(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، قال: حدثنا محمد بن عبد الله بن علاثة ، قال: حدثنا عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز ، قال: حدثنا خالد بن اللجلاج ، ان اباه حدثه، قال: بينما نحن في السوق إذ مرت امراة تحمل صبيا، فثار الناس وثرت معهم، فانتهيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول لها:" من ابو هذا؟" , فسكتت، فقال:" من ابو هذا؟" , فسكتت، فقال شاب بحذائها: يا رسول الله، إنها حديثة السن، حديثة عهد بجزية، وإنها لم تخبرك، وانا ابوه يا رسول الله، فالتفت إلى من عنده كانه يسالهم عنه، فقالوا: ما علمنا إلا خيرا او نحو ذلك، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" احصنت؟" , قال: نعم، فامر برجمه، فذهبنا فحفرنا له حتى امكنا، ورميناه بالحجارة حتى هدا، ثم رجعنا إلى مجالسنا، فبينما نحن كذلك، إذ انا بشيخ يسال عن الفتى، فقمنا إليه، فاخذنا بتلابيبه، فجئنا به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا: يا رسول الله، إن هذا جاء يسال عن الخبيث! فقال:" مه، لهو اطيب عند الله ريحا من المسك" , قال: فذهبنا فاعناه على غسله وحنوطه وتكفينه، وحفرنا له، ولا ادري اذكر الصلاة ام لا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُلَاثَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ اللَّجْلَاجِ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي السُّوقِ إِذْ مَرَّتْ امْرَأَةٌ تَحْمِلُ صَبِيًّا، فَثَارَ النَّاسُ وَثُرْتُ مَعَهُمْ، فَانْتَهَيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ لَهَا:" مَنْ أَبُو هَذَا؟" , فَسَكَتَتْ، فَقَالَ:" مَنْ أَبُو هَذَا؟" , فَسَكَتَتْ، فَقَالَ شَابٌّ بِحِذَائِهَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا حَدِيثَةُ السِّنِّ، حَدِيثَةُ عَهْدٍ بِجِزْيَةٍ، وَإِنَّهَا لَمْ تُخْبِرْكَ، وَأَنَا أَبُوهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالْتَفَتَ إِلَى مَنْ عِنْدَهُ كَأَنَّهُ يَسْأَلُهُمْ عَنْهُ، فَقَالُوا: مَا عَلِمْنَا إِلَّا خَيْرًا أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَحْصَنْتَ؟" , قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِرَجْمِهِ، فَذَهَبْنَا فَحَفَرْنَا لَهُ حَتَّى أَمْكَنَّا، وَرَمَيْنَاهُ بِالْحِجَارَةِ حَتَّى هَدَأَ، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى مَجَالِسِنَا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ، إِذْ أَنَا بِشَيْخٍ يَسْأَلُ عَنِ الْفَتَى، فَقُمْنَا إِلَيْهِ، فَأَخَذْنَا بِتَلَابِيبِهِ، فَجِئْنَا بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا جَاءَ يَسْأَلُ عَنِ الْخَبِيثِ! فَقَالَ:" مَهْ، لَهُوَ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ رِيحًا مِنَ الْمِسْكِ" , قَالَ: فَذَهَبْنَا فَأَعَنَّاهُ عَلَى غُسْلِهِ وَحَنُوطِهِ وَتَكْفِينِهِ، وَحَفَرْنَا لَهُ، وَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ الصَّلَاةَ أَمْ لَا.
سیدنا لجلاج سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بازار میں تھے کہ ایک عورت اپنے بچے کو اٹھائے وہاں سے گزری تو لوگ اس عورت کے ساتھ بچہ دیکھ کر بھڑک اٹھے مجھے بھی غصہ آگیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ اس سے پوچھ رہے تھے کہ اس بچے کا باپ کون ہے وہ خاموش رہی دوسری مرتبہ پوچھنے پر وہ خاموش رہی اسی اثناء میں ایک نوجوان اس عورت کے برابر آ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ نوعمر مسلم ہے یہ آپ کو جواب نہیں دے سکی گی اس بچے کا باپ میں ہوں اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اردگرد صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اس آدمی کے متعلق پوچھ رہے ہوں وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو اس کے متعلق خیر ہی جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم شادی شدہ ہواس نے کہا جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ ہم اسے اپنے ساتھ لے کر چلے گئے اور ایک گڑھاکھودا اسے اس میں اتار دیا پھر ہم نے اسے اتنے پتھر مارے کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا پھر ہم اپنی جگہ پر لوٹ گئے اسی دوران ایک بزرگ اس نوجوان کے متعلق پوچھتے ہوئے آئے ہم نے کھڑے ہو کر ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ صاحب اس خبیث کے متعلق پوچھتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خاموش رہو وہ شخص اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ مہک رکھنے والا ہے یہ سن کر ہم لوگ واپس آئے اور اس کے غسل جنوط لگانے اور تجہیز وتکفین میں ہاتھ بٹایا اور اس کے لئے قبر تیار کی راوی کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے نماز کا ذکر کیا یا نہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن عبدالله مختلف فيه، وأكثر الأئمة مالوا إلى ضعفه