(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، حدثنا يزيد بن خصيفة عن السائب بن يزيد , إن شاء الله، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" ظاهر بين درعين يوم احد , وحدثنا به مرة اخرى فلم يستثن فيه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ , إِنْ شَاءَ اللَّهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ظَاهَرَ بَيْنَ دِرْعَيْنِ يَوْمَ أُحُدٍ , وَحَدَّثَنَا بِهِ مَرَّةً أُخْرَى فَلَمْ يَسْتَثْنِ فِيهِ.
سیدنا سائب بن یزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے موقع پر دو زرہیں پہن رکھی تھیں۔
سیدنا سائب بن یزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں صرف ایک مؤذن مقرر تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر بیٹھنے کے بعد اذان دیتا تھا اور منبر سے اترنے کے بعد اقامت بھی وہی کہتا تھا سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا عمر کے زمانے تک ایسا ہی ہوتا رہا۔
سیدنا سائب بن یزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مرتبہ شریح حضرمی کا تذکر ہ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایسا آدمی ہے جو قرآن کو تکیہ نہیں بناتا۔
سیدنا سائب بن یزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی بیماری متعدی نہیں ہو تی ماہ صفر منحوس نہیں ہے اور مردوں کی کھوپڑی سے کیڑا نکلنے کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا ابن ابي ذئب ، عن الزهري , عن السائب بن يزيد ، قال:" كان الاذان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر رضي الله تعالى عنهما اذانان، حتى كان زمن عثمان، فكثر الناس، فامر بالاذان الاول بالزوراء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ:" كَانَ الْأَذَانُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا أذانان، حَتَّى كَانَ زَمَنُ عُثْمَانَ، فَكَثُرَ النَّاسُ، فَأَمَرَ بِالْأَذَانِ الْأَوَّلِ بِالزَّوْرَاءِ".
سیدنا سائب بن یزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین کے دور باسعادت میں صرف ایک اذان ہو تی تھی یہاں تک کہ سیدنا عثمان کا دور آگیا اور لوگ زیادہ ہو گئے تو انہوں نے مقام زوراء پر پہلی اذان کا حکم دے دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا ليث ، عن يزيد يعني ابن الهاد , عن إسماعيل بن عبد الله بن جعفر ، قال: بلغني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" ما من إنسان يكون في مجلس، فيقول حين يريد ان يقوم: سبحانك اللهم وبحمدك، لا إله إلا انت، استغفرك واتوب إليك، إلا غفر له ما كان في ذلك المجلس" , فحدثت هذا الحديث يزيد بن خصيفة ، قال: هكذا حدثني السائب بن يزيد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْهَادِ , عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا مِنْ إِنْسَانٍ يَكُونُ فِي مَجْلِسٍ، فَيَقُولُ حِينَ يُرِيدُ أَنْ يَقُومَ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ، إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا كَانَ فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ" , فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ يَزِيدَ بْنَ خُصَيْفَةَ ، قَالَ: هَكَذَا حَدَّثَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اسماعیل بن عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مجلس میں شریک ہواور جس وقت کھڑے ہو نے کا ارادہ کر ے اور وہ یہ کلمات پڑھ لے سبحانک اللھم وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک اتوب الیک تو اس مجلس میں ہو نے والے اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے راوی کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث یزید بن خصیفہ کو سنائی تو انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث سیدنا سائب بن یزید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مجھ سے اسی طرح بیان فرمائی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن خبيب بن عبد الرحمن ، عن حفص بن عاصم , عن ابي سعيد بن المعلى ، قال: كنت اصلي، فمر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم فدعاني، فلم آته حتى صليت، ثم اتيته , فقال:" ما منعك ان تاتيني؟" فقال: إني كنت اصلي , قال:" الم يقل الله تبارك وتعالى يايها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم سورة الانفال آية 24 ثم قال:" الا اعلمكم اعظم سورة في القرآن قبل ان اخرج من المسجد؟" قال: فذهب رسول الله صلى الله عليه وسلم ليخرج فذكرته، فقال: الحمد لله رب العالمين هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي اوتيته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى ، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي، فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَانِي، فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ , فَقَالَ:" مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي؟" فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي , قَالَ:" أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24 ثُمَّ قَالَ:" أَلَا أُعَلِّمُكُمْ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ؟" قَالَ: فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ فَذَكَّرْتُهُ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ".
سیدنا ابوسعید معلی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نماز پڑھ رہا تھا اتفاقا وہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا آپ نے مجھے آواز دی لیکن میں نماز پوری کرنے تک حاضر نہ ہوا اس کے بعد حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں میرے پاس آنے سے کس چیز نے روکا عرض کیا: کہ میں نماز پڑھ رہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے اہل ایمان والو اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں کسی ایسی چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہاری حیات کا راز پوشیدہ ہو تو تم ان کی پکار پر لبیک کہو پھر فرمایا کہ کیا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے قبل قرآن کر یم کی سب سے عظیم سورت نہ سکھا دوں پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دہانی کر وائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سورت فاتحہ ہے وہی سبع مثانی ہے اور وہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔
دو مختلف سندوں سے سیدنا حجاج بن عمرو سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص کی ٹانگ ٹوٹ جائے وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ حلال ہو جائے اور اگلے سال اس پر دوسرا حج لازم ہو گا راوی کہتے ہیں میں نے اس حدیث کا سیدنا ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ذکر کیا تو انہوں نے اس کی تصدیق فرمائی۔