سیدنا جرید سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنی ران کھولے بیٹھے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے ڈھانپ لو کیونکہ ران ستر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، قال: حدثنا ابن ابي الزناد ، عن ابيه ، عن زرعة بن عبد الرحمن بن جرهد ، عن جرهد جده , ونفر من اسلم سواه ذوي رضا، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على جرهد، وفخذ جرهد مكشوفة في المسجد، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا جرهد غط فخذك , فإن يا جرهد الفخذ عورة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زُرْعَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَرْهَدٍ ، عَنْ جَرْهَدٍ جَدِّهِ , وَنَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ سِوَاهُ ذَوِي رِضًا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى جَرْهَدٍ، وَفَخِذُ جَرْهَدٍ مَكْشُوفَةٌ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا جَرْهَدُ غَطِّ فَخِذَكَ , فَإِنَّ يَا جَرْهَدُ الْفَخِذَ عَوْرَةٌ".
سیدنا جرید سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنی ران کھولے بیٹھے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے ڈھانپ لو کیونکہ ران ستر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن بشواهده ، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه ، وابن أبى الزناد تكلموا فى روايته عن أبيه
سیدنا جرید سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنی ران کھولے بیٹھے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے ڈھانپ لو کیونکہ ران ستر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، قال: حدثنا محمد بن عبد الله بن علاثة ، قال: حدثنا عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز ، قال: حدثنا خالد بن اللجلاج ، ان اباه حدثه، قال: بينما نحن في السوق إذ مرت امراة تحمل صبيا، فثار الناس وثرت معهم، فانتهيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول لها:" من ابو هذا؟" , فسكتت، فقال:" من ابو هذا؟" , فسكتت، فقال شاب بحذائها: يا رسول الله، إنها حديثة السن، حديثة عهد بجزية، وإنها لم تخبرك، وانا ابوه يا رسول الله، فالتفت إلى من عنده كانه يسالهم عنه، فقالوا: ما علمنا إلا خيرا او نحو ذلك، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" احصنت؟" , قال: نعم، فامر برجمه، فذهبنا فحفرنا له حتى امكنا، ورميناه بالحجارة حتى هدا، ثم رجعنا إلى مجالسنا، فبينما نحن كذلك، إذ انا بشيخ يسال عن الفتى، فقمنا إليه، فاخذنا بتلابيبه، فجئنا به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا: يا رسول الله، إن هذا جاء يسال عن الخبيث! فقال:" مه، لهو اطيب عند الله ريحا من المسك" , قال: فذهبنا فاعناه على غسله وحنوطه وتكفينه، وحفرنا له، ولا ادري اذكر الصلاة ام لا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُلَاثَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ اللَّجْلَاجِ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي السُّوقِ إِذْ مَرَّتْ امْرَأَةٌ تَحْمِلُ صَبِيًّا، فَثَارَ النَّاسُ وَثُرْتُ مَعَهُمْ، فَانْتَهَيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ لَهَا:" مَنْ أَبُو هَذَا؟" , فَسَكَتَتْ، فَقَالَ:" مَنْ أَبُو هَذَا؟" , فَسَكَتَتْ، فَقَالَ شَابٌّ بِحِذَائِهَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا حَدِيثَةُ السِّنِّ، حَدِيثَةُ عَهْدٍ بِجِزْيَةٍ، وَإِنَّهَا لَمْ تُخْبِرْكَ، وَأَنَا أَبُوهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالْتَفَتَ إِلَى مَنْ عِنْدَهُ كَأَنَّهُ يَسْأَلُهُمْ عَنْهُ، فَقَالُوا: مَا عَلِمْنَا إِلَّا خَيْرًا أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَحْصَنْتَ؟" , قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِرَجْمِهِ، فَذَهَبْنَا فَحَفَرْنَا لَهُ حَتَّى أَمْكَنَّا، وَرَمَيْنَاهُ بِالْحِجَارَةِ حَتَّى هَدَأَ، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى مَجَالِسِنَا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ، إِذْ أَنَا بِشَيْخٍ يَسْأَلُ عَنِ الْفَتَى، فَقُمْنَا إِلَيْهِ، فَأَخَذْنَا بِتَلَابِيبِهِ، فَجِئْنَا بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا جَاءَ يَسْأَلُ عَنِ الْخَبِيثِ! فَقَالَ:" مَهْ، لَهُوَ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ رِيحًا مِنَ الْمِسْكِ" , قَالَ: فَذَهَبْنَا فَأَعَنَّاهُ عَلَى غُسْلِهِ وَحَنُوطِهِ وَتَكْفِينِهِ، وَحَفَرْنَا لَهُ، وَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ الصَّلَاةَ أَمْ لَا.
سیدنا لجلاج سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بازار میں تھے کہ ایک عورت اپنے بچے کو اٹھائے وہاں سے گزری تو لوگ اس عورت کے ساتھ بچہ دیکھ کر بھڑک اٹھے مجھے بھی غصہ آگیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ اس سے پوچھ رہے تھے کہ اس بچے کا باپ کون ہے وہ خاموش رہی دوسری مرتبہ پوچھنے پر وہ خاموش رہی اسی اثناء میں ایک نوجوان اس عورت کے برابر آ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ نوعمر مسلم ہے یہ آپ کو جواب نہیں دے سکی گی اس بچے کا باپ میں ہوں اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اردگرد صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اس آدمی کے متعلق پوچھ رہے ہوں وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو اس کے متعلق خیر ہی جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم شادی شدہ ہواس نے کہا جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ ہم اسے اپنے ساتھ لے کر چلے گئے اور ایک گڑھاکھودا اسے اس میں اتار دیا پھر ہم نے اسے اتنے پتھر مارے کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا پھر ہم اپنی جگہ پر لوٹ گئے اسی دوران ایک بزرگ اس نوجوان کے متعلق پوچھتے ہوئے آئے ہم نے کھڑے ہو کر ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ صاحب اس خبیث کے متعلق پوچھتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خاموش رہو وہ شخص اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ مہک رکھنے والا ہے یہ سن کر ہم لوگ واپس آئے اور اس کے غسل جنوط لگانے اور تجہیز وتکفین میں ہاتھ بٹایا اور اس کے لئے قبر تیار کی راوی کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے نماز کا ذکر کیا یا نہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن عبدالله مختلف فيه، وأكثر الأئمة مالوا إلى ضعفه
(حديث مرفوع) حدثنا الوليد بن مسلم ، قال: سمعت يزيد بن ابي مريم ، قال: لحقني عباية بن رافع بن خديج وانا رائح إلى المسجد إلى الجمعة ماشيا، وهو راكب قال: ابشر فإني سمعت ابا عبس يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اغبرت قدماه في سبيل الله عز وجل حرمهما الله عز وجل على النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مَسْلِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ أَبِي مَرْيَمَ ، قَالَ: لَحِقَنِي عَبَايَةُ بْنُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَأَنَا رَائِحٌ إِلَى الْمَسْجِدِ إِلَى الْجُمُعَةِ مَاشِيًا، وَهُوَ رَاكِبٌ قَالَ: أَبْشِرْ فَإِنِّي سَمِعْتُ أَبَا عَبْسٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَهُمَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى النَّارِ".
سیدنا ابوعبس سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے قدم اللہ کے راستہ میں غبار آلود ہو جائیں اللہ ان پر آگ کو حرام کر دے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا موسى بن عقبة ، قال: حدثني ابو النضر ، عن رجل كان قديما من بني تميم كان في عهد عثمان، رجل يخبر، عن ابيه ، انه لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اكتب لي كتابا ان لا اؤاخذ بجريرة غيري , فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن ذلك لك ولكل مسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ ، عَنْ رَجُلٍ كَانَ قَدِيمًا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ كَانَ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ، رَجُلٌ يُخْبِرُ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اكْتُبْ لِي كِتَابًا أَنْ لَا أُؤَاخَذَ بِجَرِيرَةِ غَيْرِي , فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ ذَلِكَ لَكَ وَلِكُلِّ مُسْلِمٍ".
بنوتمیم کے ایک قدیم آدمی نے سیدنا عثمان کے دور باسعادت میں اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ ان کی ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو عرض کیا: کہ یا رسول اللہ! مجھے اس مضمون کی ایک تحریری لکھ کر دیں کہ کسی کے جرم میں مجھے نہ پکڑا جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لئے اور ہر مسلمان کے لئے یہی حکم ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف الإبهام الرجل من بني تميم
عکر مہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ بنومغیرہ کے دو بھائی سیدنا مجمع بن یزید سے ملنے کے لئے آئے (ان میں سے ایک نے قسم کھائی کہ اگر دوسرے نے اس کی دیوار پر شہتیر رکھ لیا تو اس کا غلام آزاد ہو گا) سیدنا مجمع کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کی دیوار پر شہتیر نہ رکھے یہ سن کر قسم کھانے والے نے کہا بھائی یہ تو مجھے معلوم ہو گیا کہ شریعت کا فیصلہ تمہارے حق میں ہے اور میں قسم بھی کھاچکا ہوں اب اگر تم میری دیوار پر شہتیر رکھتے ہو تو مجھے غلام آزاد کرنا پڑے گا تم میری دیوار کے پیچھے ایک ستون بنالو چنانچہ دوسرے نے ایساہی کیا اس ستون پر اپنا شہتیر رکھ دیا۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف، عكرمة ابن سلمة مجهول، وهشام بن يحيي مستور
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، قال ابن جريج : اخبرني عمرو بن دينار ، عن هشام بن يحيى اخبره، ان عكرمة بن سلمة بن ربيعة اخبره، ان اخوين من بني المغيرة اعتق احدهما ان لا يغرز خشبا في جداره، فلقيا مجمع بن يزيد الانصاري ورجالا كثيرا، فقالوا: نشهد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يمنع جار جاره ان يغرز خشبا في جداره"، فقال الحالف: اي اخي، قد علمت انك مقضي لك علي، وقد حلفت، فاجعل اسطوانا دون جداري، ففعل الآخر، فغرز في الاسطوان خشبة , فقال لي عمرو: فانا نظرت إلى ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ يَحْيَى أَخْبَرَهُ، أَنَّ عِكْرِمَةَ بْنَ سَلَمَةَ بْنِ رَبِيعَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَخَوَيْنِ مِنْ بَنِي الْمُغِيرَةِ أَعْتَقَ أَحَدُهُمَا أَنْ لَا يَغْرِزَ خَشَبًا فِي جِدَارِهِ، فَلَقِيَا مُجَمِّعَ بْنَ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيَّ وَرِجَالًا كَثِيرًا، فَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَمْنَعْ جَارٌ جَارَهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبًا فِي جِدَارِهِ"، فَقَالَ الْحَالِفُ: أَيْ أَخِي، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكَ مَقْضِيٌّ لَكَ عَلَيَّ، وَقَدْ حَلَفْتُ، فَاجْعَلْ أُسْطُوَانًا دُونَ جِدَارِي، فَفَعَلَ الْآخَرُ، فَغَرَزَ فِي الْأُسْطُوَانِ خَشَبَةً , فَقَالَ لِي عَمْرٌو: فَأَنَا نَظَرْتُ إِلَى ذَلِكَ.
عکر مہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ بنو مغیرہ کے دو بھائی سیدنا مجمع بن یزید سے ملنے کے لئے آئے (ان میں سے ایک نے قسم کھائی کہ اگر دوسرے نے اس کی دیوار پر شہتیر رکھ لیا تو اس کا غلام آزاد ہو گا) سیدنا مجمع کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کی دیوار پر شہتیر نہ رکھے یہ سن کر قسم کھانے والے نے کہا بھائی یہ تو مجھے معلوم ہو گیا کہ شریعت کا فیصلہ تمہارے حق میں ہے اور میں قسم بھی کھاچکا ہوں اب اگر تم میری دیوار پر شہتیر رکھتے ہو تو مجھے غلام آزاد کرنا پڑے گا تم میری دیوار کے پیچھے ایک ستون بنالو چنانچہ دوسرے نے ایساہی کیا اس ستون پر اپنا شہتیر رکھ دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، راجع ما قبله