سیدنا نعیم بن مسعود سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیلمہ کذاب کا خط پڑھا تو اسے لانے والے دونوں قاصدوں سے پوچھا کہ تم کس دین پر ہواور کیا کہتے ہوانہوں نے کہا ہم بھی وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ کہتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قاصدوں کو قتل کرنا اچھی بات ہو تی ہے تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشاهده، إسحاق بن إبراهيم فيه نظر، لكنه توبع، وسلمة بن الفضل ضعيف لكنه قوي فى المغازي، وقد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن يحيى بن سعيد الانصاري ، قال: حدثني بشير بن يسار ، عن سويد بن النعمان ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نزل بالصهباء عام خيبر، فلما صلى العصر دعا بالاطعمة، فلم يؤت إلا بسويق". قال: فلكنا يعني اكلنا منه فلما كانت المغرب تمضمض، وتمضمضنا معه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ النُّعْمَانِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَزَلَ بِالصَّهْبَاءِ عَامَ خَيْبَرَ، فَلَمَّا صَلَّى الْعَصْرَ دَعَا بِالْأَطْعِمَةِ، فَلَمْ يُؤْتَ إِلَّا بِسَوِيقٍ". قَالَ: فَلُكْنَا يَعْنِي أَكَلْنَا مِنْهُ فَلَمَّا كَانَتْ الْمَغْرِبُ تَمَضْمَضَ، وَتَمَضْمَضْنَا مَعَهُ.
سیدنا سوید بن نعمان سے مروی ہے کہ فتح خیبر کے سال ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے جب ہم لوگ مقام صہباء میں پہنچے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھا چکے تو کھانا منگوایا تو کھانے میں صرف ستو ہی پیش کئے گئے لوگوں نے وہی پھانک لئے اور اس کے اوپر پانی پی لیا۔ پھر پانی سے کلی کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر انہیں نماز پڑھائی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، قال: حدثنا موسى بن عقبة ، قال: حدثني ابو سلمة بن عبد الرحمن ، عن الاقرع بن حابس ، انه نادى رسول الله صلى الله عليه وسلم من وراء الحجرات، فقال: يا رسول الله , فلم يجبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، الا إن حمدي زين، وإن ذمي شين , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم كما حدث ابو سلمة:" ذاك الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ ، أَنَّهُ نَادَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَلَمْ يُجِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا إِنَّ حَمْدِي زَيْنٌ، وَإِنَّ ذَمِّي شَيْنٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا حَدَّثَ أَبُو سَلَمَةَ:" ذَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا اقرع بن حابس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجروں کے باہر سے پکار کر آواز دی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوئی جواب نہ دیا انہوں نے پھر یا رسول اللہ! کہہ کر آواز لگائی اور کہا کہ میری تعریف باعث زینت اور میری مذمت باعث عیب و شرمندگی ہو تی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کام تو صرف اللہ کا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو سلمة بن عبدالرحمن لم يثبت سماعه من الأقرع بن حابس
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عامر عبد الملك بن عمرو ، قال: حدثنا المغيرة بن عبد الرحمن ، عن ابي الزناد ، قال: حدثني المرقع بن صيفي ، عن جده رباح بن الربيع اخي حنظلة الكاتب انه اخبره، انه خرج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غزاها، وعلى مقدمته خالد بن الوليد، فمر رباح واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم على امراة مقتولة، مما اصابت المقدمة، فوقفوا ينظرون إليها، ويتعجبون من خلقها، حتى لحقهم رسول الله صلى الله عليه وسلم على راحلته، فانفرجوا عنها، فوقف عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما كانت هذه لتقاتل"، فقال لاحدهم:" الحق خالدا فقل له: لا تقتلوا ذرية ولا عسيفا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُرَقِّعُ بْنُ صَيْفِيٍّ ، عَنْ جَدِّهِ رَبَاحِ بْنِ الرَّبِيعِ أَخِي حَنْظَلَةَ الْكَاتِبِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا، وَعَلَى مُقَدِّمَتِهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَمَرَّ رَبَاحٌ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مَقْتُولَةٍ، مِمَّا أَصَابَتْ الْمُقَدِّمَةُ، فَوَقَفُوا يَنْظُرُونَ إِلَيْهَا، وَيَتَعَجَّبُونَ مِنْ خَلْقِهَا، حَتَّى لَحِقَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَانْفَرَجُوا عَنْهَا، فَوَقَفَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُقَاتِلَ"، فَقَالَ لِأَحَدِهِمْ:" الْحَقْ خَالِدًا فَقُلْ لَهُ: لَا تَقْتُلُوا ذُرِّيَّةً وَلَا عَسِيفًا".
سیدنا رباح بن ربیع سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے کے لئے روانہ ہوئے اس کے مقدمۃ الجیش پر سیدنا خالد بن ولید مامور تھے اسی دوران مقدمہ الجیش کے ہاتھوں مرنے والی ایک عورت پر صحابہ کرام کا گزرا ہو تو وہ رک گئے اور اسے دیکھ کر اس کی خوبصورتی پر تعجب کرنے لگے اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی سواری پر سوار وہاں پہنچ گئے لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے راستہ چھوڑ دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی لاش کے پاس پہنچ کر رک گئے اور فرمایا: یہ تو لڑائی میں شریک نہیں ہوئی ہو گی پھر ایک صحابی سے فرمایا کہ خالد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ بچوں اور مزدوروں کو قتل نہ کر یں ۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا الحكم بن فضيل ، حدثنا يعلى بن عطاء ، عن عبيد بن جبير ، عن ابي مويهبة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: امر رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يصلي على اهل البقيع، فصلى عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة ثلاث مرات، فلما كانت ليلة الثانية، قال:" يا ابا مويهبة، اسرج لي دابتي" , قال: فركب، ومشيت حتى انتهى إليهم، فنزل عن دابته، وامسكت الدابة، ووقف عليهم او قال: قام عليهم , فقال:" ليهنكم ما انتم فيه مما فيه الناس، اتت الفتن كقطع الليل يركب بعضها بعضا، الآخرة اشد من الاولى، فليهنكم ما انتم فيه"، ثم رجع فقال:" يا ابا مويهبة، إني اعطيت او قال: خيرت مفاتيح ما يفتح على امتي من بعدي والجنة، او لقاء ربي" , فقلت: بابي وامي يا رسول الله، فاخبرني , قال:" لان ترد على عقبها ما شاء الله، فاخترت لقاء ربي عز وجل" , فما لبث بعد ذلك إلا سبعا او ثمانيا حتى قبض صلى الله عليه وسلم. وقال ابو النضر مرة: ترد على عقبيها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِي مُوَيْهِبَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى أَهْلِ الْبَقِيعِ، فَصَلَّى عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الثَّانِيَةِ، قَالَ:" يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ، أَسْرِجْ لِي دَابَّتِي" , قَالَ: فَرَكِبَ، وَمَشَيْتُ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِمْ، فَنَزَلَ عَنْ دَابَّتِهِ، وَأَمْسَكَتْ الدَّابَّةُ، وَوَقَفَ عَلَيْهِمْ أَوْ قَالَ: قَامَ عَلَيْهِمْ , فَقَالَ:" لِيَهْنِكُمْ مَا أَنْتُمْ فِيهِ مِمَّا فِيهِ النَّاسُ، أَتَتْ الْفِتَنُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ يَرْكَبُ بَعْضُهَا بَعْضًا، الْآخِرَةُ أَشَدُّ مِنَ الْأُولَى، فَلْيَهْنِكُمْ مَا أَنْتُمْ فِيهِ"، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ:" يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ، إِنِّي أُعْطِيتُ أَوْ قَالَ: خُيِّرْتُ مَفَاتِيحَ مَا يُفْتَحُ عَلَى أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي وَالْجَنَّةَ، أَوْ لِقَاءَ رَبِّي" , فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَخْبِرْنِي , قَالَ:" لَأَنْ تُرَدَّ عَلَى عَقِبِهَا مَا شَاءَ اللَّهُ، فَاخْتَرْتُ لِقَاءَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ" , فَمَا لَبِثَ بَعْدَ ذَلِكَ إِلَّا سَبْعًا أَوْ ثَمَانِيًا حَتَّى قُبِضَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ مَرَّةً: تُرَدُّ عَلَى عَقِبَيْهَا.
سیدنا ابومویھبہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کر دہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ملا کہ اہل بقیع کے لئے دعا کر یں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات میں ان کے لئے تین مرتبہ دعا کی دوسری رات ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابومویھبہ میرے لئے سواری پر زین کس دو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور میں پیدل چلا یہاں تک کہ ہم جنت البقیع پہنچ گئے وہاں پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترگئے میں نے سواری کی رسی تھام لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبروں پر جا کر کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے کہ لوگوں کے حالات سے نکل کر تم جن نعمتوں میں ہو وہ تمہیں مبارک ہوں رات کے مختلف سیاہ حصوں کی طرح فتنے اتر رہے ہیں جو یکے بعد دیگرے آتے جارہے ہیں اور ہر بعد والا پہلے والے سے زیادہ سخت ہے اس لئے تم جن نعمتوں میں ہواس پر تمہیں مبارک ہو۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے اور فرمایا: مجھے اس بات کا اختیار دیا گیا ہے میرے بعد میری امت جو فتوحات حاصل کر ے گی مجھے ان کی چابیاں اور جنت دیدی جائے یا اپنے رب سے ملاقات کر وں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ہمیں بھی اپنی ترجیح کے بارے بتائیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد امت وہی کر ے گی جو اللہ کو منظور ہو گا اس لئے میں نے اپنے رب سے ملاقات کو ترجیح دی لی ہے چنانچہ اس واقعے کی سات یا آٹھ دن بعد ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبيد بن جبير، والحكم بن فضيل مختلف فيه، ولقصة تخييره ﷺ بين الدنيا و بين ما عندالله أصل من حديث صحيح
(حديث مرفوع) حدثني يعقوب ، قال: حدثني ابي ، قال: عن محمد بن إسحاق ، قال: حدثني عبد الله بن عمر العبلي ، قال: حدثني عبيد بن جبير مولى الحكم بن ابي العاص، عن عبد الله بن عمرو ، عن ابي مويهبة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم من جوف الليل , فقال:" يا ابا مويهبة، إني قد امرت ان استغفر لاهل البقيع، فانطلق معي" , فانطلقت معه، فلما وقف بين اظهرهم، قال:" السلام عليكم يا اهل المقابر، ليهن لكم ما اصبحتم فيه مما اصبح فيه الناس، لو تعلمون ما نجاكم الله منه، اقبلت الفتن كقطع الليل المظلم يتبع اولها آخرها، الآخرة شر من الاولى" , قال: ثم اقبل علي، فقال:" يا ابا مويهبة، إني قد اوتيت مفاتيح خزائن الدنيا والخلد فيها ثم الجنة، وخيرت بين ذلك وبين لقاء ربي عز وجل والجنة" , قال: قلت: بابي وامي فخذ مفاتيح الدنيا والخلد فيها، ثم الجنة , قال:" لا والله يا ابا مويهبة، لقد اخترت لقاء ربي عز وجل والجنة" , ثم استغفر لاهل البقيع، ثم انصرف، فبدئ رسول الله صلى الله عليه وسلم في وجعه الذي قضاه الله عز وجل فيه حين اصبح.(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْعَبْلِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ جُبَيْرٍ مَوْلَى الْحَكَمِ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي مُوَيْهِبَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ , فَقَالَ:" يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ، إِنِّي قَدْ أُمِرْتُ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ، فَانْطَلِقْ مَعِي" , فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا وَقَفَ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ، قَالَ:" السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْمَقَابِرِ، لِيَهْنِ لَكُمْ مَا أَصْبَحْتُمْ فِيهِ مِمَّا أَصْبَحَ فِيهِ النَّاسُ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا نَجَّاكُمْ اللَّهُ مِنْهُ، أَقْبَلَتْ الْفِتَنُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يَتْبَعُ أَوَّلُهَا آخِرَهَا، الْآخِرَةُ شَرٌّ مِنَ الْأُولَى" , قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ:" يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ، إِنِّي قَدْ أُوتِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الدُّنْيَا وَالْخُلْدَ فِيهَا ثُمَّ الْجَنَّةَ، وَخُيِّرْتُ بَيْنَ ذَلِكَ وَبَيْنَ لِقَاءِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ وَالْجَنَّةِ" , قَالَ: قُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي فَخُذْ مَفَاتِيحَ الدُّنْيَا وَالْخُلْدَ فِيهَا، ثُمَّ الْجَنَّةَ , قَالَ:" لَا وَاللَّهِ يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ، لَقَدْ اخْتَرْتُ لِقَاءَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ وَالْجَنَّةَ" , ثُمَّ اسْتَغْفَرَ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَبُدِئَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي قَضَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ حِينَ أَصْبَحَ.
سیدنا ابومویھبہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کر دہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ملا کہ اہل بقیع کے لئے دعا کر یں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات میں ان کے لئے تین مرتبہ دعا کی دوسری رات ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابومویھبہ میرے لئے سواری پر زین کس دو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور میں پیدل چلا یہاں تک کہ ہم جنت البقیع پہنچ گئے وہاں پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترگئے میں نے سواری کی رسی تھام لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبروں پر جا کر کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے کہ لوگوں کے حالات سے نکل کر تم جن نعمتوں میں ہو وہ تمہیں مبارک ہوں رات کے مختلف سیاہ حصوں کی طرح فتنے اتر رہے ہیں جو یکے بعد دیگرے آتے جارہے ہیں اور ہر بعد والا پہلے والے سے زیادہ سخت ہے اس لئے تم جن نعمتوں میں ہواس پر تمہیں مبارک ہو۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے اور فرمایا: مجھے اس بات کا اختیار دیا گیا ہے میرے بعد میری امت جو فتوحات حاصل کر ے گی مجھے ان کی چابیاں اور جنت دیدی جائے یا اپنے رب سے ملاقات کر وں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ہمیں بھی اپنی ترجیح کے بارے بتائیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد امت وہی کر ے گی جو اللہ کو منظور ہو گا اس لئے میں نے اپنے رب سے ملاقات کو ترجیح دی لی ہے چنانچہ اس واقعے کی سات یا آٹھ دن بعد ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح فى استغفاره لأهل البقيع واختياره لقاء ربه ، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن عمر العبلى، وعبيد بن جبير
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بكر ، قال: حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن مسلم بن يسار ، عن ابي الاشعث الصنعاني ، عن راشد بن حبيش ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على عبادة بن الصامت يعوده في مرضه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتعلمون من الشهيد من امتي؟" , فارم القوم، فقال عبادة: ساندوني , فاسندوه، فقال: يا رسول الله، الصابر المحتسب , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن شهداء امتي إذا لقليل، القتل في سبيل الله عز وجل شهادة، والطاعون شهادة، والغرق شهادة، والبطن شهادة، والنفساء يجرها ولدها بسرره إلى الجنة". قال: وزاد فيها ابو العوام سادن بيت المقدس:" والحرق، والسيل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ حُبَيْشٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَعُودُهُ فِي مَرَضِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَعْلَمُونَ مَنْ الشَّهِيدُ مِنْ أُمَّتِي؟" , فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، فَقَالَ عُبَادَةُ: سَانِدُونِي , فَأَسْنَدُوهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الصَّابِرُ الْمُحْتَسِبُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ، الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ شَهَادَةٌ، وَالطَّاعُونُ شَهَادَةٌ، وَالْغَرَقُ شَهَادَةٌ، وَالْبَطْنُ شَهَادَةٌ، وَالنُّفَسَاءُ يَجُرُّهَا وَلَدُهَا بِسُرَرِهِ إِلَى الْجَنَّةِ". قَالَ: وَزَادَ فِيهَا أَبُو الْعَوَّامِ سَادِنُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ:" وَالْحَرْقُ، وَالسَّيْلُ".
سیدنا راشد بن حبیش سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبادہ بن صامت کی عیادت کے لئے ان کے یہاں تشریف لائے تو فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ میری امت کے شہید کون لوگ ہیں لوگ خاموش رہے سیدنا عبادہ نے لوگوں سے کہا کہ مجھے سہ ارادے کر بٹھادو لوگوں نے بٹھادیا وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! جو شخص صابر اور اس پر ثواب کی نیت رکھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس طرح تو میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے اللہ کے راستے میں قتل ہو جانا بھی شہادت ہے طاعون میں مرجانا بھی شہادت ہے دریا میں غرق ہو جانا بھی اور پیٹ کی بیماری میں بھی مرنا شہادت ہے اور نفاس کی حالت میں مرنے والی عورت کا اس کا بچہ اپنے ہاتھ سے کھینچ کر جنت میں لے جائے گا ابوعوام نامی راوی نے اس میں بیت المقدس کے کنجی برادر جل کر مرنے والے اور سیلاب میں مرنے والوں کو بھی شامل کیا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد فيه ضعف وانقطاع، قتادة لم يسمع من مسلم بن يسار، ومحمد بن بكر سمع من ابن أبى عروبة بعد الاختلاط، وقد زاد فى إسناده أبا الأشعث، وراشد بن حبيش تابعي، فحديثه مرسل