سیدنا ارقم بن ارقم جو صحابی رسول ہیں سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آئے اور امام کے نکل آنے کے بعد دو آدمیوں کے درمیان گھس کر بیٹھے وہ اس شخص کی طرح ہے جو جہنم میں اپنی انتریاں کھینچ رہا ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا لضعف هشام بن زياد، ولجهالة حال عثمان بن الأرقم
سیدنا ابن عابس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابن عابس کیا میں تمہیں تعوذ کے سب سے افضل کلمات کے بارے میں نہ بتاؤں جن سے تعوذ کرنے والے تعوذ کرتے ہیں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہیں فرمایا: دو سورتیں ہیں سورت فلق اور سورت ناس۔
حكم دارالسلام: اسناده ضعيف لانقطاعه ، محمد بن إبراهيم لم يدرك ابن عابس، بينهما أبو عبدالرحمن الشامي، فإن ثبت سماع أبى عبدالرحمن من عقبة، فالحديث صحيح
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن إسحاق ، اخبرنا عبد الله يعني ابن مبارك , قال: اخبرنا الاوزاعي ، قال: حدثني المطلب بن حنطب المخزومي ، قال: حدثني عبد الرحمن بن ابي عمرة الانصاري ، حدثني ابي , قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة، فاصاب الناس مخمصة، فاستاذن الناس رسول الله صلى الله عليه وسلم في نحر بعض ظهورهم، وقالوا: يبلغنا الله به، فلما راى عمر بن الخطاب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد هم ان ياذن لهم في نحر بعض ظهرهم، قال: يا رسول الله، كيف بنا إذا نحن لقينا القوم غدا جياعا رجالا، ولكن إن رايت يا رسول الله ان تدعو لنا ببقايا ازوادهم، فتجمعها، ثم تدعو الله فيها بالبركة، فإن الله تبارك وتعالى سيبلغنا بدعوتك او قال سيبارك لنا في دعوتك، فدعا النبي صلى الله عليه وسلم ببقايا ازوادهم، فجعل الناس يجيئون بالحثية من الطعام وفوق ذلك، وكان اعلاهم من جاء بصاع من تمر، فجمعها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قام فدعا ما شاء الله ان يدعو، ثم دعا الجيش باوعيتهم، فامرهم ان يحتثوا، فما بقي في الجيش وعاء إلا ملئوه، وبقي مثله , فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه، فقال:" اشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، لا يلقى الله عبد مؤمن بهما، إلا حجبت عنه النار يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّه يَعْنِي ابْنَ مُبَارَكٍ , قَالَ: أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُطَّلِبُ بْنُ حَنْطَبٍ الْمَخْزُومِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَأَصَابَ النَّاسَ مَخْمَصَةٌ، فَاسْتَأْذَنَ النَّاسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَحْرِ بَعْضِ ظُهُورِهِمْ، وَقَالُوا: يُبَلِّغُنَا اللَّهُ بِهِ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ هَمَّ أَنْ يَأْذَنَ لَهُمْ فِي نَحْرِ بَعْضِ ظَهْرِهِمْ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِنَا إِذَا نَحْنُ لَقِينَا الْقَوْمَ غَدًا جِيَاعًا رِجالًا، وَلَكِنْ إِنْ رَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَدْعُوَ لَنَا بِبَقَايَا أَزْوَادِهِمْ، فَتَجْمَعَهَا، ثُمَّ تَدْعُوَ اللَّهَ فِيهَا بِالْبَرَكَةِ، فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى سَيُبَلِّغُنَا بِدَعْوَتِكَ أَوْ قَالَ سَيُبَارِكُ لَنَا فِي دَعْوَتِكَ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَقَايَا أَزْوَادِهِمْ، فَجَعَلَ النَّاسُ يُجِيئُونَ بِالْحَثْيَةِ مِنَ الطَّعَامِ وَفَوْقَ ذَلِكَ، وَكَانَ أَعْلَاهُمْ مَنْ جَاءَ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ، فَجَمَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ فَدَعَا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَ، ثُمَّ دَعَا الْجَيْشَ بِأَوْعِيَتِهِمْ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَحْتَثُوا، فَمَا بَقِيَ فِي الْجَيْشِ وِعَاءٌ إِلَّا ملئوه، وَبَقِيَ مِثْلُهُ , فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، فَقَالَ:" أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، لَا يَلْقَى اللَّهَ عَبْدٌ مُؤْمِنٌ بِهِمَا، إِلَّا حُجِبَتْ عَنْهُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابو عمرہ انصاری سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھے اور اس دوران لوگوں کو شدت کی بھوک نے ستایا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی سواری کا جانور ذبح کرنے کی اجازت چاہی اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے ذریعے منزل مقصود تک پہنچادیں گے سیدنا عمر نے محسوس کیا کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کسی سواری کو ذبح کرنے کی اجازت دیدیں گے تو وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! کل کو دشمن سے ہمارا آمنا سامنا ہو گا اور ہم بھوکے ہو نے کے ساتھ ساتھ پیدل بھی ہوں گے تو کیا بنے گا یا رسول اللہ! اگر آپ مناسب خیال کر یں تو ان سے کہیں کہ یہ بچا کچھا زاد راہ لے آئیں آپ اسے اکٹھا کر کے اس میں برکت کی دعا فرمائیں اللہ آپ کی دعا کی برکت سے اسے ہمارے لئے کافی فرمادیں گے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا اور لوگوں سے بچاکچھا زاد راہ منگوا لیا۔ لوگ ایک ایک مٹھی گندم یا اس سے زیادہ کچھ لانے لگے ان میں سب سے برتر وہ شخص تھا جو ایک صاع لے کر آیا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام چیزوں کو اکٹھا کیا اور اللہ سے دعا کی جب تک اللہ کو منظور ہوا پھر سارے لشکر کو ان کے برتنوں سمیت بلایا اور انہیں حکم دیا کہ مٹھیاں بھر بھر کر اٹھائیں چنانچہ پورے لشکر میں ایک برتن بھی ایسا نہ بچا جسے لوگوں نے بھر نہ لیاہو لیکن وہ پھر بھی اتنے کا اتناہی رہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے اور فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں جو بندہ مومن ان دو گواہیوں کے ساتھ قیامت کے دن اللہ سے ملے گا اسے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھا جائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، قال: اخبرنا يحيى بن سعيد ، عن محمد بن إبراهيم ، قال: اخبرني عيسى بن طلحة بن عبيد الله ، عن عمير بن سلمة الضمري ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بالعرج، فإذا هو بحمار عقير، فلم يلبث ان جاء رجل من بهز، فقال: يا رسول الله، هذه رميتي، فشانكم بها، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر رضي الله عنه، فقسمه بين الرفاق، ثم سار حتى اتى عقبة اثاية، فإذا هو بظبي فيه سهم، وهو حاقف في ظل صخرة، فامر النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من اصحابه، فقال:" قف هاهنا حتى يمر الرفاق، لا يرميه احد بشيء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَلَمَةَ الضَّمْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِالْعَرْجِ، فَإِذَا هُوَ بِحِمَارٍ عَقِيرٍ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَهْزٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ رَمْيَتِي، فَشَأْنُكُمْ بِهَا، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَسَمَهُ بَيْنَ الرِّفَاقِ، ثُمَّ سَارَ حَتَّى أَتَى عَقَبَةَ أُثَايَةَ، فَإِذَا هُوَ بِظَبْيٍ فِيهِ سَهْمٌ، وَهُوَ حَاقِفٌ فِي ظِلِّ صَخْرَةٍ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ:" قِفْ هَاهُنَا حَتَّى يَمُرَّ الرِّفَاقُ، لَا يَرْمِيهِ أَحَدٌ بِشَيْءٍ".
سیدنا عمیر بن سلمہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر مقام عرج سے ہوا وہاں ایک گدھا پڑا ہوا تھا جو زخمی تھا ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ قبیلہ بہز کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! یہ میرا شکار کیا ہوا ہے آپ اس کے ساتھ جو چاہیں کر یں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر کو حکم دیا کہ اور انہوں نے اسے ساتھیوں میں تقسیم کر دیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہوئے اور عقبہ اثایہ پر پہنچے تو وہاں ایک ہرن نظر آیا جس کے جسم میں ایک تیر پیوست تھا اور وہ ایک چٹان کے سائے میں ٹیڑھا ہو کر پڑا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ساتھی کو حکم دیا کہ تم یہیں ٹھہرو یہاں تک کہ سارے ساتھی آجائیں تاکہ اس پر کوئی شخص کوئی چیز نہ پھینک سکے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا ابو بلج ، عن محمد بن حاطب الجمحي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فصل بين الحلال والحرام، الدف والصوت في النكاح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَلْجٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ الْجُمَحِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَصْلٌ بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ، الدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِي النِّكَاحِ".
سیدنا محمد بن حاطب سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال حرام کے درمیان فرق دف بجانے اور نکاح کی تشہیر کرنے سے ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، عن سماك , قال: قال محمد بن حاطب : انصبت على يدي من قدر، فذهبت بي امي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في مكان، قال: فقال كلاما فيه:" اذهب الباس رب الناس" واحسبه قال , اشف انت الشافي" , قال: وكان يتفل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ , قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ حَاطِبٍ : انْصَبَّتْ عَلَى يَدِي مِنْ قِدْرٍ، فَذَهَبَتْ بِي أُمِّي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي مَكَانٍ، قَالَ: فَقَالَ كَلَامًا فِيهِ:" أَذْهِبْ الْبَاسْ رَبَّ النَّاسْ" وَأَحْسِبُهُ قَالَ , اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي" , قَالَ: وَكَانَ يَتْفُلُ.
سیدنا محمد بن حاطب سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میرے ہاتھ پر ایک ہانڈی گرگئی میری والدہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئی اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص جگہ پر تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے دعا فرمائی کہ اے لوگوں کے رب اس تکلیف کو دور فرما اور شاید یہ بھی فرمایا کہ تو اسے شفا عطا فرما کیونکہ شفا دینے والا تو ہی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد مجھ پر اپنا لعاب دہن لگایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن ابي العباس , ويونس بن محمد , قالا: حدثنا عبد الرحمن بن عثمان ، قال إبراهيم بن العباس في حديثه: ابن إبراهيم بن محمد بن حاطب، قال: حدثني ابي ، عن جده محمد بن حاطب ، عن امه ام جميل بنت المجلل، قالت: اقبلت بك من ارض الحبشة، حتى إذا كنت من المدينة على ليلة او ليلتين طبخت لك طبيخا، ففني الحطب، فخرجت اطلبه، فتناولت القدر فانكفات على ذراعك، فاتيت بك النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: بابي وامي يا رسول الله، هذا محمد بن حاطب فتفل في فيك، ومسح على راسك، ودعا لك، وجعل يتفل على يديك , ويقول:" اذهب الباس رب الناس، واشف انت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما" , فقالت: فما قمت بك من عنده، حتى برات يدك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ , وَيُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْعَبَّاسِ فِي حَدِيثِهِ: ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ جَمِيلٍ بِنْتِ الْمُجَلِّلِ، قَالَتْ: أَقْبَلْتُ بِكَ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى لَيْلَةٍ أَوْ لَيْلَتَيْنِ طَبَخْتُ لَكَ طَبِيخًا، فَفَنِيَ الْحَطَبُ، فَخَرَجْتُ أَطْلُبُهُ، فَتَنَاوَلْتَ الْقِدْرَ فَانْكَفَأَتْ عَلَى ذِرَاعِكَ، فَأَتَيْتُ بِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاطِبٍ فَتَفَلَ فِي فِيكَ، وَمَسَحَ عَلَى رَأْسِكَ، وَدَعَا لَكَ، وَجَعَلَ يَتْفُلُ عَلَى يَدَيْكَ , وَيَقُولُ:" أَذْهِبْ الْبَاسْ رَبَّ النَّاسْ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا" , فَقَالَتْ: فَمَا قُمْتُ بِكَ مِنْ عِنْدِهِ، حَتَّى بَرَأَتْ يَدُكَ.
سیدنا محمد بن حاطب کی والدہ ام جمیل کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں تمہیں سر زمین حبشہ سے لے کر آرہی تھی کہ جب میں مدینہ منورہ سے ایک یا دو راتوں کے فاصلے پر رہ گئی تو میں نے تمہارے لئے کھانا پکانا شروع کیا اسی اثناء میں لکڑیاں ختم ہو گئیں میں لکڑیوں کی تلاش میں نکلی تو تم نے ہانڈی اپنے ہاتھ پر گرا لی وہ الٹ کر تمہارے بازو پر گرگئی میں تمہیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اوعرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ محمد بن حاطب ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور تمہارے سر پر ہاتھ پھیرا اور تمہارے لئے برکت کی دعا فرمائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ہاتھ پر اپنا لعاب دہن ڈالتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے اے لوگوں کے رب اس تکلیف کو دور فرما اور شفا عطا فرما کیونکہ تو ہی شفا ہی دینے والا ہے تیرے علاوہ کسی کو شفا نہیں ہے ایسی شفاعطا فرما جو بیماری کا نام ونشان بھی نہ چھوڑے میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لے کر اٹھنے بھی نہیں پائی تھی کہ تمہارا ہاتھ ٹھیک ہو گیا۔
حكم دارالسلام: مرفوع صحيح ، وهذا اسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن عثمان، وروي عن أبيه أحاديث منكرة وفي أبيه لين
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن ابي العباس ، قال: حدثنا شريك ، عن سماك بن حرب ، عن محمد بن حاطب ، قال:" دببت إلى قدر وهي تغلي، فادخلت يدي فيها، فاحترقت، او قال فورمت يدي، فذهبت بي امي إلى رجل كان بالبطحاء، فقال شيئا، ونفث، فلما كان في إمرة عثمان، قلت لامي: من كان ذلك الرجل؟ قالت: رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالَ:" دَبَبْتُ إِلَى قِدْرٍ وَهِيَ تَغْلِي، فَأَدْخَلْتُ يَدِي فِيهَا، فَاحْتَرَقَتْ، أَوْ قَالَ فَوَرِمَتْ يَدِي، فَذَهَبَتْ بِي أُمِّي إِلَى رَجُلٍ كَانَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ شَيْئًا، وَنَفَثَ، فَلَمَّا كَانَ فِي إِمْرَةِ عُثْمَانَ، قُلْتُ لِأُمِّي: مَنْ كَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ؟ قَالَتْ: رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
محمد بن حاطب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں پاؤں کے بل چلتا ہوا ہانڈی کے پاس پہنچا وہ ابل رہی تھی میں نے اس میں ہاتھ ڈالا تو وہ سوج گیا یا جل گیا میری والدہ مجھے ایک شخص کے پاس لے گئی جو مقام بطحاء میں تھا اس نے کچھ پڑھا اور میرا ہاتھ پر تھنکا دیا سیدنا عثمان کے دور خلافت میں میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ وہ آدمی کون تھا انہوں نے بتایا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
سیدنا ابویزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں کو چھوڑ دو کہ انہیں ایک دوسرے سے رزق حاصل ہوالبتہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی کرنا چاہے تو اسے نصیحت کر دے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال حكيم بن أبى يزيد، وعطاء مختلط، وسماع والد عبدالصمد منه بعد اختلاطه، وقد اختلف فيه على عطاء
سیدنا کر دم بن سفیان کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس منتکا حکم پوچھا: جو انہوں نے زمانہ جاہلیت میں مانی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے وہ منت کسی بت یا پتھر کے لئے مانی تھی انہوں نے کہا نہیں بلکہ اللہ کے لئے مانی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم نے اللہ کے لئے جو منت مانی تھی اسے پورا کر و بونہ نامی جگہ پر جانور ذبح کر دو اور اپنی منت پوری کر و۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا اسناد ضعيف لجهالة أبى الحويرث حفص ، لكنه توبع، وعبدالله بن عبدالرحمن مختلف فيه، قيل لم يسمع من ميمونة