(حديث مرفوع) حدثنا هاشم ، حدثنا الليث ، عن محمد بن عجلان ، عن مولى لعبد الله بن عامر بن ربيعة العدوي، عن عبد الله بن عامر , انه قال: اتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتنا وانا صبي , قال: فذهبت اخرج لالعب، فقالت امي: يا عبد الله , تعال اعطك , فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وما اردت ان تعطيه؟" قالت: اعطيه تمرا , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إنك لو لم تفعلي كتبت عليك كذبة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ مَوْلًى لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ الْعَدَوِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ , أَنَّهُ قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِنَا وَأَنَا صَبِيٌّ , قَالَ: فَذَهَبْتُ أَخْرُجُ لِأَلْعَبَ، فَقَالَتْ أُمِّي: يَا عَبْدَ اللَّهِ , تَعَالَ أُعْطِكَ , فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِيَهُ؟" قَالَتْ: أُعْطِيهِ تَمْرًا , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تَفْعَلِي كُتِبَتْ عَلَيْكِ كَذْبَةٌ".
سیدنا عبداللہ بن عامر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے میں اس وقت بچہ تھا میں کھیلنے کے لئے باہر جانے لگا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا عبداللہ ادھر آؤ میں تمہیں کچھ دوں گی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے کیا دینا چاہتی ہوانہوں نے کہا میں اسے کھجور دوں گی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کر تیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام مولي عبدالله بن عامر
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن محمد بن المنكدر , قال: سمعت ابا شعبة يحدث , عن سويد بن مقرن ، ان رجلا لطم جارية لآل سويد بن مقرن، فقال له سويد: اما علمت ان الصورة محرمة، لقد رايتني سابع سبعة مع إخوتي، وما لنا إلا خادم واحد، فلطمه احدنا، فامرنا النبي صلى الله عليه وسلم:" ان نعتقه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا شُعْبَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، أَنَّ رَجُلًا لَطَمَ جَارِيَةً لِآلِ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ، فَقَالَ لَهُ سُوَيْدٌ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الصُّورَةَ مُحَرَّمَةٌ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ إِخْوَتِي، وَمَا لَنَا إِلَّا خَادِمٌ وَاحِدٌ، فَلَطَمَهُ أَحَدُنَا، فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْ نُعْتِقَهُ".
سیدنا سوید بن مقرن کے حوالے سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے آل سوید کی ایک باندی کو تھپڑ مارا سیدنا سوید نے اس سے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ چہرے پر مارنا حرام ہے ہم لوگ سات بھائی تھے ہمارے پاس صرف ایک خادم تھا ہم میں سے کسی نے ایک مرتبہ اسے تھپڑ ماردیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ اسے آزاد کر دیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1658، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى شعبة
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي حمزة ، قال: سمعت هلالا رجلا من بني مازن يحدث , عن سويد بن مقرن , قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بنبيذ في جر، فسالته عنه،" فنهاني عنه، فاخذت الجرة فكسرتها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ هلالا رَجُلًا مِنْ بَنِي مَازِنٍ يُحَدِّثُ , عَنْ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ , قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَبِيذٍ فِي جَرٍّ، فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ،" فَنَهَانِي عَنْهُ، فَأَخَذْتُ الْجَرَّةَ فَكَسَرْتُهَا.
سیدنا سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مٹکے میں نبیذ لے کر آیا اور اس کے متعلق حکم دریافت کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے منع فرما دیا، چنانچہ میں نے وہ مٹکا پکڑا اور توڑ ڈالا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، حدثنا سفيان ، عن سلمة ، عن معاوية بن سويد , قال: لطمت مولى لنا، ثم جئت وابي في الظهر، فصليت معه، فلما سلم اخذ بيدي، فقال: امتثل منه , فعفا، ثم انشا يحدث , قال: كنا ولد مقرن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم سبعة ليس لنا إلا خادم واحدة، فلطمها احدنا، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اعتقوها" , فقالوا: ليس لنا خادم غيرها، قال:"، فإذا استغنوا فليخلوا سبيلها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدٍ , قَالَ: لَطَمْتُ مَوْلًى لَنَا، ثُمَّ جِئْتُ وَأَبِي فِي الظُّهْرِ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا سَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِي، فَقَالَ: امتثل مِنْهُ , فَعَفَا، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ , قَالَ: كُنَّا وَلَدَ مُقَرِّنٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَةً لَيْسَ لَنَا إِلَّا خَادِمٌ وَاحِدَةٌ، فَلَطَمَهَا أَحَدُنَا، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَعْتِقُوهَا" , فَقَالُوا: لَيْسَ لَنَا خَادِمٌ غَيْرُهَا، قَالَ:"، فَإِذَا اسْتَغْنَوْا فَلْيُخَلُّوا سَبِيلَهَا".
سیدنا سوید بن مقرن کے حوالے سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے آل سوید کی ایک باندی کو تھپڑ مارا سیدنا سوید نے اس سے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ چہرے پر مارنا حرام ہے ہم لوگ سات بھائی تھے ہمارے پاس صرف ایک خادم تھا ہم میں سے کسی نے ایک مرتبہ اسے تھپڑ ماردیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ اسے آزاد کر دیں۔ بھائیوں نے عرض کیا: کہ ہمارے پاس تو اس کے علاوہ کوئی اور خادم نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اس سے خدمت لیتے رہواور جب اس سے بےنیاز ہو جائیں تو اس کا راستہ چھوڑ دیں۔
سیدنا ابوحدرد اسلمی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی بیوی کے مہر کے سلسلے میں تعاون کی درخواست لے کر حاضر ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے اس کا مہر کتنا مقرر کیا تھا انہوں نے کہا دو سو درہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم بطحان سے بھی پانی کے چلو بھر کر نکالتے تو اس سے اضافہ نہ کرتے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، محمد بن إبراهيم لم يسمع من أبى حدرد
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن عطاء بن السائب ، قال: اتيت ام كلثوم ابنة علي بشيء من الصدقة، فردتها، وقالت: حدثني مولى للنبي صلى الله عليه وسلم , يقال له: مهران , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إنا آل محمد لا تحل لنا الصدقة، ومولى القوم منهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ: أَتَيْتُ أُمَّ كُلْثُومٍ ابْنَةَ عَلِيٍّ بِشَيْءٍ مِنَ الصَّدَقَةِ، فَرَدَّتْهَا، وَقَالَتْ: حَدَّثَنِي مَوْلًى لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يُقَالُ لَهُ: مِهْرَانُ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّا آلُ مُحَمَّدٍ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ، وَمَوْلَى الْقَوْمِ مِنْهُمْ".
عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ام کلثوم بنت علی کے پاس صدقہ کی کوئی چیز لے کر آیا انہوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کر دہ غلام جس کا نام مہران تھا نے یہ حدیث سنائی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم آل محمد کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے اور کسی قوم کا آزاد کر دہ غلام بھی ان ہی میں شمار ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن سهيل بن ابي صالح ، عن ابيه , عن رجل من اسلم، انه لدغ، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لو انك قلت حين امسيت: اعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق، لم يضرك" , قال سهيل: فكان ابي إذا لدغ احد منا يقول قالها؟ فإن قالوا: نعم، قال: كانه يرى انها لا تضره.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ , عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ، أَنَّهُ لُدِغَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ أَنَّكَ قُلْتَ حِينَ أَمْسَيْتَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ يَضُرَّكَ" , قَالَ سُهَيْلٌ: فَكَانَ أَبِي إِذَا لُدِغَ أَحَدٌ مِنَّا يَقُولُ قَالَهَا؟ فَإِنْ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: كَأَنَّهُ يَرَى أَنَّهَا لَا تَضُرُّهُ.
ایک اسلمی صحابی کے متعلق مروی ہے کہ انہیں کسی جانور نے ڈس لیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکر ہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر تم نے شام کے وقت یہ کلمات کہہ لئے ہوتے تو اعوذ بکلمات اللہ تامات من شر ماخلق تو تمہیں کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکتی۔ راوی حدیث سہیل کہتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کسی کو کوئی جانور ڈس لیتا تو میرے والد صاحب پوچھتے کہ یہ کلمات کہہ لئے اگر وہ جواب میں ہاں کہہ دیتا تو ان کی رائے یہی ہو تی تھی کہ اب اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف على سهيل بن أبى صالح فى صحابي هذا الحديث
سیدنا سہل بن ابی حثمہ سے غالباً مرفوعاً مروی ہے کہ نماز خوف میں امام آگے کھڑا ہواور ایک صف اپنے پیچھے بنائے اور ایک اپنے آگے پھر پیچھے والوں کو ایک رکوع اور دو سجدے کر وائے پھر کھڑا رہے تاآنکہ وہ لوگ دوسری رکعت بھی پڑھ لیں اور اپنے ساتھیوں کی جگہ آگے بڑھ جائیں اور وہ لوگ یہاں آ کر ان کی جگہ کھڑے ہو جائیں اور امام انہیں بھی ایک رکوع اور دو سجدے کر وائے اور بیٹھ جائے یہاں تک کہ وہ اپنی دوسری رکعت بھی پوری کر لیں پھر آخر میں ان کے ساتھ اکٹھا سلام پھیرے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، والحديث مرفوع من طريق عبدالرحمن ابن القاسم، وموقوف من طريق يحيى بن سعيد الأنصاري، خ: 4131