوع) حدثنا يونس بن محمد ، قال: حدثنا العطاف ، قال: حدثني مجمع بن يعقوب ، عن غلام من اهل قباء، انه ادركه شيخا، انه قال:" جاءنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بقباء، فجلس في فيء الاجم، واجتمع إليه ناس، فاستسقى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسقي، فشرب، وانا عن يمينه، وانا احدث القوم فناولني، فشربت، وحفظت انه صلى بنا يومئذ الصلاة وعليه نعلاه لم ينزعهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُجَمِّعُ بْنُ يَعْقُوبَ ، عَنْ غُلَامٍ مِنْ أَهْلِ قُباءٍ، أَنَّهُ أَدْرَكَهُ شَيْخًا، أَنَّهُ قَالَ:" جَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبَاءٍ، فَجَلَسَ فِي فَيْءِ الْأُجُم، وَاجْتَمَعَ إِلَيْهِ نَاسٌ، فَاسْتَسْقَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسُقِيَ، فَشَرِبَ، وَأَنَا عَنْ يَمِينِهِ، وَأَنَا أَحْدَثُ الْقَوْمِ فَنَاوَلَنِي، فَشَرِبْتُ، وَحَفِظْتُ أَنَّهُ صَلَّى بِنَا يَوْمَئِذٍ الصَّلَاةَ وَعَلَيْهِ نَعْلَاهُ لَمْ يَنْزِعْهُمَا".
اہل قباء کے ایک غلام صحابی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس قبا میں تشریف لائے اور کنکر یوں کے بغیر صحن میں بیٹھ گئے لوگ بھی جمع ہو نے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر نوش فرمایا: میں اس وقت سب سے چھوٹا اور آپ کی دائیں جانب تھا لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پس خوردہ مجھے عطا فرمایا: جسے میں نے پی لیا مجھے یہ بھی یاد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن ہمیں جو نماز پڑھائی تھی اس میں آپ نے جوتے پہن رکھے تھے انہیں اتارا نہیں تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مجمع بن يعقوب إنما رواه عن محمد بن إسماعيل بن مجمع، عن بعض أهله، عن الصحابي من أهل قباء ورواية عنه أى : الصحابي، مبهم
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن ابي وائل ، عن عمرو بن الحارث ، عن زينب امراة عبد الله ، انها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للنساء:" تصدقن ولو من حليكن". قالت: فكان عبد الله خفيف ذات اليد , فقالت له: ايسعني ان اضع صدقتي فيك وفي بني اخي، او بني اخ لي يتامى؟ فقال عبد الله: سلي عن ذلك النبي صلى الله عليه وسلم , قالت: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا على بابه امراة من الانصار، يقال لها: زينب، تسال عما اسال عنه، فخرج إلينا بلال، فقلنا: انطلق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسله عن ذلك، ولا تخبر من نحن , فانطلق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" من هما؟" , فقال: زينب , فقال:" اي الزيانب؟" , فقال: زينب امراة عبد الله، وزينب الانصارية، فقال:" نعم، لهما اجران: اجر القرابة، واجر الصدقة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنِّسَاءِ:" تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ". قَالَتْ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ خَفِيفَ ذَاتِ الْيَدِ , فَقَالَتْ لَهُ: أَيَسَعُنِي أَنْ أَضَعَ صَدَقَتِي فِيكَ وَفِي بَنِي أَخِي، أَوْ بَنِي أَخٍ لِي يَتَامَى؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَلِي عَنْ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا عَلَى بَابِهِ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهَا: زَيْنَبُ، تَسْأَلُ عَمَّا أَسْأَلُ عَنْهُ، فَخَرَجَ إِلَيْنَا بِلَالٌ، فَقُلْنَا: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلْهُ عَنْ ذَلِكَ، وَلَا تُخْبِرْ مَنْ نَحْنُ , فَانْطَلَقَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَنْ هُمَا؟" , فَقَالَ: زَيْنَبُ , فَقَالَ:" أَيُّ الزَّيَانِبِ؟" , فَقَالَ: زَيْنَبُ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ، وَزَيْنَبُ الْأَنْصَارِيَّةُ، فَقَالَ:" نَعَمْ، لَهُمَا أَجْرَانِ: أَجْرُ الْقَرَابَةِ، وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ".
سیدنا زینب سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدقہ خیرات کیا کر و اگرچہ اپنے زیوارت ہی سے کر و وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر عبداللہ بن مسعود ہلکے ہاتھ والے مالی طور پر کمزور تھے میں نے ان سے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں تم پر اور اپنے یتیم بھتیجوں پر صدقہ کر دیا کر وں انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لو چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے دروازے پر ایک اور انصاری عورت جس کا نام بھی زینب ہی تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی مسئلہ پوچھنے کے لئے آئی ہوئی تھی۔ سیدنا بلال باہر آئے تو ہم نے ان سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھ کر آؤ اور یہ نہ بتانا کہ ہم کون ہیں چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ دونوں کون ہیں انہوں نے بتادیا کہ دونوں کا نام زینب ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کون سی زینب انہوں نے بتایا کہ ایک تو عبداللہ بن مسعود کی بیوی اور دوسری زینب انصاریہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں دونوں کو اجرملے گا اور دوہرا اجر ملے گا ایک اجر قرابت داری کا اور ایک صدقہ کرنے کا۔
سیدنا رائط جو کاریگر خاتون تھیں اور تجارت کر تی تھیں اور اللہ کے راستہ میں صدقہ بھی کر تی تھیں نے ایک دن اپنے شوہر سیدنا عبداللہ سے کہا تم نے اور تمہارے بچوں نے مجھے دوسروں پر صدقہ کرنے سے روک رکھا ہے اور میں تمہاری موجودگی میں دوسروں پر کچھ صدقہ نہیں کر پاتی سیدنا عبداللہ نے ان سے فرمایا: واللہ اگر اس میں تمہارے لئے کوئی ثواب نہ ہو تو میں اسے پسند نہیں کر وں گا چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں کاریگر عورت ہوں تجارت کر تی ہوں اس کے علاوہ میرا اور میرے شوہر اور بچوں کا گزارے کے لئے کوئی دوسراذریعہ بھی نہیں ہے تو ان لوگوں نے مجھے صدقہ سے روک رکھا ہے اور میں ان کی موجودگی میں کچھ صدقہ نہیں کر پاتی میں ان پر جو کچھ خرچ کر تی ہوں کیا مجھے اس پر کوئی ثواب ملے گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرچ کر تی رہو کیونکہ تم ان پر جو بھی خرچ کر و گی تمہیں اس کا ثواب ضرور ملے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، عن رائطة امراة عبد الله بن مسعود وام ولده وكانت امراة صناع اليد، قال: فكانت تنفق عليه وعلى ولده من صنعتها، قالت: فقلت لعبد الله بن مسعود: لقد شغلتني انت وولدك عن الصدقة، فما استطيع ان اتصدق معكم بشيء , فقال لها عبد الله: والله ما احب إن لم يكن في ذلك اجر ان تفعلي , فاتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إني امراة ذات صنعة ابيع منها، وليس لي ولا لولدي ولا لزوجي نفقة غيرها، وقد شغلوني عن الصدقة، فما استطيع ان اتصدق بشيء، فهل لي من اجر فيما انفقت؟ قال: فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انفقي عليهم، فإن لك في ذلك اجر ما انفقت عليهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ رَائِطَةَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأُمِّ وَلَدِهِ وَكَانَتْ امْرَأَةً صَنَاعَ الْيَدِ، قَالَ: فَكَانَتْ تُنْفِقُ عَلَيْهِ وَعَلَى وَلَدِهِ مِنْ صَنْعَتِهَا، قَالَتْ: فَقُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: لَقَدْ شَغَلْتَنِي أَنْتَ وَوَلَدُكَ عَنِ الصَّدَقَةِ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَتَصَدَّقَ مَعَكُمْ بِشَيْءٍ , فَقَالَ لَهَا عَبْدُ اللَّهِ: وَاللَّهِ مَا أُحِبُّ إِنْ لَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ أَجْرٌ أَنْ تَفْعَلِي , فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ ذَاتُ صَنْعَةٍ أَبِيعُ مِنْهَا، وَلَيْسَ لِي وَلَا لِوَلَدِي وَلَا لِزَوْجِي نَفَقَةٌ غَيْرَهَا، وَقَدْ شَغَلُونِي عَنِ الصَّدَقَةِ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِشَيْءٍ، فَهَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ فِيمَا أَنْفَقْتُ؟ قَالَ: فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْفِقِي عَلَيْهِمْ، فَإِنَّ لَكِ فِي ذَلِكَ أَجْرَ مَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ".
سیدنا رائط جو کاریگر خاتون تھیں اور تجارت کر تی تھیں اور اللہ کے راستہ میں صدقہ بھی کر تی تھیں نے ایک دن اپنے شوہر سیدنا عبداللہ سے کہا تم نے اور تمہارے بچوں نے مجھے دوسروں پر صدقہ کرنے سے روک رکھا ہے اور میں تمہاری موجودگی میں دوسروں پر کچھ صدقہ نہیں کر پاتی سیدنا عبداللہ نے ان سے فرمایا: واللہ اگر اس میں تمہارے لئے کوئی ثواب نہ ہو تو میں اسے پسند نہیں کر وں گا چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں کاریگر عورت ہوں تجارت کر تی ہوں اس کے علاوہ میرا اور میرے شوہر اور بچوں کا گزارے کے لئے کوئی دوسراذریعہ بھی نہیں ہے تو ان لوگوں نے مجھے صدقہ سے روک رکھا ہے اور میں ان کی موجودگی میں کچھ صدقہ نہیں کر پاتی میں ان پر جو کچھ خرچ کر تی ہوں کیا مجھے اس پر کوئی ثواب ملے گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرچ کر تی رہو کیونکہ تم ان پر جو بھی خرچ کر و گی تمہیں اس کا ثواب ضرور ملے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن فضيل ، عن يزيد ، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص ، عن امه ، قالت: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يرمي جمرة العقبة من بطن الوادي يوم النحر، وهو يقول:" يا ايها الناس، لا يقتل بعضكم بعضا، ولا يصيب بعضكم، وإذا رميتم الجمرة فارموها بمثل حصى الخذف" , فرمى بسبع، ولم يقف، وخلفه رجل يستره، قلت: من هذا؟ قالوا: الفضل بن العباس.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ ، عَنْ أُمِّهِ ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي يَوْمَ النَّحْرِ، وَهُوَ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَا يَقْتُلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَلَا يُصِيبُ بَعْضُكُمْ، وَإِذَا رَمَيْتُمْ الْجَمْرَةَ فَارْمُوهَا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ" , فَرَمَى بِسَبْعٍ، وَلَمْ يَقِفْ، وَخَلْفَهُ رَجُلٌ يَسْتُرُهُ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ.
سیدنا ام سلیمان بن احوص سے مروی ہے کہ میں نے دس ذی الحجہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطن وادی سے جمرہ عقبہ کو کنکر یاں مارتے ہوئے دیکھا اس وقت آپ فرما رہے تھے کہ اے لوگوں ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا، ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچانا اور جب جمرات کی رمی کر و تو اسے کے لئے ٹھیکر ی کی کنکر یاں استعمال کر و پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سات کنکر یاں ماریں اور وہاں رکے نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک آدمی تھا جو آپ کے لئے آڑ کا کام کرتا تھا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو لوگوں نے بتایا کہ یہ فضل بن عباس ہیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد، ولجهالة حال سليمان
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، قال اخبرنا معمر ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص ، عن امه وكانت بايعت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: سمعت رسول الله يقول وهو يرمي الجمرة من بطن الوادي، وهو يقول:" يا ايها الناس، لا يقتل بعضكم بعضا، وإذا رميتم الجمرة فارموها بمثل حصى الخذف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ ، عَنْ أُمِّهِ وَكَانَتْ بَايَعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ وَهُوَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، وَهُوَ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَا يَقْتُلْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَإِذَا رَمَيْتُمْ الْجَمْرَةَ فَارْمُوهَا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ".
سیدنا ام سلیمان سے مروی ہے کہ میں نے دس ذی الحجہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطن وادی سے جمرہ عقبہ کو کنکر یاں مارتے ہوئے دیکھا اس وقت آپ فرما رہے تھے کہ اے لوگو ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا اور جب جمرات کی رمی کر و تو اس کے لئے ٹھیکر ی کی کنکر یاں استعمال کر و۔