(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثنا محمد بن كعب القرظي ، عمن حدثه، عن عبد الله بن مسعود، قال: بينا نحن معه يوم الجمعة في مسجد الكوفة، وعمار بن ياسر امير على الكوفة لعمر بن الخطاب، وعبد الله بن مسعود على بيت المال، إذ نظر عبد الله بن مسعود إلى الظل، فرآه قدر الشراك، فقال:" إن يصب صاحبكم سنة نبيكم صلى الله عليه وسلم يخرج الآن، قال: فوالله ما فرغ عبد الله بن مسعود من كلامه حتى خرج عمار بن ياسر، يقول: الصلاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ، وَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ أَمِيرٌ عَلَى الْكُوفَةِ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ عَلَى بَيْتِ الْمَالِ، إِذْ نَظَرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِلَى الظِّلِّ، فَرَآهُ قَدْرَ الشِّرَاكِ، فَقَالَ:" إِنْ يُصِبْ صَاحِبُكُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجْ الْآنَ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا فَرَغَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ مِنْ كَلَامِهِ حَتَّى خَرَجَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ، يَقُولُ: الصَّلَاةَ".
مروی ہے کہ ایک مرتبہ کوفہ کی جامع مسجد میں جمعہ کے دن لوگ اکٹھے تھے، اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کوفہ کے گورنر تھے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وزیر خزانہ تھے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سائے کو دیکھا تو وہ تسمہ کے برابر ہو چکا تھا، وہ فرمانے لگے کہ اگر تمہارے ساتھی (گورنر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ابھی نکل آئیں گے، واللہ! سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نماز، نماز کہتے ہوئے باہر نکل آئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الشيخ الذي روى عنه محمد القرظي.
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وحدثني عبد الرحمن بن الاسود بن يزيد النخعي ، عن ابيه ، قال: دخلت انا وعمي علقمة على عبد الله بن مسعود بالهاجرة، قال:" فاقام الظهر ليصلي، فقمنا خلفه، فاخذ بيدي ويد عمي، ثم جعل احدنا عن يمينه، والآخر عن يساره، ثم قام بيننا، فصففنا خلفه صفا واحدا، قال: ثم قال: هكذا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع إذا كانوا ثلاثة، قال: فصلى بنا، فلما ركع طبق والصق ذراعيه بفخذيه، وادخل كفيه بين ركبتيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ النَّخَعِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعَمِّي عَلْقَمَةُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ بِالْهَاجِرَةِ، قَالَ:" فَأَقَامَ الظُّهْرَ لِيُصَلِّيَ، فَقُمْنَا خَلْفَهُ، فَأَخَذَ بِيَدِي وَيَدِ عَمِّي، ثُمَّ جَعَلَ أَحَدَنَا عَنْ يَمِينِهِ، وَالْآخَرَ عَنْ يَسَارِهِ، ثُمَّ قَامَ بَيْنَنَا، فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ صَفًّا وَاحِدًا، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةً، قَالَ: فَصَلَّى بِنَا، فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ وَأَلْصَقَ ذِرَاعَيْهِ بِفَخِذَيْهِ، وَأَدْخَلَ كَفَّيْهِ بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ".
اسود کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دوپہر کے وقت میں علقمہ کے ساتھ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، نماز کھڑی ہوئی تو ہم دونوں ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھ سے مجھے پکڑا اور ایک ہاتھ سے میرے ساتھی کو اور ہمیں آگے کھینچ لیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص ایک کونے پر ہو گیا اور وہ خود ہمارے درمیان کھڑے ہو گئے، پھر انہوں نے فرمایا کہ جب تین آدمی ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے، پھر ہمیں نماز پڑھا کر فرمایا: عنقریب ایسے حکمران آئیں گے جو نماز کو اس کے وقت مقررہ سے مؤخر کر دیا کریں گے، تم ان کا انتظار مت کرنا، اور ان کے ساتھ نوافل کی نیت سے شریک ہو جایا کرنا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م: 534، وهذا إسناد حسن لأجل ابن إسحاق.
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثنا الحارث بن فضيل الانصاري ثم الخطمي ، عن سفيان بن ابي العوجاء السلمي، عن ابي شريح الخزاعي ، قال: كسفت الشمس في عهد عثمان بن عفان، وبالمدينة عبد الله بن مسعود، قال: فخرج عثمان، فصلى بالناس تلك الصلاة ركعتين وسجدتين في كل ركعة، قال: ثم انصرف عثمان، فدخل داره، وجلس عبد الله بن مسعود إلى حجرة عائشة، وجلسنا إليه، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" يامرنا بالصلاة عند كسوف الشمس والقمر، فإذا رايتموه قد اصابهما، فافزعوا إلى الصلاة، فإنها إن كانت التي تحذرون، كانت وانتم على غير غفلة، وإن لم تكن، كنتم قد اصبتم خيرا، واكتسبتموه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ فُضَيْلٍ الْأَنْصَارِيُّ ثُمَّ الْخَطْمِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي الْعَوْجَاءِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: كَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَبِالْمَدِينَةِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: فَخَرَجَ عُثْمَانُ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ تِلْكَ الصَّلَاةَ رَكْعَتَيْنِ وَسَجْدَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، قَالَ: ثُمَّ انْصَرَفَ عُثْمَانُ، فَدَخَلَ دَارَهُ، وَجَلَسَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ، وَجَلَسْنَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ عِنْدَ كُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ قَدْ أَصَابَهُمَا، فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ، فَإِنَّهَا إِنْ كَانَتْ الَّتِي تَحْذَرُونَ، كَانَتْ وَأَنْتُمْ عَلَى غَيْرِ غَفْلَةٍ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ، كُنْتُمْ قَدْ أَصَبْتُمْ خَيْرًا، وَاكْتَسَبْتُمُوهُ".
ابوشریح خزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سورج گرہن ہوا، مدینہ منورہ میں اس وقت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی تھے، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نکلے اور لوگوں کو سورج گرہن کی نماز ہر رکعت میں دو رکوعوں اور دو سجدوں کے ساتھ پڑھائی، اور نماز پڑھا کر اپنے گھر واپس تشریف لے گئے جبکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس ہی بیٹھ گئے، ہم بھی ان کے گرد بیٹھ گئے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سورج اور چاند گرہن کے وقت نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے، اس لئے جب تم ان دونوں کو گرہن لگتے ہوئے دیکھو تو فورا نماز کی طرف متوجہ ہو جایا کرو، اس لئے کہ اگر یہ وہی بات ہوئی جس سے تمہیں ڈرایا جاتا ہے (اور تم نماز پڑھ رہے ہو) تو تم غفلت میں نہ ہو گے، اور اگر یہ وہی علامت قیامت نہ ہوئی تب بھی تم نے نیکی کا کام کیا اور بھلائی کمائی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف سفيان بن أبي العوجاء السلمي.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ گویا گرم پتھر پر بیٹھے ہوں، میں نے پوچھا: کھڑے ہونے تک؟ فرمایا: ہاں!
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبن مسعود.
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابيه ، عن ابي عبيدة بن عبد الله ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان في الركعتين كانه على الرضف، وربما قال: الاوليين، قال: قلت لابي: حتى يقوم؟ قال: حتى يقوم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ، وَرُبَّمَا قَالَ: الْأُولَيَيْنِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي: حَتَّى يَقُومَ؟ قَالَ: حَتَّى يَقُومَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ گویا گرم پتھر پر بیٹھے ہوں، میں نے پوچھا: کھڑے ہونے تک؟ فرمایا: ہاں!
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من ابن مسعود.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ گویا گرم پتھر پر بیٹھے ہوں، میں نے پوچھا: کھڑے ہونے تک؟ فرمایا: ہاں!
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من ابن مسعود.
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا شيبان ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن عبيدة السلماني ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن آخر اهل الجنة دخولا الجنة، وآخر اهل النار خروجا من النار، رجل يخرج من النار حبوا، فيقول الله عز وجل له: اذهب فادخل الجنة، فياتيها فيخيل إليه انها ملاى، فيرجع، فيقول: يا رب، وجدتها ملاى، فيقول: اذهب فادخل الجنة، فياتيها، فيخيل إليه انها ملاى، فيرجع، فيقول: يا رب، قد وجدتها ملاى، فيقول: اذهب فادخل الجنة، فياتيها، فيخيل إليه انها ملاى، فيرجع إليه، فيقول: يا رب، وجدتها ملاى، ثلاثا، فيقول: اذهب، فإن لك مثل الدنيا وعشرة امثالها، او عشرة امثال الدنيا، قال: يقول: يا رب، اتضحك مني وانت الملك؟ قال: وكان يقال: هذا ادنى اهل الجنة منزلة".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شَيْبَان ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ آخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، وَآخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنَ النَّارِ، رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ حَبْوًا، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ: اذْهَبْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ، فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَجَدْتُهَا مَلْأَى، فَيَقُولُ: اذْهَبْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ، فَيَأْتِيهَا، فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، قَدْ وَجَدْتُهَا مَلْأَى، فَيَقُولُ: اذْهَبْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ، فَيَأْتِيهَا، فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ إِلَيْهِ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَجَدْتُهَا مَلْأَى، ثَلَاثًا، فَيَقُولُ: اذْهَبْ، فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا، أَوْ عَشَرَةَ أَمْثَالِ الدُّنْيَا، قَالَ: يَقُولُ: يا رَبِّ، أَتَضْحَكُ مِنِّي وَأَنْتَ الْمَلِكُ؟ قَالَ: وَكَانَ يُقَالُ: هَذَا أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا وہ شخص ہو گا جو جہنم میں سے سب سے آخر میں نکلے گا، وہ ایک شخص ہو گا جو اپنی سرین کے بل گھستا ہوا جہنم سے نکلے گا، اس سے کہا جائے گا کہ ”جا، جنت میں داخل ہو جا“، وہ جنت میں داخل ہو گا تو اسے خیال آئے گا کہ سب لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں میں پہنچ چکے اور جنت تو بھر چکی، وہ لوٹ کر عرض کرے گا: پروردگار! جنت تو بھر چکی ہے (میں کہاں جاؤں؟) اس سے کہا جائے گا کہ ”جا، جنت میں داخل ہو جا“، تین مرتبہ اسی طرح ہو گا، پھر اللہ اس سے فرمائے گا کہ ”جا، تجھے دنیا اور اس سے دس گنا زیادہ عطا کیا جاتا ہے“، وہ عرض کرے گا: پروردگار! تو بادشاہ ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ یہ شخص تمام اہل جنت میں سب سے کم تر درجہ کا آدمی ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا زياد بن عبد الله البكائي ، حدثنا منصور ، عن سالم ، عن ابيه ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من احد إلا وقد وكل به قرينه من الجن"، قالوا: وانت يا رسول الله، قال:" وانا، إلا ان الله اعانني عليه فاسلم، فليس يامرني إلا بخير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَكَّائِيُّ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ"، قَالُوا: وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" وَأَنَا، إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ، فَلَيْسَ يَأْمُرُنِي إِلَّا بِخَيْرٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کے ساتھ جنات میں سے ایک ہم نشین مقرر کیا گیا ہے“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کے ساتھ بھی؟ فرمایا: ”ہاں! لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی اس لئے اب وہ مجھے صرف حق بات کا ہی حکم دیتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا الوليد بن القاسم بن الوليد ، حدثنا إسرائيل ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: وسمع عبد الله بخسف، قال: كنا اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم نعد الآيات بركة، وانتم تعدونها تخويفا، إنا بينا نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وليس معنا ماء، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اطلبوا من معه"، يعني ماء، ففعلنا، فاتي بماء فصبه في إناء، ثم وضع كفيه فيه، فجعل الماء يخرج من بين اصابعه، ثم قال:" حي على الطهور المبارك، والبركة من الله"، فملات بطني منه، واستسقى الناس، قال عبد الله: قد كنا نسمع تسبيح الطعام وهو يؤكل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: وَسَمِعَ عَبْدُ اللَّهِ بِخَسْفٍ، قَالَ: كُنَّا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعُدُّ الْآيَاتِ بَرَكَةً، وَأَنْتُمْ تَعُدُّونَهَا تَخْوِيفًا، إِنَّا بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ مَعَنَا مَاءٌ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اطْلُبُوا مَنْ مَعَهُ"، يَعْنِي مَاءً، فَفَعَلْنَا، فَأُتِيَ بِمَاءٍ فَصَبَّهُ فِي إِنَاءٍ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّيْهِ فِيهِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ، ثُمَّ قَالَ:" حَيَّ عَلَى الطَّهُورِ الْمُبَارَكِ، وَالْبَرَكَةُ مِنَ اللَّهِ"، فَمَلَأْتُ بَطْنِي مِنْهُ، وَاسْتَسْقَى النَّاسُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں معجزات کو برکات سمجھتے تھے اور تم ان سے خوف محسوس کرتے ہو، دراصل سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دشمن کے زمین میں دھنسنے کی خبر سنی تھی، وہ مزید فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، پانی نہیں مل رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی کا ایک برتن پیش کیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس میں ڈالا اور انگلیاں کشادہ کر کے کھول دیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی کے چشمے بہہ پڑے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے: ”وضو کے لئے آؤ، یہ برکت اللہ کی طرف سے ہے“، میں نے اس سے اپنا پیٹ بھرا اور لوگوں نے بھی اسے پیا، وہ مزید فرماتے ہیں کہ ہم لوگ کھانے کی تسبیح سنتے تھے حالانکہ لوگ اسے کھا رہے ہوتے تھے۔