(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا يحيى بن سعيد ، عن عباد بن تميم اخبره، عن عويمر بن اشقر ، انه ذبح قبل ان يغدو رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ذكر ذلك له،" فامره ان يعيد اضحيته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عُوَيْمِرِ بْنِ أَشْقَرَ ، أَنَّهُ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يَغْدُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ،" فَأَمَرَهُ أَنْ يُعِيدَ أُضْحِيَّتَهُ".
سیدنا عویمر بن اشقر سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی قربانی کا جانور ذبح کر لیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکر ہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عباد بن تميم لم يسمع من عويمر
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا المستلم بن سعيد ، حدثنا خبيب بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن جده ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يريد غزوا، انا ورجل من قومي، ولم نسلم، فقلنا: إنا نستحيي ان يشهد قومنا مشهدا لا نشهده معهم , قال:" او اسلمتما؟" , قلنا: لا , قال:" فإنا لا نستعين بالمشركين على المشركين". قال: فاسلمنا، وشهدنا معه، فقتلت رجلا، وضربني ضربة، وتزوجت بابنته بعد ذلك، فكانت تقول: لا عدمت رجلا وشحك هذا الوشاح , فاقول: لا عدمت رجلا عجل اباك النار.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُرِيدُ غَزْوًا، أَنَا وَرَجُلٌ مِنْ قَوْمِي، وَلَمْ نُسْلِمْ، فَقُلْنَا: إِنَّا نَسْتَحْيِي أَنْ يَشْهَدَ قَوْمُنَا مَشْهَدًا لَا نَشْهَدُهُ مَعَهُمْ , قَالَ:" أَوَ أَسْلَمْتُمَا؟" , قُلْنَا: لَا , قَالَ:" فَإِنَّا لَا نَسْتَعِينُ بِالْمُشْرِكِينَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ". قَالَ: فَأَسْلَمْنَا، وَشَهِدْنَا مَعَهُ، فَقَتَلْتُ رَجُلًا، وَضَرَبَنِي ضَرْبَةً، وَتَزَوَّجْتُ بِابْنَتِهِ بَعْدَ ذَلِكَ، فَكَانَتْ تَقُولُ: لَا عَدِمْتَ رَجُلًا وَشَّحَكَ هَذَا الْوِشَاحَ , فَأَقُولُ: لَا عَدِمْتِ رَجُلًا عَجَّلَ أَبَاكِ النَّارَ.
خبیب بن عبدالرحمن کے داد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میری قوم کا ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوے کی تیاری فرما رہے تھے ہم نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یہ بات ہمارے لئے باعث شرم ہے کہ ہماری قوم کسی جنگ کے لئے جا رہی ہواور ہم ان کے ساتھ شریک نہ ہوں اس لئے ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دونوں نے اسلام قبول کر لیا ہے ہم نے کہا نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم مشرکوں کے خلاف مشرکوں سے مدد نہیں لینا چاہتے اس پر ہم نے اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہو گئے اس جنگ میں میں نے ایک آدمی کو قتل کیا اور اس نے مجھے ایک ضرب لگائی بعد میں اسی مقتول کی بیٹی سے میں نے نکاح کر لیا تو وہ کہا کر تی تھی کہ تم اس آدمی کو بھلا نہیں سکو گے جس نے تمہیں یہ زخم لگایا اور میں اس سے کہتا تھا کہ تم بھی اس آدمی کو بھلا نہیں پاؤ گی جس نے تمہارے باپ کو جلدی سے جہنم کا راستہ دکھا دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالرحمن بن خبيب والد خبيب بن عبدالرحمن، ترجم له البخاري وابن أبى حاتم، ولم يذكرا فى الرواة عنه غير ابنه خبيب. دون قوله: "فلا نستعين بالمشركين على المشركين" فهو صحيح لغيره
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن اسامة بن زيد ، عن الزهري ، عن ابن كعب بن مالك ، ان جارية لكعب كانت ترعى غنما له بسلع، فعدا الذئب على شاة من شائها، فادركتها الراعية، فذكتها بمروة، فسال كعب بن مالك النبي صلى الله عليه وسلم،" فامره باكلها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ جَارِيَةً لِكَعْبٍ كَانَتْ تَرْعَى غَنَمًا لَهُ بِسَلْعٍ، فَعَدَا الذِّئْبُ عَلَى شَاةٍ مِنْ شَائِهَا، فَأَدْرَكَتْهَا الرَّاعِيَةُ، فَذَكَّتْهَا بِمَرْوَةٍ، فَسَأَلَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَأَمَرَهُ بِأَكْلِهَا".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک باندی تھی جو مقام سلع میں ان کی بکریاں چرایا کر تی تھی ایک مرتبہ ایک بھیڑیا ایک بکری کو لے کر بھاگ گیا اس باندی نے اس کا پیچھا کر کے اس کو جالیا اور اسے ایک دھاری دار پتھر سے ذبح کر لیا سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بکری کا حکم پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کے کھانے کی اجازت دیدی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2304 وهذا إسناد ظاهر الانقطاع بين ابن كعب وأبيه ، لكن صرح بسماعه منه عند البخاري، فاتصل الإسناد
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا زمعة ، عن الزهري ، عن ابن كعب بن مالك ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم مر به وهو ملازم رجلا في اوقيتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم للرجل:" هكذا" اي: ضع عنه الشطر , قال الرجل: نعم يا رسول الله , فقال النبي صلى الله عليه وسلم للرجل:" اد إليه ما بقي من حقه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ مُلَازِمٌ رَجُلًا فِي أُوقِيَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلرَّجُلِ:" هَكَذَا" أَيْ: ضَعْ عَنْهُ الشَّطْرَ , قَالَ الرَّجُلُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلرَّجُلِ:" أَدِّ إِلَيْهِ مَا بَقِيَ مِنْ حَقِّهِ".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ کسی شخص سے اپنی دو اوقیہ چاندی کا مطالبہ کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کر کے مجھ سے فرمایا کہ اس کا نصف قرض معاف کر دو میں نے عرض کیا: بہت بہتر یا رسول اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سے فرمایا کہ اب جو حق باقی بچا ہے اسے ادا کر و۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بغير هذه السياقة، وهذا إسناد ضعيف لضعف زمعة
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی ایک سیاہ فام باندی تھی جس نے ایک بکری کو دھاری دار پتھر سے ذبح کر لیا سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بکری کا حکم پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کے کھانے کی اجازت دیدی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2308. حجاج ضعيف لكنه توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن سعد ، عن عبد الله ، او عبد الرحمن بن كعب بن مالك ، قال عبد الرحمن: هو شك يعني سفيان، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مثل المؤمن كمثل الخامة من الزرع، تقيمها الرياح، تعدلها مرة، وتصرعها اخرى حتى ياتيه اجله، ومثل الكافر مثل الارزة المجذية على اصلها لا يعلها شيء حتى يكون انجحافها يختلعها او انجعافها مرة واحدة". شك عبد الرحمن.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَوْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: هُوَ شَكَّ يَعْنِي سُفْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الْخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ، تُقِيمُهَا الرِّيَاحُ، تَعْدِلُهَا مَرَّةً، وَتَصْرَعُهَا أُخْرَى حَتَّى يَأْتِيَهُ أَجَلُهُ، وَمَثَلُ الْكَافِرِ مَثَلُ الْأَرْزَةِ الْمُجْذِيَةِ عَلَى أَصْلِهَا لَا يُعِلُّهَا شَيْءٌ حَتَّى يَكُونَ انْجِحَافُهَا يَخْتَلِعُهَا أَوْ انْجِعَافُهَا مَرَّةً وَاحِدَةً". شَكَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ.
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کی مثال کھیتی کے ان دانوں کی سی ہے جنہیں ہوا اڑاتی ہے کبھی برابر کر تی ہے اور کبھی دوسری جگہ لے جا کر پٹخ دیتی ہے یہاں تک کہ اس کا وقت مقررہ آ جائے اور کافر کی مثال ان چاولوں کی سی ہے جو اپنی جڑ پر کھڑے رہتے ہیں انہیں کوئی چیز نہیں ہلا سکتی یہاں تک کہ ایک ہی مرتبہ انہیں اتار لیا جاتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني ابن شهاب ، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك ، ان كعب بن مالك لما تاب الله عليه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن الله لم ينجني إلا بالصدق، وإن من توبتي إلى الله ان لا اكذب ابدا، وإني انخلع من مالي صدقة لله تعالى ورسوله , فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امسك عليك بعض مالك، فإنه خير لك"، قال: فإني امسك سهمي من خيبر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ لَمَّا تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَمْ يُنْجِنِي إِلَّا بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِي إِلَى اللَّهِ أَنْ لَا أَكْذِبَ أَبَدًا، وَإِنِّي أَنْخَلِعُ مِنْ مَالِي صَدَقَةً لِلَّهِ تَعَالَى وَرَسُولِهِ , فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ، فَإِنَّهُ خَيْرٌ لَكَ"، قَالَ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي مِنْ خَيْبَرَ.
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: اللہ نے مجھے سچ کے علاوہ کسی اور چیز کی برکت سے نجات نہیں دی اب میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ آئندہ میں کبھی جھوٹ نہ بولوں اور میں اپنا سارامال اللہ اور اس کے رسول کے لئے وقف کرتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھوڑا بہت اپنے پاس بھی رکھ لو تو بہتر ہے عرض کیا: کہ پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لیتاہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، قال: اخبرنا ابن عون ، عن عمر بن كثير بن افلح ، قال: قال كعب بن مالك :" ما كنت في غزاة ايسر للظهر والنفقة مني في تلك الغزاة، قال: لما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت اتجهز غدا، ثم الحقه , فاخذت في جهازي، فامسيت ولم افرغ، فقلت: آخذ في جهازي غدا والناس قريب بعد، ثم الحقهم , فامسيت ولم افرغ، فلما كان اليوم الثالث اخذت في جهازي، فامسيت فلم افرغ، فقلت: ايهات، سار الناس ثلاثا، فاقمت , فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم جعل الناس يعتذرون إليه، فجئت حتى قمت بين يديه، فقلت: ما كنت في غزاة ايسر للظهر والنفقة مني في هذه الغزاة , فاعرض عني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وامر الناس ان لا يكلمونا، وامرت نساؤنا ان يتحولن عنا. قال: فتسورت حائطا ذات يوم، فإذا انا بجابر بن عبد الله، فقلت: اي جابر، نشدتك بالله، هل علمتني غششت الله ورسوله يوما قط؟ قال: فسكت عني، فجعل لا يكلمني. قال: فبينا انا ذات يوم إذ سمعت رجلا على الثنية يقول: كعبا كعبا، حتى دنا مني، فقال: بشروا كعبا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحٍ ، قَالَ: قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ :" مَا كُنْتُ فِي غَزَاةٍ أَيْسَرَ لِلظَّهْرِ وَالنَّفَقَةِ مِنِّي فِي تِلْكَ الْغَزَاةِ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ أَتَجَهَّزُ غَدًا، ثُمَّ أَلْحَقُهُ , فَأَخَذْتُ فِي جَهَازِي، فَأَمْسَيْتُ وَلَمْ أَفْرُغْ، فَقُلْتُ: آخُذُ فِي جَهَازِي غَدًا وَالنَّاسُ قَرِيبٌ بَعْدُ، ثُمَّ أَلْحَقُهُمْ , فَأَمْسَيْتُ وَلَمْ أَفْرُغْ، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّالِثُ أَخَذْتُ فِي جَهَازِي، فَأَمْسَيْتُ فَلَمْ أَفْرُغْ، فَقُلْتُ: أَيْهَاتَ، سَارَ النَّاسُ ثَلَاثًا، فَأَقَمْتُ , فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ النَّاسُ يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ، فَجِئْتُ حَتَّى قُمْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقُلْتُ: مَا كُنْتُ فِي غَزَاةٍ أَيْسَرَ لِلظَّهْرِ وَالنَّفَقَةِ مِنِّي فِي هَذِهِ الْغَزَاةِ , فَأَعْرَضَ عَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ لَا يُكَلِّمُونَا، وَأُمِرَتْ نِسَاؤُنَا أَنْ يَتَحَوَّلْنَ عَنَّا. قَالَ: فَتَسَوَّرْتُ حَائِطًا ذَاتَ يَوْمٍ، فَإِذَا أَنَا بِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَقُلْتُ: أَيْ جَابِرُ، نَشَدْتُكَ بِاللَّهِ، هَلْ عَلِمْتَنِي غَشَشْتُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَوْمًا قَطُّ؟ قَالَ: فَسَكَتَ عَنِّي، فَجَعَلَ لَا يُكَلِّمُنِي. قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ سَمِعْتُ رَجُلًا عَلَى الثَّنِيَّةِ يَقُولُ: كَعْبًا كَعْبًا، حَتَّى دَنَا مِنِّي، فَقَالَ: بَشِّرُوا كَعْبًا".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں سواری اور خرچ کے اعتبار سے اس غزوے کے علاوہ کسی دوسرے غزوے میں اتنا مالدار نہیں تھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو میں نے سوچا کہ کل سامان سفر درست کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں گا چنانچہ میں نے تیاری شرع کر دی توشام ہو گئی لیکن میں فارغ نہیں ہو سکا حتی کہ تیسرے دن بھی اسی طرح ہوا میں کہنے لگا کہ ہائے افسوس لوگ تین دن کا سفر طے کر چکے ہیں یہ سوچ کر میں رک گیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے تو لوگ مختلف عذر بیان کرنے لگے کہ میں بھی بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور عرض کیا: کہ مجھ اس غزوے سے زیادہ کسی غزوے میں سواری اور خرچ کے اعتبار سے آسانی حاصل نہ تھی اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اعرض فرمالیا اور لوگوں کو ہم سے بات چیت کرنے سے بھی منع فرما دیا بیویوں کے متعلق حکم دیا گیا کہ وہ ہم سے دور رہیں ایک دن میں گھر کی دیوار پر چڑھا تو مجھے جابر رضی اللہ عنہ نظر آئے میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا اے جابر رضی اللہ عنہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں علم ہے کہ میں نے کسی دن اللہ اور اس کے رسول کو دھوکہ دیاہو لیکن وہ خاموش رہے اور مجھ سے کوئی بات نہیں کی ایک دن میں اسی حال میں تھا کہ میں نے ایک پہاڑی کی چوٹی سے کسی کو اپنانام لیتے ہوئے سنا یہاں تک کہ وہ میرے قریب آگیا اور کہنے لگا کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے لئے خوش خبری ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2775، م: 2769 ، دون قوله: "فإذا أنا بجابر بن عبدالله......"، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عمر بن كثير لم يدرك كعب بن مالك