(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن إبراهيم الهجري ، قال: سمعت ابا الاحوص ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" اتدرون اي الصدقة افضل؟" قالوا: الله ورسوله اعلم. قال:" المنيحة، ان يمنح احدكم اخاه الدرهم، او ظهر الدابة، او لبن الشاة، او لبن البقرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ الْهَجَرِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَتَدْرُونَ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ:" الْمَنِيحَةُ، أَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ الدِّرْهَمَ، أَوْ ظَهْرَ الدَّابَّةِ، أَوْ لَبَنَ الشَّاةِ، أَوْ لَبَنَ الْبَقَرَةِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو کہ کون سا صدقہ سب سے افضل ہے؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ہدیہ جو تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو پیش کرے، خواہ وہ روپیہ پیسہ ہو، خواہ جانور کی پشت (سواری) ہو، خواہ بکری کا دودھ ہو، یا گائے کا دودھ۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل إبراهيم الهجري .
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا عاصم بن بهدلة ، وحدثنا منصور بن المعتمر ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بئسما لاحدهم او احدكم ان يقول: نسيت آية كيت وكيت، بل هو نسي، واستذكروا القرآن، فإنه اسرع تفصيا من صدور الرجال من النعم من عقلها"، قال: او قال:" من عقله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، وَحَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِئْسَمَا لِأَحَدِهِمْ أَوْ أَحَدِكُمْ أَنْ يَقُولَ: نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ، بَلْ هُوَ نُسِّيَ، وَاسْتَذْكِرُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ أَسْرَعُ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِهَا"، قَالَ: أَوْ قَالَ:" مِنْ عُقُلِهِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کسی آدمی کی یہ بات انتہائی بری ہے کہ وہ یوں کہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا، بلکہ اسے یوں کہنا چاہئے کہ اسے فلاں آیت بھلا دی گئی، اس قرآن کی حفاظت کیا کرو کیونکہ یہ لوگوں کے سینوں سے اتنی تیزی سے نکل جاتا ہے کہ جانور بھی اپنی رسی چھڑا کر اتنی تیزی سے نہیں بھاگتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن بهدلة ، عن ابي وائل يحدث، عن عبد الله ، قال: كنا نتكلم في الصلاة، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسلمت عليه، فلم يرد علي، فاخذني ما قدم وما حدث، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله يحدث لنبيه ما شاء قال شعبة: واحسبه قد قال: مما شاء، وإن مما احدث لنبيه صلى الله عليه وسلم، ان لا تكلموا في الصلاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا نَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، فَأَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدُثَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ لِنَبِيِّهِ مَا شَاءَ قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسَبُهُ قَدْ قَالَ: مِمَّا شَاءَ، وَإِنَّ مِمَّا أَحْدَثَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ لَا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلَاةِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابتدا میں ہم لوگ نماز کے دوران بات چیت اور سلام کر لیتے تھے اور ایک دوسرے کو ضرورت کے مطابق بتا دیتے تھے، ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، مجھے نئے پرانے خیالات نے گھیر لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ جو نیا حکم دینا چاہتا ہے دے دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ نیا حکم نازل فرمایا ہے کہ دوران نماز بات چیت نہ کیا کرو۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں، لوگوں نے پوچھا کہ کیا نماز میں اضافہ ہوگیا ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دو سجدے کر لئے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نماز عشا کے بعد باتیں کرنے کی اجازت کسی کو نہیں، سوائے دو آدمیوں کے، جو نماز پڑھ رہا ہو یا جو مسافر ہو۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، خيثمة بن عبد الرحمن لم يسمع من ابن مسعود.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي قيس ، عن هزيل بن شرحبيل ، قال: سال رجل ابا موسى الاشعري، عن امراة تركت ابنتها، وابنة ابنها، واختها؟ فقال: النصف للابنة، وللاخت النصف، وقال: ائت ابن مسعود، فإنه سيتابعني، قال: فاتوا ابن مسعود ، فاخبروه بقول ابي موسى، فقال: لقد ضللت إذا وما انا من المهتدين، لاقضين فيها بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم قال شعبة: وجدت هذا الحرف مكتوبا لاقضين فيها بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم:" للابنة النصف، ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين، وما بقي فللاخت". فاتوا ابا موسى، فاخبروه بقول ابن مسعود، فقال ابو موسى: لا تسالوني عن شيء ما دام هذا الحبر بين اظهركم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ، عَنِ امْرَأَةٍ تَرَكَتْ ابْنَتَهَا، وَابْنَةَ ابْنِهَا، وَأُخْتَهَا؟ فَقَالَ: النِّصْفُ لِلِابْنَةِ، وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ، وَقَالَ: ائْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ، فَإِنَّهُ سَيُتَابِعُنِي، قَالَ: فَأَتَوْا ابْنَ مَسْعُودٍ ، فَأَخْبَرُوهُ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، لَأَقْضِيَنَّ فِيهَا بِقَضَاءِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ شُعْبَةُ: وَجَدْتُ هَذَا الْحَرْفَ مَكْتُوبًا لَأَقْضِيَنَّ فِيهَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِلِابْنَةِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ". فَأَتَوْا أَبَا مُوسَى، فَأَخْبَرُوهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ.
ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر کسی شخص کے ورثاء میں ایک بیٹی، ایک پوتی اور ایک حقیقی بہن ہو تو تقسیم وراثت کس طرح ہوگی؟ انہوں نے جواب دیا کہ کل مال کا نصف بیٹی کو مل جائے گا اور دوسرا نصف بہن کو، اور تم سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر ان سے بھی یہ مسئلہ پوچھ لو، وہ ہماری موافقت اور تائید کریں گے، نچانچہ وہ شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ گیا اور ان سے وہ مسئلہ پوچھا اور سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ کا جواب بھی نقل کیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں نے بھی یہی فتوی دیا تو میں گمراہ ہو جاؤں گا اور ہدایت یافتگان میں سے نہ رہوں گا، میں وہی فیصلہ کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”بیٹی کو کل مال کا نصف ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ تاکہ دو ثلث مکمل ہو جائیں اور جو باقی بچے گا وہ بہن کو مل جائے گا۔“ لوگوں نے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر انہیں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے بتائی تو انہوں نے فرمایا: جب تک اتنے بڑے عالم تمہارے درمیان موجود ہیں تم مجھ سے سوال نہ پوچھا کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن جامع بن شداد ، قال: سمعت عبد الرحمن بن ابي علقمة ، قال: سمعت عبد الله بن مسعود ، قال: اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من الحديبية، فذكروا انهم نزلوا دهاسا من الارض يعني الدهاس: الرمل، فقال:" من يكلؤنا؟" فقال بلال: انا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذن تنم". قال: فناموا حتى طلعت الشمس، فاستيقظ ناس، منهم فلان وفلان، فيهم عمر، قال: فقلنا: اهضبوا يعني: تكلموا، قال: فاستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" افعلوا كما كنتم تفعلون"، قال: ففعلنا، قال: وقال:" كذلك فافعلوا، لمن نام او نسي"، قال: وضلت ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم فطلبتها، فوجدت حبلها قد تعلق بشجرة، فجئت بها إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فركب مسرورا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وكان النبي صلى الله عليه وسلم" إذا نزل عليه الوحي اشتد ذلك عليه، وعرفنا ذلك فيه، قال: فتنحى منتبذا خلفنا، قال: فجعل يغطي راسه بثوبه ويشتد ذلك عليه، حتى عرفنا انه قد انزل عليه، فاتانا، فاخبرنا انه قد انزل عليه: إنا فتحنا لك فتحا مبينا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي عَلْقَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَذَكَرُوا أَنَّهُمْ نَزَلُوا دَهَاسًا مِنَ الْأَرْضِ يَعْنِي الدَّهَاسَ: الرَّمْلَ، فَقَالَ:" مَنْ يَكْلَؤُنَا؟" فَقَالَ بِلَالٌ: أَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَنْ تَنَمْ". قَالَ: فَنَامُوا حَتَّى طَلَعَتْ الشَّمْسُ، فَاسْتَيْقَظَ نَاسٌ، مِنْهُمْ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فِيهِمْ عُمَرُ، قَالَ: فَقُلْنَا: اهْضِبُوا يَعْنِي: تَكَلَّمُوا، قَالَ: فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" افْعَلُوا كَمَا كُنْتُمْ تَفْعَلُونَ"، قَالَ: فَفَعَلْنَا، قَالَ: وَقَالَ:" كَذَلِكَ فَافْعَلُوا، لِمَنْ نَامَ أَوْ نَسِيَ"، قَالَ: وَضَلَّتْ نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَلَبْتُهَا، فَوَجَدْتُ حَبْلَهَا قَدْ تَعَلَّقَ بِشَجَرَةٍ، فَجِئْتُ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ مَسْرُورًا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ اشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ، وَعَرَفْنَا ذَلِكَ فِيهِ، قَالَ: فَتَنَحَّى مُنْتَبِذًا خَلْفَنَا، قَالَ: فَجَعَلَ يُغَطِّي رَأْسَهُ بِثَوْبِهِ وَيَشْتَدُّ ذَلِكَ عَلَيْهِ، حَتَّى عَرَفْنَا أَنَّهُ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَأَتَانَا، فَأَخْبَرَنَا أَنَّهُ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے رات کو واپس آ رہے تھے، ہم نے ایک نرم زمین پر پڑاؤ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہماری خبر گیری کون کرے گا؟ (فجر کے لئے کون جگائے گا؟)“ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم بھی سو گئے تو؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں سوؤں گا، اتفاق سے ان کی بھی آنکھ لگ گئی یہاں تک کہ سورج نکل آیا اور فلاں فلاں صاحب بیدار ہو گئے، ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے، انہوں نے سب کو اٹھایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیدار ہو گئے اور فرمایا: ”اسی طرح کرو جیسے کرتے تھے (نماز حسب معمول پڑھ لو)“ جب لوگ ایسا کر چکے تو فرمایا کہ ”اگر تم میں سے کوئی شخص سو جائے یا بھول جائے تو ایسے ہی کیا کرو۔“ اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہو گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کروایا تو وہ مجھے اس حال میں مل گئی کہ اس کی رسی ایک درخت سے الجھ گئی تھی، میں اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خوش و خرم سوار ہو گئے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو اس کی کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی شدید ہوتی تھی، اور ہم وہ کیفیت دیکھ کر پہچان لیتے تھے، چنانچہ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف کو ہو گئے اور اپنا سر مبارک کپڑے سے ڈھانپ لیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی کی کیفیت طاری ہو گئی جس سے ہم پہچان گئے کہ ان پر وحی نازل ہو رہی ہے، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے تو ہمیں بتایا کہ ان پر سورہ فتح نازل ہوئی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، عبدالرحمن الثقفي مختلف فى صحبته ، روى عنه جمع.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن حماد ، قال: سمعت ابا وائل ، يقول: قال عبد الله : كنا نقول في التحية: السلام على الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تقولوا: السلام على الله، فإن الله هو السلام، ولكن قولوا: التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : كُنَّا نَقُولُ فِي التَّحِيَّةِ: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُولُوا: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ، وَلَكِنْ قُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو ہم کہتے تھے کہ اللہ کو اس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں یہ کہتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ ”اللہ تو خود سراپا سلام ہے، اس لئے یہ کہنے کی بجائے یوں کہا کرو: «التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»”تمام قولی، فعلی اور بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکت کا نزول ہو، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن واصل الاحدب ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي الذنب اعظم؟ قال:" ان تجعل لله ندا وهو خلقك، وان تزاني بحليلة جارك، وان تقتل ولدك اجل ان ياكل معك، او ياكل طعامك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ:" أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ، وَأَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ، وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ أَجْلَ أَنْ يَأْكُلَ مَعَكَ، أَوْ يَأْكُلَ طَعَامَكَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا بالخصوص جبکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے، اس ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کر دینا کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھانے لگے گا، اور اپنے ہمسائے کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، قال: سمعت ابا وائل ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" إذا كنتم ثلاثة، فلا يتناجى اثنان دون صاحبهما، فإن ذلك يحزنه، ولا تباشر المراة المراة تنعتها لزوجها، كانه ينظر إليها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا، فَإِنَّ ذَلِكَ يَحْزُنُهُ، وَلَا تُبَاشِرُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ تَنْعَتُهَا لِزَوْجِهَا، كَأَنَّهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کرنے لگا کرو کیونکہ اس سے تیسرے کو غم ہو گا، اور کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ اپنا برہنہ جسم نہ لگائے کہ اپنے شوہر کے سامنے اس کی جسمانی ساخت اس طرح سے بیان کرے کہ گویا وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔“