(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن جامع بن شداد ، قال: سمعت عبد الرحمن بن ابي علقمة ، قال: سمعت عبد الله بن مسعود ، قال: اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من الحديبية، فذكروا انهم نزلوا دهاسا من الارض يعني الدهاس: الرمل، فقال:" من يكلؤنا؟" فقال بلال: انا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذن تنم". قال: فناموا حتى طلعت الشمس، فاستيقظ ناس، منهم فلان وفلان، فيهم عمر، قال: فقلنا: اهضبوا يعني: تكلموا، قال: فاستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" افعلوا كما كنتم تفعلون"، قال: ففعلنا، قال: وقال:" كذلك فافعلوا، لمن نام او نسي"، قال: وضلت ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم فطلبتها، فوجدت حبلها قد تعلق بشجرة، فجئت بها إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فركب مسرورا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وكان النبي صلى الله عليه وسلم" إذا نزل عليه الوحي اشتد ذلك عليه، وعرفنا ذلك فيه، قال: فتنحى منتبذا خلفنا، قال: فجعل يغطي راسه بثوبه ويشتد ذلك عليه، حتى عرفنا انه قد انزل عليه، فاتانا، فاخبرنا انه قد انزل عليه: إنا فتحنا لك فتحا مبينا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي عَلْقَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَذَكَرُوا أَنَّهُمْ نَزَلُوا دَهَاسًا مِنَ الْأَرْضِ يَعْنِي الدَّهَاسَ: الرَّمْلَ، فَقَالَ:" مَنْ يَكْلَؤُنَا؟" فَقَالَ بِلَالٌ: أَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَنْ تَنَمْ". قَالَ: فَنَامُوا حَتَّى طَلَعَتْ الشَّمْسُ، فَاسْتَيْقَظَ نَاسٌ، مِنْهُمْ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فِيهِمْ عُمَرُ، قَالَ: فَقُلْنَا: اهْضِبُوا يَعْنِي: تَكَلَّمُوا، قَالَ: فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" افْعَلُوا كَمَا كُنْتُمْ تَفْعَلُونَ"، قَالَ: فَفَعَلْنَا، قَالَ: وَقَالَ:" كَذَلِكَ فَافْعَلُوا، لِمَنْ نَامَ أَوْ نَسِيَ"، قَالَ: وَضَلَّتْ نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَلَبْتُهَا، فَوَجَدْتُ حَبْلَهَا قَدْ تَعَلَّقَ بِشَجَرَةٍ، فَجِئْتُ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ مَسْرُورًا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ اشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ، وَعَرَفْنَا ذَلِكَ فِيهِ، قَالَ: فَتَنَحَّى مُنْتَبِذًا خَلْفَنَا، قَالَ: فَجَعَلَ يُغَطِّي رَأْسَهُ بِثَوْبِهِ وَيَشْتَدُّ ذَلِكَ عَلَيْهِ، حَتَّى عَرَفْنَا أَنَّهُ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَأَتَانَا، فَأَخْبَرَنَا أَنَّهُ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے رات کو واپس آ رہے تھے، ہم نے ایک نرم زمین پر پڑاؤ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہماری خبر گیری کون کرے گا؟ (فجر کے لئے کون جگائے گا؟)“ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم بھی سو گئے تو؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں سوؤں گا، اتفاق سے ان کی بھی آنکھ لگ گئی یہاں تک کہ سورج نکل آیا اور فلاں فلاں صاحب بیدار ہو گئے، ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے، انہوں نے سب کو اٹھایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیدار ہو گئے اور فرمایا: ”اسی طرح کرو جیسے کرتے تھے (نماز حسب معمول پڑھ لو)“ جب لوگ ایسا کر چکے تو فرمایا کہ ”اگر تم میں سے کوئی شخص سو جائے یا بھول جائے تو ایسے ہی کیا کرو۔“ اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہو گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کروایا تو وہ مجھے اس حال میں مل گئی کہ اس کی رسی ایک درخت سے الجھ گئی تھی، میں اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خوش و خرم سوار ہو گئے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو اس کی کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی شدید ہوتی تھی، اور ہم وہ کیفیت دیکھ کر پہچان لیتے تھے، چنانچہ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف کو ہو گئے اور اپنا سر مبارک کپڑے سے ڈھانپ لیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی کی کیفیت طاری ہو گئی جس سے ہم پہچان گئے کہ ان پر وحی نازل ہو رہی ہے، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے تو ہمیں بتایا کہ ان پر سورہ فتح نازل ہوئی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، عبدالرحمن الثقفي مختلف فى صحبته ، روى عنه جمع.