عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ مزدلفہ سے واپسی پر تلبیہ پڑھتے رہے اور فرمایا: جس ذات پر سورہ بقرہ کا نزول ہوا میں نے اسی ذات کو اس مقام پر تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا سفيان ، عن يحيى بن عبد الله الجابر التيمي ، عن ابي الماجد ، قال: جاء رجل إلى عبد الله ، فذكر القصة، وانشا يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن اول رجل قطع في الإسلام او من المسلمين رجل اتي به النبي صلى الله عليه وسلم، فقيل: يا رسول الله، إن هذا سرق، فكانما اسف وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم رمادا، فقال بعضهم: يا رسول الله، اي يقول: مالك؟، فقال:" وما يمنعني؟ وانتم اعوان الشيطان على صاحبكم، والله عز وجل عفو يحب العفو، ولا ينبغي لوالي امر ان يؤتى بحد إلا اقامه، ثم قرا: وليعفوا وليصفحوا الا تحبون ان يغفر الله لكم والله غفور رحيم سورة النور آية 22"، قال يحيى: املاه علينا سفيان إملاء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجَابِرِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي الْمَاجِدِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ ، فَذَكَرَ الْقِصَّةَ، وَأَنْشَأَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ أَوَّلَ رَجُلٍ قُطِعَ فِي الإِسْلَامِ أَوْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَجُلٌ أُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا سَرَقَ، فَكَأَنَّمَا أُسِفَّ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَادًا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْ يَقُولُ: مَالَكَ؟، فَقَالَ:" وَمَا يَمْنَعُنِي؟ وَأَنْتُمْ أَعْوَانُ الشَّيْطَانِ عَلَى صَاحِبِكُمْ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَفُوٌّ يُحِبُّ الْعَفْوَ، وَلَا يَنْبَغِي لِوَالِي أَمْرٍ أَنْ يُؤْتَى بِحَدٍّ إِلَّا أَقَامَهُ، ثُمَّ قَرَأَ: وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22"، قَالَ يَحْيَى: أَمْلَاهُ عَلَيْنَا سُفْيَانُ إِمْلَاءً.
ابوماجد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص اپنا ایک بھتیجا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا، اور کہنے لگا کہ یہ میرا بھتیجا ہے اور اس نے شراب پی رکھی ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اسلام میں سب سے پہلے ایک آدمی ہاتھ کاٹا گیا تھا، جس نے چوری کی تھی، لوگ اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے چوری کی ہے، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ اڑ گیا، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہوا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اپنے ساتھی کے متعلق شیطان کے مددگار ثابت ہوئے، جبکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور معافی کو پسند فرماتا ہے، اور کسی حاکم کے لئے یہ جائز نہیں کہ اس کے پاس حد کا کوئی مقدمہ آئے اور وہ اسے نافذ نہ کرے“، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾»[النور: 22]”انہیں معاف کرنا اور درگزر کرنا چاہیے تھا، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف يحيي بن عبدالله الجابر ولجهالة أبى الماجد.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا سفيان ، عن يحيى الجابر ، عن ابي الماجد الحنفي ، عن عبد الله ، قال: سالنا نبينا صلى الله عليه وسلم عن السير بالجنازة، فقال:" السير دون الخبب، فإن يك خيرا تعجل إليه، وإن يك سوى ذلك، فبعدا لاهل النار، الجنازة متبوعة، وليس منا من تقدمها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ يَحْيَى الْجَابِرِ ، عَنْ أَبِي الْمَاجِدِ الْحَنَفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَأَلْنَا نَبِيَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّيْرِ بِالْجِنَازَةِ، فَقَالَ:" السَّيْرُ دُونَ الْخَبَبِ، فَإِنْ يَكُ خَيْرًا تُعْجَلْ إِلَيْهِ، وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَبُعْدًا لِأَهْلِ النَّارِ، الْجِنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ تَقَدَّمَهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازے کے ساتھ چلنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ رفتار جو دوڑنے کے زمرے میں نہ آتی ہو، اگر وہ نیکوکار رہا ہو گا تو اس کے اچھے انجام کی طرف اسے جلد لے جایا جا رہا ہو گا، اور اگر وہ ایسا نہ ہوا تو اہل جہنم کو دور ہی ہو جانا چاہئے، اور جنازہ کو متبوع ہونا چاہئے نہ کہ تابع (جنازے کو آگے اور چلنے والوں کو اس کے پیچھے ہونا چاہئے)۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى ماجد الحنفي، وضعف يحيى الجابر.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا شريك ، حدثنا علي بن الاقمر ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، قال: لقد رايتنا، وما تقام الصلاة حتى تكامل بنا الصفوف،" فمن سره ان يلقى الله عز وجل غدا مسلما، فليحافظ على هؤلاء الصلوات المكتوبات حيث ينادى بهن، فإنهن من سنن الهدى، وإن الله عز وجل قد شرع لنبيكم صلى الله عليه وسلم سنن الهدى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنَا، وَمَا تُقَامُ الصَّلَاةُ حَتَّى تَكَامَلَ بِنَا الصُّفُوفُ،" فَمَنْ سَرَّهُ أَنْ يَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ غَدًا مُسْلِمًا، فَلْيُحَافِظْ عَلَى هَؤُلاَءِ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ، فَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَرَعَ لِنَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَنَ الْهُدَى".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے وہ وقت دیکھا ہے کہ جب تک ہماری صفیں مکمل نہیں ہوتی تھیں، نماز کھڑی نہیں ہوتی تھی اس لئے جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ کل قیامت کے دن اللہ سے اس کی ملاقات اسلام کی حالت میں ہو تو اسے ان فرض نمازوں کی پابندی کرنی چاہئے جب بھی ان کی طرف پکارا جائے، کیونکہ یہ سنن ہدی میں سے ہیں اور اللہ نے تمہاے پیغمبر کے لئے سنن ہدی کو مشروع قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك بن عبدالله النخعي، وهو متابع.
حدثنا حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا وكيع ، عن ابيه ، عن ابي إسحاق ، عن معدي كرب ، قال: اتينا عبد الله ، فسالناه ان يقرا علينا طسم المائتين، فقال: ما هي معي، ولكن عليكم من اخذها من رسول الله صلى الله عليه وسلم: خباب بن الارت، قال: فاتينا خباب بن الارت، فقراها علينا".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ مَعْدِي كَرِبَ ، قَالَ: أَتَيْنَا عَبْدَ اللَّهِ ، فَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَقْرَأَ عَلَيْنَا طسم الْمِائَتَيْنِ، فَقَالَ: مَا هِيَ مَعِي، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ مَنْ أَخَذَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَبَّابَ بْنَ الْأَرَتِّ، قَالَ: فَأَتَيْنَا خَبَّابَ بْنَ الْأَرَتِّ، فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا".
حضرت معدی کرب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے سورہ طسم - جو دو سو آیات پر مشتمل ہے - سنانے کی فرمائش کی، وہ کہنے لگے کہ یہ سورت مجھے یاد نہیں ہے، البتہ تم ان صاحب کے پاس چلے جاؤ جنہوں نے اسے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد اور حاصل کیا ہے، یعنی سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ، چنانچہ ہم سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے ہمیں وہ سورت پڑھ کر سنائی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ، معديكرب الهمداني العبدي لم يرو عنه إلا أبو إسحاق ، وذكره ابن حبان في الثقات : 458/5 ، ولم يوثر توثيقه عن غيره.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا ابو بكر ، عن عاصم بن ابي النجود ، عن زر بن حبيش ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: اقراني رسول الله صلى الله عليه وسلم سورة من الثلاثين، من آل حم، قال: يعني الاحقاف، قال: وكانت السورة إذا كانت اكثر من ثلاثين آية سميت الثلاثين، قال: فرحت إلى المسجد، فإذا رجل يقرؤها على غير ما اقراني، فقلت: من اقراك؟ فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فقلت لآخر: اقراها، فقراها على غير قراءتي وقراءة صاحبي، فانطلقت بهما إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن هذين يخالفاني في القراءة؟ قال: فغضب، وتمعر وجهه، وقال:" إنما اهلك من كان قبلكم الاختلاف"، قال: قال زر: وعنده رجل، قال: فقال الرجل: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يامركم ان يقرا كل رجل منكم كما اقرئ، فإنما اهلك من كان قبلكم الاختلاف، قال: قال عبد الله: فلا ادري اشيئا اسره إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، او علم ما في نفس رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: والرجل هو: علي بن ابي طالب، صلوات الله عليه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةً مِنَ الثَّلَاثِينَ، مِنْ آلِ حم، قال: يَعْنِي الأَحْقَافَ، قَالَ: وَكَانَتْ السُّورَةُ إِذَا كَانَتْ أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ آيَةً سُمِّيَتْ الثَّلَاثِينَ، قَالَ: فَرُحْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا رَجُلٌ يَقْرَؤُهَا عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأَنِي، فَقُلْتُ: مَنْ أَقْرَأَكَ؟ فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقُلْتُ لآخَرَ: اقْرَأْهَا، فَقَرَأَهَا عَلَى غَيْرِ قِرَاءَتِي وَقِرَاءَةِ صَاحِبِي، فَانْطَلَقْتُ بِهِمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَيْنِ يُخَالِفَانِي فِي الْقِرَاءَةِ؟ قَالَ: فَغَضِبَ، وَتَمَعَّرَ وَجْهُهُ، وَقَالَ:" إِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ الِاخْتِلاَفُ"، قَالَ: قَالَ زِرٌّ: وَعِنْدَهُ رَجُلٌ، قَالَ: فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ كَمَا أُقْرِئَ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ الِاخْتِلاَفُ، قال: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَلاَ أَدْرِي أَشَيْئًا أَسَرَّهُ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ عَلِمَ مَا فِي نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: وَالرَّجُلُ هُوَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک آدمی کو سورہ احقاف کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، وہ ایک مختلف طریقے سے قرأت کر رہا تھا، دوسرا آدمی دوسرے طریقے سے اسے پڑھ رہا تھا جو اس کے ساتھی سے مختلف تھا، اور میں اسے تیسرے طریقے سے پڑھ رہا تھا جس پر وہ دونوں پڑھ رہے تھے، ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور انہیں اس کی اطلاع دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا، چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا، اور فرمایا: ”اختلاف نہ کرو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تھے۔“ زر کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، وہ کہنے لگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم میں سے ہر شخص قرآن کی تلاوت اسی طرح کیا کرے جیسے اسے پڑھایا گیا ہے، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو اختلاف ہی نے ہلاک کیا تھا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں کہ یہ چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی سے بیان فرمائی تھی یا انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی بات معلوم ہو گئی؟ اور راوی نے بتایا کہ وہ آدمی سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، اخبرنا بشير ابو إسماعيل ، عن سيار ابي الحكم ، عن طارق ، عن عبد الله ، قال له: يا ابا عبد الرحمن، تسليم الرجل عليك، فقلت: صدق الله ورسوله، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بين يدي الساعة تسليم الخاصة، وتفشو التجارة، حتى تعين المراة زوجها على التجارة، وتقطع الارحام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، أَخْبَرَنَا بَشِيرٌ أَبُو إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ سَيَّارٍ أَبِي الْحَكَمِ ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، تَسْلِيمُ الرَّجُلِ عَلَيْكَ، فَقُلْتَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ تَسْلِيمُ الْخَاصَّةِ، وَتَفْشُو التِّجَارَةُ، حَتَّى تُعِينَ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا عَلَى التِّجَارَةِ، وَتُقْطَعُ الْأَرْحَامُ".
طارق بن شہاب نے ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اے ابوعبدالرحمن! ایک آدمی نے آپ کو سلام کیا اور آپ نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے قریب سلام مخصوص ہو جائے گا، تجارت اتنی پھیل جائے گی کہ بیوی شوہر کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹائے گی، اور رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گی۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، وقوله: سيار أبو الحكم. خطأ، صوابه: سيار أبو حمزة، والإمام أحمد نفسه نبه على هذا الخطأ في: العدل برقم: 588 .
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں، نماز سے فارغ ہونے کے بعد کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز کی رکعتوں میں اضافہ ہو گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، لوگوں نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھا دی ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دو سجدے کر لئے اور فرمایا کہ ”میں بھی انسان ہوں، جیسے تم بات یاد رکھتے ہو میں بھی یاد رکھتا ہوں، اور جیسے تم بھول جاتے ہو، میں بھی بھول جاتا ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا اسباط ، قال: حدثنا الشيباني ، عن المسيب بن رافع ، عن ابن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قتل حية، فله سبع حسنات، ومن قتل وزغا، فله حسنة، ومن ترك حية مخافة عاقبتها فليس منا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَتَلَ حَيَّةً، فَلَهُ سَبْعُ حَسَنَاتٍ، وَمَنْ قَتَلَ وَزَغًا، فَلَهُ حَسَنَةٌ، وَمَنْ تَرَكَ حَيَّةً مَخَافَةَ عَاقِبَتِهَا فَلَيْسَ مِنَّا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی سانپ کو مارے اسے سات نیکیاں ملیں گی، جو کسی مینڈک کو مارے اسے ایک نیکی ملے گی، اور جو سانپ کو ڈر کی وجہ سے نہ مارے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، المسيب بن رافع لم يلق ابن مسعود قوله: من قتل وزغا.... له شاهد من حديث أبى هريرة عند مسلم: 2240، وقوله: من ترك حية ...... له شاهد من حديث ابن عباس تقدم برقم: 3254 بإسناد صحيح.
حدثنا حدثنا اسباط ، حدثنا اشعث ، عن كردوس ، عن ابن مسعود ، قال: مر الملا من قريش على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعنده خباب، وصهيب، وبلال، وعمار، فقالوا: يا محمد، ارضيت بهؤلاء؟" فنزل فيهم القرآن: وانذر به الذين يخافون ان يحشروا إلى ربهم إلى قوله والله اعلم بالظالمين سورة الانعام آية 51 - 58".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ ، عَنْ كُرْدُوسٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: مَرَّ الْمَلَأُ مِنْ قُرَيْشٍ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ خَبَّابٌ، وَصُهَيْبٌ، وَبِلاَلٌ، وَعَمَّارٌ، فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، أَرَضِيتَ بِهَؤُلَاءِ؟" فَنَزَلَ فِيهِمْ الْقُرْآنُ: وَأَنْذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْ يُحْشَرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَى قَوْلِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ سورة الأنعام آية 51 - 58".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سرداران قریش کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزر ہوا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا خباب، سیدنا صہیب، سیدنا بلال اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہم بیٹھے ہوئے تھے، سرداران قریش انہیں دیکھ کر کہنے لگے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ ان لوگوں پر ہی خوش ہو؟ اس پر قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئی: «﴿وَأَنْذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْ يُحْشَرُوا إِلَى رَبِّهِمْ . . . . . وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ﴾» [الأنعام: 51-58]”اور اس کے ساتھ ان لوگوں کو ڈراؤ جو خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کی طرف (لے جا کر) اکٹھے کیے جائیں گے، . . . . . اور اللہ ظالموں کو زیادہ جاننے والا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضف أشعث الكندي.