(حديث مرفوع) حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عبد الكريم ، عن عبد الله بن الحارث ، قال: زوجني ابي في إمارة عثمان، فدعا نفرا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء صفوان بن امية ، وهو شيخ كبير، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" انهسوا اللحم نهسا، فإنه اهنا وامرا، او اشهى وامرا" , قال سفيان: الشك مني او منه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: زَوَّجَنِي أَبِي فِي إِمَارَةِ عُثْمَانَ، فَدَعَا نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ صَفْوَانُ بْنُ أُمَيَّةَ ، وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" انْهَسُوا اللَّحْمَ نَهْسًا، فَإِنَّهُ أَهْنَأُ وَأَمْرَأُ، أَوْ أَشْهَى وَأَمْرَأُ" , قَالَ سُفْيَانُ: الشَّكُّ مِنِّي أَوْ مِنْهُ.
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان غنی کے دور خلافت میں میرے والد صاحب نے میری شادی کی اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ کو بھی دعوت دی ان میں سیدنا صفوان بن امیہ بھی تھے جو انتہائی بوڑھے ہو چکے تھے وہ آئے تو کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گوشت کو اونٹوں سے نوچ کر کھایا کر و یہ زیادہ خوشگوار اور زود ہضم ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالكريم
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا شريك ، عن عبد العزيز بن رفيع ، عن امية بن صفوان بن امية ، عن ابيه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم استعار منه يوم حنين ادراعا، فقال: اغصبا يا محمد؟ فقال:" بل عارية مضمونة" , قال: فضاع بعضها، فعرض عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم , ان يضمنها له، فقال: انا اليوم يا رسول الله في الإسلام ارغب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَارَ مِنْهُ يَوْمَ حُنَيْن أَدْرَاعًا، فَقَالَ: أَغَصْبًا يَا مُحَمَّدُ؟ فَقَالَ:" بَلْ عَارِيَةٌ مَضْمُونَةٌ" , قَالَ: فَضَاعَ بَعْضُهَا، فَعَرَضَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنْ يَضْمَنَهَا لَهُ، فَقَالَ: أَنَا الْيَوْمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي الْإِسْلَامِ أَرْغَبُ.
سیدنا صفوان بن امیہ سے مروی ہے کہ جنگ حنین کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کچھ زرہیں عاریتا طلب کیں اس وقت تک صفوان مسلمان نہ ہوئے تھے انہوں نے پوچھا کہ اے محمد غصب کی نیت سے لے رہے ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں عاریت کی نیت سے جس کا میں ضامن ہوں اتفاق سے ان میں سے کچھ زرہیں ضائع ہو گئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس تاوان کی پیش کش کی لیکن وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! آج مجھے اسلام میں زیادہ رغبت محسوس ہو رہی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك، وجهالة حال أمية بن صفوان، و لاضطرابه
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا , محمد بن ابي حفصة ، حدثنا الزهري ، عن صفوان بن عبد الله بن صفوان ، عن ابيه , ان صفوان بن امية بن خلف قيل له: هلك من لم يهاجر، قال: فقلت لا اصل إلى اهلي حتى آتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فركبت راحلتي، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله , زعموا انه هلك من لم يهاجر؟ قال:" كلا ابا وهب , فارجع إلى اباطح مكة" , قال: فبينما انا راقد , إذ جاء السارق، فاخذ ثوبي من تحت راسي، فادركته، فاتيت به النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن هذا سرق ثوبي، فامر به صلى الله عليه وسلم ان يقطع، قال: قلت: يا رسول الله، ليس هذا اردت، هو عليه صدقة، قال:" فهلا قبل ان تاتيني به؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا , مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ قِيلَ لَهُ: هَلَكَ مَنْ لَمْ يُهَاجِرْ، قَالَ: فَقُلْتُ لَا أَصِلُ إِلَى أَهْلِي حَتَّى آتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , زَعَمُوا أَنَّهُ هَلَكَ مَنْ لَمْ يُهَاجِرْ؟ قَالَ:" كَلَّا أَبَا وَهْبٍ , فَارْجِعْ إِلَى أَبَاطِحِ مَكَّةَ" , قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا رَاقِدٌ , إِذْ جَاءَ السَّارِقُ، فَأَخَذَ ثَوْبِي مِنْ تَحْتِ رَأْسِي، فَأَدْرَكْتُهُ، فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ هَذَا سَرَقَ ثَوْبِي، فَأَمَرَ بِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْطَعَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَيْسَ هَذَا أَرَدْتُ، هُوَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ، قَالَ:" فَهَلَّا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ؟".
سیدنا صفوان بن امیہ سے مروی ہے کہ ان سے کسی نے کہہ دیا کہ جو شخص ہجرت نہیں کرتا وہ ہلاک ہو گیا یہ سن کر میں نے کہا میں اس وقت تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا جب تک پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ مل آؤں چنانچہ میں اپنی سواری پر سوار ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جس شخص نے ہجرت نہیں کی وہ ہلاک ہو گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو وہب ایسی کوئی بات ہرگز نہیں ہے تم واپس مکہ کے بطحاء میں چلے جاؤ۔ ابھی میں مسجد نبوی میں سو رہا تھا کہ ایک چور آیا اور اس نے میرے سر کے نیچے سے کپڑانکال لیا اور چلتا بنا میں نے اس کا پیچھا کیا اور اسے پکڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا اور عرض کیا: کہ اس شخص نے میرا کپڑا چرایا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا یہ مقصد نہیں تھا کہ یہ کپڑا اس پر صدقہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ صدقہ کیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشاهذه، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه، فقد اختلف فيه على محمد بن أبي حفصة
سیدنا صفوان بن امیہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غزوہ حنین کے موقع پر مال غنیمت کا حصہ عطاء فرمایا: قبل ازیں مجھے ان سے سب سے زیادہ بغض تھا لیکن آپ نے مجھ پر اتنی بخشش اور کر م نوازی فرمائی کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو گئے۔
سیدنا صفوان بن امیہ سے مروی ہے کہ میں مسجد نبوی میں سو رہا تھا کہ ایک چور آیا اور اس نے میرے سر کے نیچے سے کپڑا نکال لیا اور چلتا بنا میں نے اس کا پیچھا کیا اور اسے پکڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا اور عرض کیا: کہ اس شخص نے میرا کپڑا چرایا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اسے معاف کرتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ معاف کر دیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشاهده، وهذا إسناد ضعيف، ابن أبى عروبة مختلط، وسماع محمد بن جعفر منه بعد أختلاطه، وطارق بن المرقع مجهول، وقد اختلف فيه على عطاء
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا ابن طاوس ، عن ابيه ، عن صفوان بن امية ، انه قيل له: لا يدخل الجنة إلا من هاجر، قال: فقلت: لا ادخل منزلي حتى آتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاساله، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن هذا سرق خميصة لي لرجل معه، فامر بقطعه، فقلت: يا رسول الله، فإني قد وهبتها له، قال:" فهلا قبل ان تاتيني به" , قال: قلت: يا رسول الله، إنهم يقولون: لا يدخل الجنة إلا من هاجر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا هجرة بعد فتح مكة، ولكن جهاد ونية، فإذا استنفرتم فانفروا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ ، أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ هَاجَرَ، قَالَ: فَقُلْتُ: لَا أَدْخُلُ مَنْزِلِي حَتَّى آتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْأَلَهُ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا سَرَقَ خَمِيصَةً لِي لِرَجُلٍ مَعَهُ، فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنِّي قَدْ وَهَبْتُهَا لَهُ، قَالَ:" فَهَلَّا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُمْ يَقُولُونَ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ هَاجَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا هِجْرَةَ بَعْدَ فَتْحِ مَكَّةَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، فَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا".
سیدنا صفوان بن امیہ سے مروی ہے کہ ان سے کسی نے کہہ دیا کہ جو شخص ہجرت نہیں کرتا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا یہ سن کر میں نے کہا میں اس وقت تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا جب تک پہلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ مل لوں چنانچہ میں اپنی سواری پر سوار ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جس شخص نے ہجرت نہیں کی وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فتح مکہ کے بعد ہجرت کا حکم نہیں رہا البتہ جہاد اور نیت باقی ہے اس لئے جب تم سے نکلنے کے لئے کہا جائے تو تم نکل پڑو۔ پھر میں نے ایک آدمی کے متعلق عرض کیا: کہ اس شخص نے میرا کپڑا چرایا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کپڑا اس پر صدقہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ صدقہ کیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشاهديه، واختلف فى طاووس هل سمع من صفوان بن أمية أم لا؟ واختلف فيه على طاوس أيضًا
سیدنا صفوان بن امیہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میں اپنے ہاتھ سے ہڈی سے گوشت اتار کر کھارہا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صفوان میں نے عرض کیا: لبیک فرمایا: گوشت کو اپنے منہ کے قریب لے کر جاؤ (اور منہ سے نوچ کر کھاؤ) کیونکہ یہ زیادہ خوشگوار اور زود ہضم ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن معاوية، وعثمان بن أبى سليمان لم يسمع من صفوان بن أمية