سیدنا عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے لئے جھکتے ہوئے اور سر اٹھاتے ہوئے مکمل تکبیر نہیں کہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف، أعله الأئمة لنكارته، فقد تفرد به الحسن بن عمران، وهو مجهول وقد اضطرب فى تعيين شيخه
سیدنا ابن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھ کر دعاء کرتے تو داہنا ہاتھ ران پر رکھتے اور دعاء کرتے وقت اپنی انگلی سے اشارہ فرماتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال أبى سعيد الخزاعي، وقد اختلف فى كنيته
(حديث مرفوع) حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا ضمرة ، عن ابن شوذب ، عن عبد الله بن القاسم , قال: جلسنا إلى عبد الرحمن بن ابزى ، فقال: الا اريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: فقلنا: بلى، قال:" فقام فكبر، ثم قرا، ثم ركع، فوضع يديه على ركبتيه حتى اخذ كل عضو ماخذه، ثم رفع حتى اخذ كل عضو ماخذه، ثم سجد حتى اخذ كل عضو ماخذه، ثم رفع حتى اخذ كل عظم ماخذه، ثم سجد حتى اخذ كل عظم ماخذه، ثم رفع، فصنع في الركعة الثانية كما صنع في الركعة الاولى، ثم قال: هكذا صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ ، عَنِ ابْنِ شَوْذَبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقَاسِمِ , قَالَ: جَلَسْنَا إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، فَقَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَقُلْنَا: بَلَى، قَالَ:" فَقَامَ فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ حَتَّى أَخَذَ كُلُّ عُضْوٍ مَأْخَذَهُ، ثُمَّ رَفَعَ حَتَّى أَخَذَ كُلُّ عُضْوٍ مَأْخَذَهُ، ثُمَّ سَجَدَ حَتَّى أَخَذَ كُلُّ عُضْوٍ مَأْخَذَهُ، ثُمَّ رَفَعَ حَتَّى أَخَذَ كُلُّ عَظْمٍ مَأْخَذَهُ، ثُمَّ سَجَدَ حَتَّى أَخَذَ كُلُّ عَظْمٍ مَأْخَذَهُ، ثُمَّ رَفَعَ، فَصَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ كَمَا صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
قاسم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا عبدالرحمن بن ابزی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ کہنے لگے کہ کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں ہم نے کہا کیوں نہیں چنانچہ انہوں نے کھڑے ہو کر تکبیر کہی قرأت کی پھر رکوع کیا اور دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے اپنے مقام پر ٹھہر گئی پھر سر اٹھایا اور اتنی دیر کھڑے رہے کہ ہر عضو اپنی جگہ جم گیا اسی طرح دونوں سجدے کئے اور ان کے درمیان بیٹھے اور کھڑے ہو کر دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھی اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نماز پڑھتے تھے۔
سیدنا نافع سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ بات انسان کی سعادت مندی کی علامت ہے کہ اسے نیک پڑوسی سبک رفتار سواری اور کشادہ مکان میسر ہو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا سند حسن فى الشواهد من أجل خميل
حدثنا ابو نعيم: حدثنا سفيان عن حبيب، عن حميل، عن نافع بن عبد الحارث قال: قال رسول الله، فذكر مثلهحَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ حُمَيْلٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عَبْدِ الْحَارِثِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا سند حسن فى الشواهد من أجل خميل
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا محمد بن عمرو ، عن ابي سلمة ، قال: قال: نافع بن عبد الحارث ، خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى دخل حائطا، فقال لي:" امسك علي الباب"، فجاء حتى جلس على القف، ودلى رجليه في البئر، فضرب الباب، قلت من هذا؟ قال: ابو بكر، قلت: يا رسول الله، هذا ابو بكر، قال:" ائذن له وبشره بالجنة"، قال: فاذنت له وبشرته بالجنة، قال: فدخل فجلس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على القف، ودلى رجليه في البئر، ثم ضرب الباب، فقلت: من هذا؟ فقال: عمر، فقلت: يا رسول الله , هذا عمر، قال:" ائذن له وبشره بالجنة"، قال: فاذنت له وبشرته بالجنة، قال: فدخل فجلس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على القف ودلى رجليه في البئر، ثم ضرب الباب، فقلت: من هذا؟ قال: عثمان , فقلت: يا رسول الله، هذا عثمان، قال:" ائذن له وبشره بالجنة، معها بلاء"، فاذنت له وبشرته بالجنة، فجلس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على القف، ودلى رجليه في البئر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: قَالَ: نَافِعُ بْنُ عَبْدِ الْحَارِثِ ، خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دَخَلَ حَائِطًا، فَقَالَ لِي:" أَمْسِكْ عَلَيَّ الْبَابَ"، فَجَاءَ حَتَّى جَلَسَ عَلَى الْقُفِّ، وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ، فَضُرِبَ الْبَابُ، قُلْتُ مَنْ هَذَا؟ قَالَ: أَبُو بَكْرٍ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، قَالَ: فَأَذِنْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْقُفِّ، وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ، ثُمَّ ضُرِبَ الْبَابُ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: عُمَرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا عُمَرُ، قَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، قَالَ: فَأَذِنْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْقُفِّ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ، ثُمَّ ضُرِبَ الْبَابُ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: عُثْمَانُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا عُثْمَانُ، قَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، مَعَهَا بَلَاءٌ"، فَأَذِنْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْقُفِّ، وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ.
سیدنا نافع سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھ سے فرمایا کہ دروازے پر رکو بلا اجازت کسی کو اندر نہ آنے دینا پھر آپ کنویں کے منڈیر پر بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا لئے اتنی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی میں نے پوچھا: کون ہے؟ جواب آیا ابوبکر ہوں میں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! ابوبکر آئے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی خوش خبری بھی سنادو چنانچہ میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دیدی اور جنت کی خوش خبری بھی سنادی وہ اندر داخل ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کنویں کی منڈیر پر بیٹھ کر پاؤں کنویں میں لٹکا لئے۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی میں نے پوچھا: کون ہے؟ جواب آیا عمر ہوں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ عمر ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اندر آنے دو اور جنت کی بشارت بھی دیدو چنانچہ میں نے انہیں بھی اندر آنے کی اجازت دیدی اور جنت کی خوش خبری سنائی وہ اندر داخل ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کنویں کی منڈیر پر بیٹھ کر پاؤں کنویں میں لٹکالیے۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر پھر دستک ہوئی میں نے پوچھا کہ کون ہے جواب آیا عثمان ہوں میں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ عثمان آئے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں اندر آنے کی اجازت دیدو اور ایک مصیبت کے ساتھ جنت کی خوش خبری سنادو چنانچہ میں نے انہیں بھی اجازت دیدی اور جنت کی خوش خبری بھی سنادی وہ بھی اندر داخل ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کنویں کی منڈیر پر بیٹھ کر پاؤں کنویں میں لٹکالیے۔
حكم دارالسلام: لم يذكر سماع ابي سلمة بن نافع بن عبدالحارث، ومحمد بن عمرو تكلم فيه بعضهم من قبل حفظه، وقد وهم فيه، وروي عنه أيضا أن الذى كان بأذن هو بلال بن رباح، وخولف فيه كذلك
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثني موسى بن عقبة ، قال: سمعت ابا سلمة يحدث، ولا اعلمه إلا عن نافع بن عبد الحارث ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: دخل حائطا من حوائط المدينة، فجلس على قف البئر، فجاء ابو بكر يستاذن، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة"، ثم جاء عمر يستاذن، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة"، ثم جاء عثمان يستاذن، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة، وسيلقى بلاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ يُحَدِّثُ، وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ نَافِعِ بْنِ عَبْدِ الْحَارِثِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَخَلَ حَائِطًا مِنْ حَوَائِطِ الْمَدِينَةِ، فَجَلَسَ عَلَى قُفِّ الْبِئْرِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، وَسَيَلْقَى بَلَاءً".
سیدنا نافع سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا لئے اتنی دیر میں سیدنا ابوبکر نے آ کر اجازت طلب کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی خوش خبری سنادو۔ تھوڑی دیر بعد سیدنا عمر نے آ کر اجازت طلب کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اندر آنے کی اجازت دیدو اور جنت کی بشارت بھی دیدو۔ تھوڑی دیر بعد سیدنا عثمان نے آ کر اجازت طلب کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اندر آنے کی اجازت دے دو اور ایک مصیبت کے ساتھ جنت کی خوش خبری سنادو۔
حكم دارالسلام: أبو سلمة لم يذكر له سماع من نافع بن عبدالحارث
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرني ابن جريج ، حدثني عثمان بن السائب مولاهم ، عن ابيه السائب مولى ابي محذورة، وعن ام عبد الملك بن ابي محذورة ، انهما سمعاه من ابي محذورة , قال ابو محذورة : خرجت في عشرة فتيان مع النبي صلى الله عليه وسلم، وهو ابغض الناس إلينا , فاذنوا، فقمنا نؤذن نستهزئ بهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ائتوني بهؤلاء الفتيان"، فقال:" اذنوا" , فاذنوا، فكنت احدهم , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" نعم هذا الذي سمعت صوته، اذهب فاذن لاهل مكة، فمسح على ناصيته، وقال:" قل الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله مرتين، واشهد ان محمدا رسول الله مرتين، ثم ارجع فاشهد ان لا إله إلا الله مرتين، واشهد ان محمدا رسول الله مرتين، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح مرتين، الله اكبر الله اكبر لا إله إلا الله، وإذا اذنت بالاول من الصبح، فقل: الصلاة خير من النوم، الصلاة خير من النوم، وإذا اقمت فقلها مرتين، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، اسمعت؟" , قال: وكان ابو محذورة لا يجز ناصيته، ولا يفرقها، لان رسول الله صلى الله عليه وسلم مسح عليها , حدثنا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج ، قال: اخبرني عثمان بن السائب ، عن ام عبد الملك بن ابي محذورة ، عن ابي محذورة , قال: لما رجع النبي صلى الله عليه وسلم إلى حنين، خرجت عاشر عشرة، فذكر الحديث , إلا انه قال:" الله اكبر الله اكبر" مرتين فقط، وقال روح: ايضا مرتين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ السَّائِبِ مَوْلَاهُمْ ، عَنْ أَبِيهِ السَّائِبِ مَوْلَى أَبِي مَحْذُورَةَ، وَعَنْ أُمِّ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ ، أَنَّهُمَا سَمِعَاهُ مِنْ أَبِي مَحْذُورَةَ , قَالَ أَبُو مَحْذُورَةَ : خَرَجْتُ فِي عَشَرَةِ فِتْيَانٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَيْنَا , فَأَذَّنُوا، فَقُمْنَا نُؤَذِّنُ نَسْتَهْزِئُ بِهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ائْتُونِي بِهَؤُلَاءِ الْفِتْيَانِ"، فَقَالَ:" أَذِّنُوا" , فَأَذَّنُوا، فَكُنْتُ أَحَدَهُمْ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ هَذَا الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ، اذْهَبْ فَأَذِّنْ لِأَهْلِ مَكَّةَ، فَمَسَحَ عَلَى نَاصِيَتِهِ، وَقَالَ:" قُلْ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مَرَّتَيْنِ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ ارْجِعْ فَاشْهَدْ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مَرَّتَيْنِ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ مَرَّتَيْنِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ مَرَّتَيْنِ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَإِذَا أَذَّنْتَ بِالْأَوَّلِ مِنَ الصُّبْحِ، فَقُلْ: الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، وَإِذَا أَقَمْتَ فَقُلْهَا مَرَّتَيْنِ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، أَسَمِعْتَ؟" , قَالَ: وَكَانَ أَبُو مَحْذُورَةَ لَا يَجُزُّ نَاصِيَتَهُ، وَلَا يُفَرِّقُهَا، لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَيْهَا , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أُمِّ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ ، عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ , قَالَ: لَمَّا رَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى حُنَيْنٍ، خَرَجْتُ عَاشِرَ عَشَرَةٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ , إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ" مَرَّتَيْنِ فَقَطْ، وقَالَ رَوْحٌ: أَيْضًا مَرَّتَيْنِ.
سیدنا ابومحذورہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں دس نوجوانوں کے ساتھ نکلا اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ساتھ تھے لیکن وہ تمام لوگوں میں ہمیں سب سے زیادہ مبغوض تھے کیونکہ ہم نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا مسلمانوں نے اذان دی تو ہم لوگ بھی کھڑے ہو کر ان کی نقل اتار کر ان کا مذاق اڑانے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان نوجوانوں کو پکڑ کر میرے پاس لاؤ اور ہم سے فرمایا کہ کہ اب اذان دو چنانچہ سب نے اذان دی ان میں میں بھی شامل تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آواز سن کر فرمایا کہ اس کی آواز کتنی اچھی ہے تم جاؤ اور اہل مکہ کے لئے اذان دو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پیشانی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا کہ چار مرتبہ اللہ اکبر کہو دو مرتبہ اشہد ان لا الہ الا اللہ کہنادومرتبہ اشہد ان محمد رسول اللہ کہنا دو دو مرتبہ حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کہنا پھر دو مرتبہ اللہ اکبر کہنا اور پھر لا الہ الا اللہ کہنا اور جب صبح کی اذان دینا تو دو مرتبہ الصلوۃ خیرالنوم کہنا اور جب اقامت کہو تو دو مرتبہ قدقامت الصلوۃ کہنا سنایا نہیں مروی ہے کہ اس واقعے کے بعد سے سیدنا ابومحذورہ نے کبھی اپنی پیشانی کے بال نہیں کاٹے اور نہ ہی مانگ نکالی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پر ہاتھ پھیرا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه، وهذا إسناد ضعيف مسلسل بالمجاهيل
حدثنا محمد بن بكر: (۱) اخبرنا ابن جريج، قال: اخبرني عثمان بن السائب عن ام عبد الملك بن ابي محذورة، عن ابي محذورة قال: لما رجع النبي ﷺ إلى حنين، خرجت عاشر عشرة: فذكر الحديث إلا انه قال: «الله اكبر الله اكبر مرتين قط (۲). و قال روح ايضا مرتينحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ: (۱) أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ أُمِّ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ قَالَ: لَمَّا رَجَعَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَى حُنَيْنٍ، خَرَجْتُ عَاشِرَ عَشَرَةٍ: فَذَكَرَ الْحَدِيثَ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: «اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ مَرَّتَيْنِ قَطٍ (۲). وَ قَالَ رَوْحٌ أَيْضًا مَرَّتَيْنِ
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه، وهذا إسناد ضعيف مسلسل بالمجاهيل
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن ابي جعفر ، قال عبد الرحمن: ليس هو الفراء، عن ابي سلمان ، عن ابي محذورة , قال:" كنت اؤذن في زمن النبي صلى الله عليه وسلم في صلاة الصبح، فإذا قلت: حي على الفلاح، قلت: الصلاة خير من النوم , الصلاة خير من النوم، الاذان الاول".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: لَيْسَ هُوَ الْفَرَّاءَ، عَنْ أَبِي سَلْمَانَ ، عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ , قَالَ:" كُنْتُ أُؤَذِّنُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ، فَإِذَا قُلْتُ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قُلْتُ: الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ , الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الْأَذَانُ الْأَوَّلُ".
سیدنا ابومحذورہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں فجر کی اذان دیا کرتا تھا جب حی الفلاح کہہ چکتا تو دو مرتبہ اذان میں الصلوۃ خیرمن النوم کہتا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى سلمان