سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اسلام کی چکی پئنتیس (35)، چھتیس (36) یا سئنتیس (37) سال تک گھومتی رہے گی، اس کے بعد اگر مسلمان ہلاک ہوئے تو ہلاک ہونے والوں کی راہ پر چلے جائیں گے اور اگر باقی بچ گئے تو ستر سال تک ان کا دین باقی رہے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا شعبة ، عن السدي ، عن مرة ، عن عبد الله ، قال: ابي شعبة رفعه، وانا لا ارفعه لك، في قول الله عز وجل: ومن يرد فيه بإلحاد بظلم نذقه من عذاب اليم سورة الحج آية 25، قال:" لو ان رجلا هم فيه بإلحاد وهو بعدن ابين، لاذاقه الله عذابا اليما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ السُّدِّيِّ ، عَنْ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: أَبِي شُعْبَةُ رَفَعَهُ، وَأَنَا لَا أَرْفَعُهُ لَكَ، فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ سورة الحج آية 25، قَالَ:" لَوْ أَنَّ رَجُلًا هَمَّ فِيهِ بِإِلْحَادٍ وَهُوَ بِعَدَنِ أَبْيَنَ، لَأَذَاقَهُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے آیت قرآنی: «﴿وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ﴾»[الحج: 25] کی تفسیر میں منقول ہے کہ جو شخص حرم مکہ میں الحاد کا ارادہ کرے خواہ وہ ”عدن ابین“ میں رہتا ہو اللہ اسے دردناک عذاب ضرور چکھائے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، روي مرفوعا وموقوفا، والموقوف أصح.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، قيل: يا رسول الله، كيف تعرف من لم تر من امتك يوم القيامة؟ قال:" هم غر محجلون، بلق من آثار الوضوء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ تَرَ مِنْ أُمَّتِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ:" هُمْ غُرٌّ مُحَجَّلُونَ، بُلْقٌ مِنْ آثَارِ الْوُضُوءِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے اپنے جن امتیوں کو نہیں دیکھا، انہیں آپ کیسے پہچانیں گے؟ فرمایا: ”ان کی پیشانیاں وضو کے آثار کی وجہ سے انتہائی روشن اور چمکدار ہوں گی جیسے چتکبرا گھوڑا ہوتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن من أجل عاصم.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا فضيل بن مرزوق ، حدثنا ابو سلمة الجهني ، عن القاسم بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما قال عبد قط إذا اصابه هم وحزن: اللهم إني عبدك، وابن عبدك، وابن امتك، ناصيتي بيدك، ماض في حكمك، عدل في قضاؤك، اسالك بكل اسم هو لك، سميت به نفسك، او انزلته في كتابك، او علمته احدا من خلقك، او استاثرت به في علم الغيب عندك، ان تجعل القرآن ربيع قلبي، ونور صدري، وجلاء حزني، وذهاب همي، إلا اذهب الله عز وجل همه، وابدله مكان حزنه فرحا"، قالوا: يا رسول الله، ينبغي لنا ان نتعلم هؤلاء الكلمات؟ قال:" اجل، ينبغي لمن سمعهن ان يتعلمهن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْجُهَنِيُّ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا قَالَ عَبْدٌ قَطُّ إِذَا أَصَابَهُ هَمٌّ وَحَزَنٌ: اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، وَابْنُ عَبْدِكَ، وَابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي، إِلَّا أَذْهَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَمَّهُ، وَأَبْدَلَهُ مَكَانَ حُزْنِهِ فَرَحًا"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَتَعَلَّمَ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ؟ قَالَ:" أَجَلْ، يَنْبَغِي لِمَنْ سَمِعَهُنَّ أَنْ يَتَعَلَّمَهُنَّ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کو جب کبھی کوئی مصیبت یا غم لاحق ہو اور وہ یہ کلمات کہہ لے تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت اور غم کو دور کر کے اس کی جگہ خوشی عطاء فرمائیں گے، وہ کلمات یہ ہیں: «اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي وَجِلَاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي»”اے اللہ! میں آپ کا غلام ابن غلام ہوں، آپ کی باندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی آپ کے ہاتھ میں ہے، میری ذات پر آپ ہی کا حکم چلتا ہے، میری ذات کے متعلق آپ کا فیصلہ عدل و انصاف والا ہے، میں آپ کو آپ کے ہر اس نام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو آپ نے اپنے لئے خود تجویز کیا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ نام سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا، کہ آپ قرآن کریم کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور، غم میں روشنی اور پریشانی کی دوری کا ذریعہ بنا دیں“، لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم اس دعا کو سیکھ لیں؟ فرمایا: ”کیوں نہیں، جو بھی اس دعا کو سنے اس کے لئے مناسب ہے کہ اسے سیکھ لے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف كما قال الدارقطني فى العدل 5 / 201 ، أبو سلمة الجهني لم يتبين لأئمة الجرح والتعديل من هو، فهو فى عداد المجهولين.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا حماد بن زيد ، حدثنا فرقد السبخي ، قال: حدثنا جابر بن يزيد ، انه سمع مسروقا يحدث، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" إني كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها، ونهيتكم ان تحبسوا لحوم الاضاحي فوق ثلاث فاحبسوا، ونهيتكم عن الظروف فانبذوا فيها، واجتنبوا كل مسكر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا فَرْقَدٌ السَّبَخِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ ، أَنَّهُ سَمِعَ مَسْرُوقًا يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَنَهَيْتُكُمْ أَنْ تَحْبِسُوا لُحُومَ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ فَاحْبِسُوا، وَنَهَيْتُكُمْ عَنِ الظُّرُوفِ فَانْبِذُوا فِيهَا، وَاجْتَنِبُوا كُلَّ مُسْكِرٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تمہیں پہلے قبرستان جانے سے منع کیا تھا، اب اجازت دیتا ہوں لہذا تم قبرستان جایا کرو، میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اپنے پاس رکھنے سے منع کیا تھا، اب رکھ سکتے ہو، نیز میں نے تمہیں مختلف برتنوں کے استعمال سے روکا تھا، اب تم اسے نبیذ پینے کے لئے استعمال کر سکتے ہو، البتہ ہر نشہ آور چیز سے بچتے رہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف فرقد، وجابر بن يزيد، لعله الجعفي، وهو ضعيف أيضا، وله شاهد من حديث بريدة عند مسلم: 1977.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”زمین میں اللہ کے کچھ فرشتے گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھے پہنچاتے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا معاذ ، حدثنا ابن عون. ح وابن ابي عدي ، عن ابن عون ، حدثني مسلم البطين ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن عمرو بن ميمون ، قال: ما اخطاني، او قلما اخطاني ابن مسعود خميسا قال ابن ابي عدي: عشية خميس، إلا اتيته، قال: فما سمعته لشيء قط يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما كان ذات عشية، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ابن ابي عدي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" فنكس، قال: فنظرت إليه وهو قائم، محلول ازرار قميصه، قد اغرورقت عيناه، وانتفخت اوداجه، فقال: او دون ذاك، او فوق ذاك، او قريبا من ذاك، او شبيها بذاك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ. ح وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، حَدَّثَنِي مُسْلِمٌ الْبَطِينُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ: مَا أَخْطَأَنِي، أَوْ قَلَّمَا أَخْطَأَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ خَمِيسًا قَالَ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ: عَشِيَّةَ خَمِيسٍ، إِلَّا أَتَيْتُهُ، قَالَ: فَمَا سَمِعْتُهُ لِشَيْءٍ قَطُّ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ عَشِيَّةٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" فَنَكَسَ، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ قَائِمٌ، مَحْلُولٌ أَزْرَارُ قَمِيصِهِ، قَدْ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ، وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ، فَقَالَ: أَوْ دُونَ ذَاكَ، أَوْ فَوْقَ ذَاكَ، أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَاكَ، أَوْ شَبِيهًا بِذَاكَ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوا کہ جمعرات کا دن آیا ہو اور میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر نہ ہوا ہوں، اس مجلس میں میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو کبھی یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اس مجلس میں وہ حدیث بیان نہیں کرتے تھے)، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اس مجلس میں ان کے منہ سے نکل گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ کہہ کر انہوں نے سر جھکا لیا، میں نے دیکھا تو وہ کھڑے ہوگئے تھے، قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے، آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور رگیں پھول گئیں اور کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کم فرمایا، یا زیادہ فرمایا، یا اس کے قریب قریب فرمایا، یا اس کے مشابہہ کوئی جملہ فرمایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، عن ابن مسعود ، قال: اقراني رسول الله صلى الله عليه وسلم سورة الاحقاف، واقراها آخر، فخالفني في آية منها، فقلت: من اقراك، قال: اقراني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت له: لقد اقراني رسول الله صلى الله عليه وسلم كذا وكذا، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعنده رجل، فقلت: يا رسول الله، الم تقرئني كذا وكذا؟ قال:" بلى"، قال الآخر: الم تقرئني كذا وكذا؟ قال:" بلى"، فتمعر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال الرجل الذي عنده: ليقرا كل واحد منكما كما سمع، فإنما" هلك او اهلك من كان قبلكم بالاختلاف"، فما ادري، اامره بذاك، او شيء قاله من قبله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ الْأَحْقَافِ، وَأَقْرَأَهَا آخَرَ، فَخَالَفَنِي فِي آيَةٍ مِنْهَا، فَقُلْتُ: مَنْ أَقْرَأَكَ، قَالَ: أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: لَقَدْ أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا وَكَذَا، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ رَجُلٌ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَمْ تُقْرِئْنِي كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ:" بَلَى"، قَالَ الْآخَرُ: أَلَمْ تُقْرِئْنِي كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ:" بَلَى"، فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الرَّجُلُ الَّذِي عِنْدَهُ: لِيَقْرَأْ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا كَمَا سَمِعَ، فَإِنَّمَا" هَلَكَ أَوْ أُهْلِكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالِاخْتِلَافِ"، فَمَا أَدْرِي، أَأَمَرَهُ بِذَاكَ، أَوْ شَيْءٍ قَالَهُ مِنْ قِبَلِهِ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سورہ احقاف پڑھائی اور ایک دوسرے آدمی کو بھی پڑھائی، اس نے ایک آیت میں مجھ سے اختلاف کیا، میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں یہ سورت کس نے پڑھائی ہے؟ اس نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا کہ مجھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس اس طرح پڑھائی ہے، پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ نے مجھے اس اس طرح نہیں پڑھایا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں“، اس دوسرے آدمی نے بھی یہی پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی یہی جواب دیا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، وہ کہنے لگا کہ تم میں سے ہر شخص اس طرح پڑھا کرے جیسے اس نے سنا ہو کیونکہ تم سے پہلے لوگ اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے، مجھے معلوم نہیں کہ اسے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی تھی یا اس نے اپنے پاس سے کہی تھی۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تنہا نماز پڑھنے پر جماعت کے نماز پڑھنے کی فضیلت پچیس درجے زیادہ ہے، اور ہر درجہ اس کی نماز کے برابر ہو گا۔“