(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن الاسود وعلقمة ، عن عبد الله ، قال:" إذا ركع احدكم فليفرش ذراعيه فخذيه، وليجنا، ثم طبق بين كفيه، فكاني انظر إلى اختلاف اصابع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ثم طبق كفيه، فاراهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ وَعَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" إِذَا رَكَعَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْرِشْ ذِرَاعَيْهِ فَخِذَيْهِ، وَلْيَجْنَأْ، ثُمَّ طَبَّقَ بَيْنَ كَفَّيْهِ، فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى اخْتِلَافِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ طَبَّقَ كَفَّيْهِ، فَأَرَاهُمْ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص رکوع کرے تو اپنے بازؤوں کو اپنی رانوں پر بچھا لے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو جوڑ لے، گویا میں اب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منتشر انگلیاں دیکھ رہا ہوں، یہ کہہ کر انہوں نے دونوں ہتھیلیوں کو رکوع کی حالت میں جوڑ کر دکھایا، (یہ حکم منسوخ ہو چکا ہے)۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: لما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم سورة الانعام آية 82 شق ذلك على الناس، وقالوا: يا رسول الله، فاينا لا يظلم نفسه؟ قال:" إنه ليس الذي تعنون، الم تسمعوا ما قال العبد الصالح: يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم سورة لقمان آية 13 إنما هو الشرك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ، وَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ؟ قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ الَّذِي تَعْنُونَ، أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13 إِنَّمَا هُوَ الشِّرْكُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: «﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ . . . . .﴾ [الأنعام: 82] »”وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا . . . . .“ تو لوگوں پر یہ بات بڑی شاق گزری اور وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کون شخص ہے جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا وہ مطلب نہیں ہے جو تم مراد لے رہے ہو، کیا تم نے وہ بات نہیں سنی جو عبد صالح (حضرت لقمان علیہ السلام) نے فرمائی تھی کہ ”پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے“، اس آیت میں بھی شرک ہی مراد ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ،، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم من اهل الكتاب، فقال: يا ابا القاسم، ابلغك ان الله عز وجل يحمل الخلائق على اصبع، والسموات على اصبع، والارضين على اصبع، والشجر على اصبع، والثرى على اصبع؟!" فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه"، فانزل الله عز وجل وما قدروا الله حق قدره سورة الانعام آية 91 الآية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ،، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، أَبَلَغَكَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَحْمِلُ الْخَلَائِقَ عَلَى أُصْبُعٍ، وَالسَّمَوَاتِ عَلَى أُصْبُعٍ، وَالْأَرَضِينَ عَلَى أُصْبُعٍ، وَالشَّجَرَ عَلَى أُصْبُعٍ، وَالثَّرَى عَلَى أُصْبُعٍ؟!" فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ سورة الأنعام آية 91 الْآيَةَ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل کتاب میں سے ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، تمام آسمانوں کو ایک انگلی پر، تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، تمام درختوں کو ایک انگلی پر اور ساری نمناک مٹی کو ایک انگلی پر اٹھا لے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی یہ بات سن کر اتنا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے اور اسی پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهِ﴾ [الزمر: 67] »”انہوں نے اللہ کی اس طرح قدر نہ کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، انه قرا سورة يوسف بحمص، فقال رجل: ما هكذا انزلت! فدنا منه عبد الله، فوجد منه ريح الخمر، فقال: اتكذب بالحق، وتشرب الرجس؟! لا ادعك حتى اجلدك حدا، قال: فضربه الحد، وقال: والله، لهكذا اقرانيها رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ قَرَأَ سُورَةَ يُوسُفَ بِحِمْصَ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا هَكَذَا أُنْزِلَتْ! فَدَنَا مِنْهُ عَبْدُ اللَّهِ، فَوَجَدَ مِنْهُ رِيحَ الْخَمْرِ، فَقَالَ: أَتُكَذِّبُ بِالْحَقِّ، وَتَشْرَبُ الرِّجْسَ؟! لَا أَدَعُكَ حَتَّى أَجْلِدَكَ حَدًّا، قَالَ: فَضَرَبَهُ الْحَدَّ، وَقَالَ: وَاللَّهِ، لَهَكَذَا أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ حمص نامی شہر میں سورہ یوسف کی تلاوت فرما رہے تھے کہ ایک آدمی کہنے لگا کہ یہ سورت اس طرح نازل نہیں ہوئی ہے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس کے قریب گئے تو اس کے منہ سے شراب کی بدبو آئی، انہوں نے فرمایا کہ تو حق کی تکذیب کرتا ہے اور شراب بھی پیتا ہے؟ واللہ! میں تجھ پر حد جاری کئے بغیر تجھے نہیں چھوڑوں گا، چنانچہ انہوں نے اس پر حد جاری کی اور فرمایا: واللہ! مجھے یہ سورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح پڑھائی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: كنت امشي مع عبد الله بمنى، فلقيه عثمان، فقام معه يحدثه، فقال له عثمان: يا ابا عبد الرحمن، الا نزوجك جارية شابة، لعلها ان تذكرك ما مضى من زمانك؟ فقال عبد الله : اما لئن قلت ذاك، لقد قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة، فليتزوج، فإنه اغض للبصر، واحصن للفرج، ومن لم يستطع، فعليه بالصوم، فإنه له وجاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بِمِنًى، فَلَقِيَهُ عُثْمَانُ، فَقَامَ مَعَهُ يُحَدِّثُهُ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَلَا نُزَوِّجُكَ جَارِيَةً شَابَّةً، لَعَلَّهَا أَنْ تُذَكِّرَكَ مَا مَضَى مِنْ زَمَانِكَ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : أَمَا لَئِنْ قُلْتَ ذَاكَ، لَقَدْ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ، فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ".
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ منیٰ کے میدان میں، میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ چلا جا رہا تھا کہ را سے میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی، وہ ان کے ساتھ کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: اے ابوعبدالرحمن! کیا ہم آپ کی شادی کسی نوجوان لڑکی سے نہ کرا دیں تاکہ وہ ماضی کی باتیں یاد کرایا کرے؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ نے تو یہ بات کہی ہے، ہم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”اے گروہ نوجواناں! تم میں سے جس میں نکاح کرنے کی صلاحیت ہو، اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ نکاح نگاہوں کو جھکانے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے، اور جو شخص نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اسے روزہ رکھنا اپنے اوپر لازم کر لینا چاہیے کیونکہ روزہ انسانی شہوت کو توڑ دیتا ہے۔“
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے میدان منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی منیٰ میں دو رکعتیں پڑھی ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عبيدة ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خير الناس قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم ياتي بعد ذلك قوم تسبق شهاداتهم ايمانهم، وايمانهم شهاداتهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَاتُهُمْ أَيْمَانَهُمْ، وَأَيْمَانُهُمْ شَهَادَاتِهِمْ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، اس کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جس کی گواہی قسم سے آگے بڑھ جائے گی اور قسم گواہی سے آگے بڑھ جائے گی۔“
(حديث قدسي) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عبيدة ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنني لاعرف آخر اهل النار خروجا من النار، رجل يخرج منها زحفا، فيقال له: انطلق فادخل الجنة، قال: فيذهب يدخل، فيجد الناس قد اخذوا المنازل، قال: فيرجع، فيقول: يا رب، قد اخذ الناس المنازل، قال: فيقال له: اتذكر الزمان الذي كنت فيه؟ قال: فيقول: نعم، فيقال له: تمنه، فيتمنى، فيقال: إن لك الذي تمنيت، وعشرة اضعاف الدنيا، قال: فيقول: اتسخر بي وانت الملك؟!" قال: فلقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك حتى بدت نواجذه.(حديث قدسي) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّنِي لَأَعْرِفُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنَ النَّارِ، رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنْهَا زَحْفًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْطَلِقْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيَذْهَبُ يَدْخُلُ، فَيَجِدُ النَّاسَ قَدْ أَخَذُوا الْمَنَازِلَ، قَالَ: فَيَرْجِعُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، قَدْ أَخَذَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ، قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: أَتَذْكُرُ الزَّمَانَ الَّذِي كُنْتَ فِيهِ؟ قَالَ: فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُقَالُ لَهُ: تَمَنَّهْ، فَيَتَمَنَّى، فَيُقَالُ: إِنَّ لَكَ الَّذِي تَمَنَّيْتَ، وَعَشَرَةَ أَضْعَافِ الدُّنْيَا، قَالَ: فَيَقُولُ: أَتَسْخَرُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ؟!" قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں اس شخص کو خوب جانتا ہوں جو جہنم سے سب سے آخر میں نکلے گا، وہ ایک شخص ہوگا جو اپنی سرین کے بل گھستا ہوا جہنم سے نکلے گا، اس سے کہا جائے گا کہ ”جا، جنت میں داخل ہو جا“، وہ جنت میں داخل ہوگا تو دیکھے گا کہ سب لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں میں پہنچ چکے، وہ لوٹ کر عرض کرے گا: پروردگار! یہاں تو سب لوگوں نے اپنے اپنے ٹھکانے قبضے میں کر لئے ہیں (میں کہا جاؤں؟)، اس سے کہا جائے گا کہ ”کیا تجھے اپنی مصیبتوں کا وہ زمانہ یاد ہے جس میں تو گرفتار تھا؟“ وہ کہے گا: جی ہاں! پھر اس سے کہا جائے گا کہ ”تو تمنا کر“، وہ تمنائیں ظاہر کرے گا، اس سے کہا جائے گا کہ ”تو نے جتنی چیزوں کی تمنا کی، تجھے وہ بھی دی جاتی ہیں اور دنیا سے دس گنا بڑی (حکومت یا دنیا) تجھے مزید دی جاتی ہے“، وہ عرض کرے گا: پروردگار! تو بادشاہ ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: يا رسول الله، إذا احسنت في الإسلام، اؤاخذ بما عملت في الجاهلية؟ فقال:" إذا احسنت في الإسلام، لم تؤاخذ بما عملت في الجاهلية، وإذا اسات في الإسلام، اخذت بالاول والآخر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا أَحْسَنْتُ فِي الْإِسْلَامِ، أُؤَاخَذُ بِمَا عَمِلْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ فَقَالَ:" إِذَا أَحْسَنْتَ فِي الْإِسْلَامِ، لَمْ تُؤَاخَذْ بِمَا عَمِلْتَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَإِذَا أَسَأْتَ فِي الْإِسْلَامِ، أُخِذْتَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں اسلام قبول کر کے اچھے اعمال اختیار کر لوں تو کیا زمانہ جاہلیت کے اعمال پر میرا مؤاخذہ ہو گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اسلام قبول کر کے اچھے اعمال اختیار کر لو تو زمانہ جاہلیت کے اعمال پر تمہارا کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا، لیکن اگر اسلام کی حالت میں برے اعمال کرتے رہے تو پہلے اور پچھلے سب کا مؤاخذہ ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من حلف على يمين هو فيها فاجر، ليقتطع بها مال امرئ مسلم، لقي الله عز وجل وهو عليه غضبان"، فقال الاشعث: في والله كان ذلك، كان بيني وبين رجل من اليهود ارض فجحدني، فقدمته إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الك بينة؟" قلت: لا، فقال لليهودي:" احلف"، فقلت: يا رسول الله، إذن يحلف فيذهب مالي، فانزل الله عز وجل إن الذين يشترون بعهد الله وايمانهم ثمنا قليلا سورة آل عمران آية 77 إلى آخر الآية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ هُوَ فِيهَا فَاجِرٌ، لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ"، فَقَالَ الْأَشْعَثُ: فِيَّ وَاللَّهِ كَانَ ذَلِكَ، كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ أَرْضٌ فَجَحَدَنِي، فَقَدَّمْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟" قُلْتُ: لَا، فَقَالَ لِلْيَهُودِيِّ:" احْلِفْ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَنْ يَحْلِفَ فَيَذْهَبَ مَالِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا سورة آل عمران آية 77 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال ہتھیا لے، وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ اس سے ناراض ہو گا“، یہ سن کر سیدنا اشعث رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ یہ ارشاد میرے واقعے میں نازل ہوا تھا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان کچھ زمین مشترک تھی، یہودی میرے حصے کا منکر ہو گیا، میں اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟“ میں نے عرض کیا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے فرمایا کہ ”تم قسم کھاؤ“، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو قسم کھا کر میرا مال لے جائے گا، اس پر اللہ نے یہ آیت آخر تک نازل فرمائی: «﴿إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا . . . . .﴾ [آل عمران: 77] »”جو لوگ اللہ کے وعدے اور اپنی قسم کو معمولی سی قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں . . . . .۔“