(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابيه ، عن حميد بن عبد الرحمن ، سمعت عبد الله بن عمرو ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من اكبر الكبائر ان يلعن الرجل والديه"، قالوا: يا رسول الله، وكيف يلعن الرجل ابويه؟ قال:" يسب الرجل الرجل، فيسب اباه، ويسب الرجل امه، فيسب امه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ أَبَوَيْهِ؟ قَالَ:" يَسُبُّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ، فَيَسُبُّ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ الرَّجُلُ أُمَّهُ، فَيَسُبُّ أُمَّهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک کبیرہ گناہ یہ بھی ہے کہ ایک آدمی اپنے والدین کو گالیاں دے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کوئی آدمی اپنے والدین کو کیسے گالیاں دے سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کسی کے باپ کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کے باپ کو گالی دے اسی طرح وہ کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کی ماں کو گالی دے دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثني ابي ، عن صالح ، قال ابن شهاب : حدثني عيسى بن طلحة بن عبيد الله ، انه سمع عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم النحر على راحلته، فطفق يسالونه، فيقول القائل منهم: يا رسول الله، إني لم اكن اشعر ان الرمي قبل النحر، فنحرت قبل ان ارمي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارم ولا حرج"، وطفق آخر، فقال: يا رسول الله، إني لم اشعر ان النحر قبل الحلق، فحلقت قبل ان انحر؟ فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انحر ولا حرج"، قال: فما سمعته يومئذ يسال عن امر مما ينسى الإنسان او يجهل، من تقديم الامور بعضها قبل بعض، واشباهها، إلا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" افعله ولا حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَقُولُ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَطَفِقَ يَسْأَلُونَهُ، فَيَقُولُ الْقَائِلُ مِنْهُمْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ أَشْعُرُ أَنَّ الرَّمْيَ قَبْلَ النَّحْرِ، فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ"، وَطَفِقَ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَشْعُرْ أَنَّ النَّحْرَ قَبْلَ الْحَلْقِ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ؟ فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْحَرْ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: فَمَا سَمِعْتُهُ يَوْمَئِذٍ يُسْأَلُ عَنْ أَمْرٍ مِمَّا يَنْسَى الْإِنْسَانُ أَوْ يَجْهَلُ، مِنْ تَقْدِيمِ الْأُمُورِ بَعْضِهَا قَبْلَ بَعْضٍ، وَأَشْبَاهِهَا، إِلَّا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" افْعَلْهُ وَلَا حَرَجَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے میدان منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر کھڑے ہوئے دیکھا اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ حلق قربانی سے پہلے ہے اس لئے میں نے قربانی کر نے سے پہلے حلق کروا لیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر قربانی کر لو کوئی حرج نہیں ایک دوسرا آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ قربانی رمی سے پہلے ہے اس لئے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جا کر رمی کر لو کوئی حرج نہیں ہے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نوعیت کا جو سوال بھی پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب میں یہی فرمایا: ”اب کر لو کوئی حرج نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، فذكر حديثا، قال ابن إسحاق: وذكر عمرو بن شعيب بن محمد بن عبد الله بن عمرو بن العاص ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قتل مؤمنا متعمدا فإنه يدفع إلى اولياء القتيل، فإن شاءوا قتلوا، وإن شاءوا اخذوا الدية، وهي ثلاثون حقة، وثلاثون جذعة، واربعون خلفة، فذلك عقل العمد، وما صالحوا عليه من شيء فهو لهم وذلك شديد العقل". وعقل شبه العمد مغلظة مثل عقل العمد، ولا يقتل صاحبه، وذلك ان ينزغ الشيطان بين الناس، فتكون دماء في غير ضغينة ولا حمل سلاح". فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال يعني:" من حمل علينا السلاح فليس منا، ولا رصد بطريق، فمن قتل على غير ذلك فهو شبه العمد، وعقله مغلظة، ولا يقتل صاحبه، وهو بالشهر الحرام، وللحرمة وللجار". ومن قتل خطا فديته مائة من الإبل، ثلاثون ابنة مخاض، وثلاثون ابنة لبون، وثلاثون حقة، وعشر بكارة بني لبون ذكور". قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقيمها على اهل القرى اربع مائة دينار، او عدلها من الورق، وكان يقيمها على اثمان الإبل، فإذا غلت رفع في قيمتها، وإذا هانت، نقص من قيمتها، على عهد الزمان ما كان، فبلغت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بين اربع مائة دينار إلى ثمان مائة دينار وعدلها من الورق ثمانية آلاف درهم". وقضى ان من كان عقله على اهل البقر، في البقر مائتي بقرة، وقضى ان من كان عقله على اهل الشاء، فالفي شاة، وقضى في الانف إذا جدع كله، بالعقل كاملا، وإذا جدعت ارنبته، فنصف العقل". وقضى في العين نصف العقل، خمسين من الإبل، او عدلها ذهبا او ورقا، او مائة بقرة، او الف شاة". والرجل نصف العقل، واليد نصف العقل". والمامومة ثلث العقل، ثلاث وثلاثون من الإبل او قيمتها من الذهب، او الورق، او البقر، او الشاء، والجائفة ثلث العقل، والمنقلة خمس عشرة من الإبل، والموضحة خمس من الإبل، والاسنان خمس من الإبل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، فَذَكَرَ حَدِيثًا، قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَذَكَرَ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَإِنَّهُ يُدْفَعُ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْقَتِيلِ، فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوا، وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ، وَهِيَ ثَلَاثُونَ حِقَّةً، وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً، وَأَرْبَعُونَ خَلِفَةً، فَذَلِكَ عَقْلُ الْعَمْدِ، وَمَا صَالَحُوا عَلَيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ لَهُمْ وَذَلِكَ شَدِيدُ الْعَقْلِ". وَعَقْلُ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظَةٌ مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ، وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ، وَذَلِكَ أَنْ يَنْزِغَ الشَّيْطَانُ بَيْنَ النَّاسِ، فَتَكُونَ دِمَاءٌ فِي غَيْرِ ضَغِينَةٍ وَلَا حَمْلِ سِلَاحٍ". فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَعْنِي:" مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، وَلَا رَصَدَ بِطَرِيقٍ، فَمَنْ قُتِلَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَهُوَ شِبْهُ الْعَمْدِ، وَعَقْلُهُ مُغَلَّظَةٌ، وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ، وَهُوَ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ، وَلِلْحُرْمَةِ وَلِلْجَارِ". وَمَنْ قُتِلَ خَطَأً فَدِيَتُهُ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ، ثَلَاثُونَ ابْنَةُ مَخَاضٍ، وَثَلَاثُونَ ابْنَةُ لَبُونٍ، وَثَلَاثُونَ حِقَّةٌ، وَعَشْرُ بَكَارَةٍ بَنِي لَبُونٍ ذُكُورٍ". قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقِيمُهَا عَلَى أَهْلِ الْقُرَى أَرْبَعَ مِائَةِ دِينَارٍ، أَوْ عِدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ، وَكَانَ يُقِيمُهَا عَلَى أَثْمَانِ الْإِبِلِ، فَإِذَا غَلَتْ رَفَعَ فِي قِيمَتِهَا، وَإِذَا هَانَتْ، نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا، عَلَى عَهْدِ الزَّمَانِ مَا كَانَ، فَبَلَغَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ أَرْبَعِ مِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِ مِائَةِ دِينَارٍ وَعِدْلُهَا مِنَ الْوَرِقِ ثَمَانِيَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ". وَقَضَى أَنَّ مَنْ كَانَ عَقْلُهُ عَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ، فِي الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَقَضَى أَنَّ مَنْ كَانَ عَقْلُهُ عَلَى أَهْلِ الشَّاءِ، فَأَلْفَيْ شَاةٍ، وَقَضَى فِي الْأَنْفِ إِذَا جُدِعَ كُلُّهُ، بِالْعَقْلِ كَامِلًا، وَإِذَا جُدِعَتْ أَرْنَبَتُهُ، فَنِصْفُ الْعَقْلِ". وَقَضَى فِي الْعَيْنِ نِصْفَ الْعَقْلِ، خَمْسِينَ مِنَ الْإِبِلِ، أَوْ عِدْلَهَا ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا، أَوْ مِائَةَ بَقَرَةٍ، أَوْ أَلْفَ شَاةٍ". وَالرِّجْلُ نِصْفُ الْعَقْلِ، وَالْيَدُ نِصْفُ الْعَقْلِ". وَالْمَأْمُومَةُ ثُلُثُ الْعَقْلِ، ثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ مِنَ الْإِبِلِ أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ، أَوْ الْوَرِقِ، أَوْ الْبَقَرِ، أَوْ الشَّاءِ، وَالْجَائِفَةُ ثُلُثُ الْعَقْلِ، وَالْمُنَقِّلَةُ خَمْسَ عَشْرَةَ مِنَ الْإِبِلِ، وَالْمُوضِحَةُ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَالْأَسْنَانُ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی مسلمان کو عمداً قتل کر دے اسے مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دیا جائے گا وہ چاہیں تو اسے قصاصاً قتل کر دیں اور چاہیں تو دیت لے لیں جو کہ ٣٠ حقے، ٣٠ جذعے اور ٤٠ حاملہ اونٹنیوں پر مشتمل ہو گی یہ قتل عمد کی دیت ہے اور جس چیز پر ان سے صلح ہو جائے وہ اس کے حقدار ہوں گے اور یہ سخت دیت ہے۔ قتل شبہ عمد کی دیت بھی قتل عمد کی دیت کی طرح ملغظ ہی ہے لیکن اس صورت میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ شیطان لوگوں کے درمیان دشمنی پیدا کر دیتا ہے اور بغیر کسی کہنے کے یا اسلحہ کے خونریزی ہوجاتی ہے۔ اس کی علاوہ جس صورت میں بھی قتل ہو گا وہ شبہ عمد ہو گا اس کی دیت مغلظ ہو گی اور قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا یہ اشہر حرم میں حرمت کی وجہ سے اور پڑوس کی وجہ سے ہو گا۔ خطاء قتل ہونے والے کی دیت سو اونٹ ہے جن میں ٣٠ بنت مخاض ٣٠ بنت لبون ٣٠ حقے اور دس ابن لبون مذکر اونٹ شامل ہوں گے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہر والوں پر اس کی قیمت چار سو دینار یا اس کے برابر چاندی مقرر فرماتے تھے اور قیمت کا تعین اونٹوں کی قیمت کے اعتبار سے کرتے تھے جب اونٹوں کی قیمت بڑھ جاتی تو دیت کی مقدار مذکور میں اضافہ فرما دیتے اور جب کم ہوجاتی تو اس میں بھی کمی فرمادیتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں یہ قیمت چار سو دینار سے آٹھ سو دینارتک بھی پہنچی ہے اور اس کے برابر چاندی کی قیمت آٹھ ہزار درہم تک پہنچی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ بھی فرمایا: ”کہ جس کی دیت گائے والوں پر واجب ہوتی ہو تو وہ دو سو گائے دے دیں اور جس کی بکر ی والوں پر واجب ہوتی ہو وہ دوہزار بکر یاں دے دیں ناک کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا: ”کہ اگر اسے مکمل طور پر کاٹ دیا جائے تو پوری دیت واجب ہو گی اور اگر صرف نرم حصہ کاٹا ہو تو نصف دیت واجب ہو گی ایک آنکھ کی دیت نصف قرار دی ہے یعنی پچاس اونٹ یا اس کے برابر سونا چاندی یا سو گائے یا ہزار بکر یاں، نیز ایک پاؤں کی دیت بھی نصف اور ایک ہاتھ کی دیت بھی نصف قرار دی ہے۔ دماغی زخم کی دیت تہائی مقرر فرمائی ہے یعنی ٣٣ اونٹ یا اس کی قیمت کے برابر سونا، چاندی، یا گائے بکر ی گہرے زخم کی دیت بھی تہائی مقرر فرمائی ہے ہڈی اپنی جگہ سے ہلا دینے کی دیت ١٥ اونٹ مقرر فرمائی ہے اور کھال چیر کر گوشت نظر آنے والے زخم کی دیت پانچ اونٹ مقرر فرمائی ہے اور ہر دانٹ کی دیت پانچ اونٹ مقرر فرمائی ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے کی ٹانگ پر سینگ دے مارا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا یا رسول اللہ! مجھے قصاص دلوایئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”کہ جلدی بازی سے کام نہ لو پہلے اپنازخم ٹھیک ہونے دو وہ فوری طور پر قصاص لینے کے لئے اصرار کر نے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قصاص دلوا دیا بعد میں قصاص لینے والا لنگڑا اور جس سے قصاص لیا گیا وہ ٹھیک ہو گیا۔
چنانچہ وہ قصاص لینے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں لنگڑا ہو گیا اور وہ صحیح ہو گیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”کیا میں نے تمہیں اس بات کا حکم نہ دیا تھا کہ جب تک تمہارا زخم ٹھیک نہ ہو جائے تم قصاص نہ لو لیکن تم نے میری بات نہیں مانی اس لئے اللہ نے تمہیں دور کر دیا اور تمہارا زخم خراب کر دیا اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمادیا کہ جسے کوئی زخم لگے وہ اپنازخم ٹھیک ہونے سے پہلے قصاص کا مطالبہ نہ کرے ہاں جب تک زخم ٹھیک ہو جائے پھر قصاص کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وذكر قال: وذكر عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجل طعن رجلا بقرن في رجله، فقال: يا رسول الله، اقدني، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تعجل، حتى يبرا جرحك"، قال: فابى الرجل إلا ان يستقيد، فاقاده رسول الله صلى الله عليه وسلم منه، قال: فعرج المستقيد، وبرا المستقاد منه، فاتى المستقيد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له: يا رسول الله، عرجت، وبرا صاحبي؟! فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الم آمرك الا تستقيد حتى يبرا جرحك؟ فعصيتني! فابعدك الله، وبطل جرحك"، ثم امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد الرجل الذي عرج" من كان به جرح، ان لا يستقيد حتى تبرا جراحته، فإذا برئت جراحته استقاد".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَذَكَرَ قَالَ: وَذَكَرَ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجُلٍ طَعَنَ رَجُلًا بِقَرْنٍ فِي رِجْلِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقِدْنِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَعْجَلْ، حَتَّى يَبْرَأَ جُرْحُكَ"، قَالَ: فَأَبَى الرَّجُلُ إِلَّا أَنْ يَسْتَقِيدَ، فَأَقَادَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ، قَالَ: فَعَرِجَ الْمُسْتَقِيدُ، وَبَرَأَ الْمُسْتَقَادُ مِنْهُ، فَأَتَى الْمُسْتَقِيدُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَرِجْتُ، وَبَرَأَ صَاحِبِي؟! فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَمْ آمُرْكَ أَلَّا تَسْتَقِيدَ حَتَّى يَبْرَأَ جُرْحُكَ؟ فَعَصَيْتَنِي! فَأَبْعَدَكَ اللَّهُ، وَبَطَلَ جُرْحُكَ"، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الرَّجُلِ الَّذِي عَرِجَ" مَنْ كَانَ بِهِ جُرْحٌ، أَنْ لَا يَسْتَقِيدَ حَتَّى تَبْرَأَ جِرَاحَتُهُ، فَإِذَا بَرِئَتْ جِرَاحَتُهُ اسْتَقَادَ".
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو إسحاق مدلس، ولم يصرح هنا بالتحديث.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں تین مرتبہ فرمایا: ”کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ قیامت کے دن تم میں سب سے زیادہ میری نگاہوں میں محبوب اور میرے قریب تر مجلس والا ہو گا؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ!! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہوں
(حديث مرفوع) قال يعقوب : حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وحدثني يحيى بن عروة بن الزبير ، عن ابيه عروة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قلت له: ما اكثر ما رايت قريشا اصابت من رسول الله، فيما كانت تظهر من عداوته؟ قال: حضرتهم وقد اجتمع اشرافهم يوما في الحجر، فذكروا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: ما راينا مثل ما صبرنا عليه من هذا الرجل قط، سفه احلامنا، وشتم آباءنا، وعاب ديننا، وفرق جماعتنا، وسب آلهتنا، لقد صبرنا منه على امر عظيم، او كما قالوا، قال: فبينما هم كذلك، إذ طلع عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقبل يمشي، حتى استلم الركن، ثم مر بهم طائفا بالبيت، فلما ان مر بهم غمزوه ببعض ما يقول، قال: فعرفت ذلك في وجهه، ثم مضى، فلما مر بهم الثانية، غمزوه بمثلها، فعرفت ذلك في وجهه، ثم مضى، ثم مر بهم الثالثة، فغمزوه بمثلها، فقال:" تسمعون يا معشر قريش، اما والذي نفس محمد بيده، لقد جئتكم بالذبح"، فاخذت القوم كلمته، حتى ما منهم رجل إلا كانما على راسه طائر واقع، حتى إن اشدهم فيه وصاة قبل ذلك ليرفؤه باحسن ما يجد من القول، حتى إنه ليقول: انصرف يا ابا القاسم، انصرف راشدا، فوالله ما كنت جهولا، قال: فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كان الغد، اجتمعوا في الحجر وانا معهم، فقال بعضهم لبعض: ذكرتم ما بلغ منكم وما بلغكم عنه، حتى إذا باداكم بما تكرهون تركتموه! فبينما هم في ذلك، إذ طلع رسول الله صلى الله عليه وسلم فوثبوا إليه وثبة رجل واحد، فاحاطوا به، يقولون له: انت الذي تقول كذا وكذا؟ لما كان يبلغهم عنه من عيب آلهتهم ودينهم، قال: فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم، انا الذي اقول ذلك"، قال: فلقد رايت رجلا منهم اخذ بمجمع ردائه، قال: وقام ابو بكر الصديق رضي الله تعالى عنه، دونه يقول وهو يبكي: اتقتلون رجلا ان يقول ربي الله سورة غافر آية 28؟ ثم انصرفوا عنه، فإن ذلك لاشد ما رايت قريشا بلغت منه قط.(حديث مرفوع) قَالَ يَعْقُوبُ : حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: مَا أَكْثَرَ مَا رَأَيْتَ قُرَيْشًا أَصَابَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ، فِيمَا كَانَتْ تُظْهِرُ مِنْ عَدَاوَتِهِ؟ قَالَ: حَضَرْتُهُمْ وَقَدْ اجْتَمَعَ أَشْرَافُهُمْ يَوْمًا فِي الْحِجْرِ، فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: مَا رَأَيْنَا مِثْلَ مَا صَبَرْنَا عَلَيْهِ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ قَطُّ، سَفَّهَ أَحْلَامَنَا، وَشَتَمَ آبَاءَنَا، وَعَابَ دِينَنَا، وَفَرَّقَ جَمَاعَتَنَا، وَسَبَّ آلِهَتَنَا، لَقَدْ صَبَرْنَا مِنْهُ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، أَوْ كَمَا قَالُوا، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ يَمْشِي، حَتَّى اسْتَلَمَ الرُّكْنَ، ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ طَائِفًا بِالْبَيْتِ، فَلَمَّا أَنْ مَرَّ بِهِمْ غَمَزُوهُ بِبَعْضِ مَا يَقُولُ، قَالَ: فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ مَضَى، فَلَمَّا مَرَّ بِهِمْ الثَّانِيَةَ، غَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا، فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ مَضَى، ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ الثَّالِثَةَ، فَغَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا، فَقَالَ:" تَسْمَعُونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِالذَّبْحِ"، فَأَخَذَتْ الْقَوْمَ كَلِمَتُهُ، حَتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا كَأَنَّمَا عَلَى رَأْسِهِ طَائِرٌ وَاقِعٌ، حَتَّى إِنَّ أَشَدَّهُمْ فِيهِ وَصَاةً قَبْلَ ذَلِكَ لَيَرْفَؤُهُ بِأَحْسَنِ مَا يَجِدُ مِنَ الْقَوْلِ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَقُولُ: انْصَرِفْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، انْصَرِفْ رَاشِدًا، فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ جَهُولًا، قَالَ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ، اجْتَمَعُوا فِي الْحِجْرِ وَأَنَا مَعَهُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: ذَكَرْتُمْ مَا بَلَغَ مِنْكُمْ وَمَا بَلَغَكُمْ عَنْهُ، حَتَّى إِذَا بَادَأَكُمْ بِمَا تَكْرَهُونَ تَرَكْتُمُوهُ! فَبَيْنَمَا هُمْ فِي ذَلِكَ، إِذْ طَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَثَبُوا إِلَيْهِ وَثْبَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَأَحَاطُوا بِهِ، يَقُولُونَ لَهُ: أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ كَذَا وَكَذَا؟ لِمَا كَانَ يَبْلُغُهُمْ عَنْهُ مِنْ عَيْبِ آلِهَتِهِمْ وَدِينِهِمْ، قَالَ: فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، أَنَا الَّذِي أَقُولُ ذَلِكَ"، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ أَخَذَ بِمَجْمَعِ رِدَائِهِ، قَالَ: وَقَامَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، دُونَهُ يَقُولُ وَهُوَ يَبْكِي: أَتَقْتُلُونَ رَجُلا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ سورة غافر آية 28؟ ثُمَّ انْصَرَفُوا عَنْهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَأَشَدُّ مَا رَأَيْتُ قُرَيْشًا بَلَغَتْ مِنْهُ قَطُّ.
عروہ بن زبیررحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے کسی ایسے سخت واقعے کے متعلق بتایئے جو مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روا رکھا ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن اشراف قریش حطیم میں جمع تھے میں بھی وہاں موجود تھا وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکر ہ کر نے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے جیساصبر اس آدمی پر کیا ہے کسی اور پر کبھی نہیں کیا اس نے ہمارے عقلمندوں کو بیوقوف کہا، ہمارے آباؤ اجداد کو برا بھلا کہا ہمارے دین میں عیوب نکالے ہماری جماعت کو منتشر کیا اور ہمارے معبودوں کو برابھلا کہا ہم ان کے معاملے میں بہت صبر کر لیا اسی اثناء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے آگے بڑھے اور حجر اسود کا استلام کیا اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے اس دوران وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتوں میں عیب نکالتے ہوئے ایک دوسرے کو اشارے کر نے لگے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک پر اس کے اثرات محسوس ہوئے تین چکروں میں اسی طرح ہوا بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گروہ قریش تم سنتے ہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے میں تمہارے پاس قربانی لے کر آیا ہوں لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملے پر بڑی شرم آئی اور ان میں سے ایک آدمی بھی ایسا نہ تھا جس کے سر پر پرندے نہ بیٹھے ہوئے محسوس نہ ہوئے ہوں حتیٰ کہ اس سے پہلے جو آدمی انتہائی سخت تھا وہ اب اچھی بات کہنے لگا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم آپ خیر و عافیت کے ساتھ تشریف لے جایئے واللہ آپ نا و قف نہیں ہیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے۔
اگلے دن وہ لوگ پھر حطیم میں جمع ہوئے میں بھی ان کے ساتھ تھا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ پہلے تو تم نے ان سے پہنچنے والی صبر آزما باتوں کا تذکر ہ کیا اور جب وہ تمہارے سامنے ظاہر ہوئے جو تمہیں پسند نہ تھا تو تم نے انہیں چھوڑ دیا ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے وہ سب اکٹھے کودے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرے میں لے کر کہنے لگے کیا تم ہی اس اس طرح کہتے ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! میں ہی اس طرح کہتا ہوں راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو گردن سے پکڑ لیا (اور گھونٹنا شروع کر دیا) یہ دیکھ کر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لئے کھڑے ہوئے وہ روتے ہوئے کہتے جا رہے تھے کیا تم ایک آدمی کو صرف اس وجہ سے قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اس پر وہ لوگ واپس چلے گئے یہ سب سے سخت دن تھا جس میں قریش کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی سخت اذیت پہنچی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: وحدثني عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده عبد الله بن عمرو ، ان وفد هوازن اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالجعرانة، وقد اسلموا، فقالوا: يا رسول الله، إنا اصل وعشيرة، وقد اصابنا من البلاء ما لا يخفى عليك، فامنن علينا، من الله عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابناؤكم ونساؤكم احب إليكم، ام اموالكم؟" قالوا: يا رسول الله، خيرتنا بين احسابنا وبين اموالنا، بل ترد علينا نساؤنا وابناؤنا، فهو احب إلينا، فقال لهم:" اما ما كان لي ولبني عبد المطلب فهو لكم، فإذا صليت للناس الظهر، فقوموا، فقولوا: إنا نستشفع برسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المسلمين، وبالمسلمين إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، في ابنائنا ونسائنا، فساعطيكم عند ذلك واسال لكم"، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس الظهر قاموا، فتكلموا بالذي امرهم به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما ما كان لي ولبني عبد المطلب فهو لكم"، قال المهاجرون: وما كان لنا، فهو لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وقالت الانصار: وما كان لنا فهو لرسول الله صلى الله عليه وسلم، قال الاقرع بن حابس: اما انا وبنو تميم فلا! وقال عيينة بن حصن بن حذيفة بن بدر اما انا وبنو فزارة، فلا! قال عباس بن مرداس: اما انا وبنو سليم فلا! قالت بنو سليم: لا، ما كان لنا فهو لرسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يقول عباس: يا بني سليم، وهنتموني! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما من تمسك منكم بحقه من هذا السبي فله بكل إنسان ست فرائض من اول شيء نصيبه، فردوا على الناس ابناءهم ونساءهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ وَفْدَ هَوَازِنَ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْجِعِرَّانَةِ، وَقَدْ أَسْلَمُوا، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أَصْلٌ وَعَشِيرَةٌ، وَقَدْ أَصَابَنَا مِنَ الْبَلَاءِ مَا لَا يَخْفَى عَلَيْكَ، فَامْنُنْ عَلَيْنَا، مَنَّ اللَّهُ عَلَيْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:" أَبْنَاؤُكُمْ وَنِسَاؤُكُمْ أَحَبُّ إِلَيْكُمْ، أَمْ أَمْوَالُكُمْ؟" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَيَّرْتَنَا بَيْنَ أَحْسَابِنَا وَبَيْنَ أَمْوَالِنَا، بَلْ تُرَدُّ عَلَيْنَا نِسَاؤُنَا وَأَبْنَاؤُنَا، فَهُوَ أَحَبُّ إِلَيْنَا، فَقَالَ لَهُمْ:" أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ، فَإِذَا صَلَّيْتُ لِلنَّاسِ الظُّهْرَ، فَقُومُوا، فَقُولُوا: إِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ، وَبِالْمُسْلِمِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي أَبْنَائِنَا وَنِسَائِنَا، فَسَأُعْطِيكُمْ عِنْدَ ذَلِكَ وَأَسْأَلُ لَكُمْ"، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ الظُّهْرَ قَامُوا، فَتَكَلَّمُوا بِالَّذِي أَمَرَهُمْ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مَا كَانَ لِي ولِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ"، قَالَ الْمُهَاجِرُونَ: وَمَا كَانَ لَنَا، فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: وَمَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو تَمِيمٍ فَلَا! وَقَالَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ بْنِ بَدْرٍ أَمَّا أَنَا وَبَنُو فَزَارَةَ، فَلَا! قَالَ عَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو سُلَيْمٍ فَلَا! قَالَتْ بَنُو سُلَيْمٍ: لَا، مَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَقُولُ عَبَّاسٌ: يَا بَنِي سُلَيْمٍ، وَهَّنْتُمُونِي! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مَنْ تَمَسَّكَ مِنْكُمْ بِحَقِّهِ مِنْ هَذَا السَّبْيِ فَلَهُ بِكُلِّ إِنْسَانٍ سِتُّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْءٍ نُصِيبُهُ، فَرَدُّوا عَلَى النَّاسِ أَبْنَاءَهُمْ وَنِسَاءَهُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر جب بنوہوازن کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں بھی وہاں موجود تھا وفد کے لوگ کہنے لگے اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم ہم اصل میں نسل اور خاندانی لوگ ہیں آپ ہم پر مہربانی کیجئے اللہ آپ پر مہربانی کرے گا اور ہم پر جو مصیبت آئی ہے وہ آپ پر مخفی نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی عورتوں اور بچوں اور مال میں سے کسی ایک کو اختیار کر لو وہ کہنے لگے کہ آپ نے ہمیں ہمارے حسب اور مال کے بارے میں اختیار دیا ہے ہم اپنی اولاد کو مال پر ترجیح دیتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میرے لئے اور بنو عبدالمطلب کے لئے ہو گا وہی تمہارے لئے ہو گا جب میں ظہر کی نماز پڑھ چکوں تو اس وقت اٹھ کر تم لوگ یوں کہنا کہ ہم اپنی عورتوں اور بچوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کے سامنے اور مسلمانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سفارش کی درخواست کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایساہی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میرے لئے اور بنوعبدالمطلب کے لئے ہے وہی تمہارے لئے ہے، مہاجرین کہنے لگے کہ جو ہمارے لئے ہے وہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے انصارنے بھی یہی کہا عیینہ بن بدر کہنے لگا کہ جو میرے لئے اور بنوفزارہ کے لئے ہے وہ نہیں، اقرع بن حابس نے کہا کہ میں اور بنوتمیم بھی اس میں شامل نہیں عباس بن مرداس نے کہا کہ میں اور بنوسلیم بھی اس میں شامل نہیں ان دونوں قبیلوں کے لوگ بولے تم غلط کہتے ہو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! انہیں ان کی عورتیں اور بچے واپس کر دو جو شخص مال غنیمت کی کوئی چیز اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو ہمارے پاس سے پہلا جو مال غنیمت آئے گا اس میں سے اس کے چھ حصے ہمارے ذمے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني ابو عبيدة بن محمد بن عمار بن ياسر ، عن مقسم ابي القاسم مولى عبد الله بن الحارث بن نوفل، قال: خرجت انا وتليد بن كلاب الليثي، حتى اتينا عبد الله بن عمرو بن العاص ، وهو يطوف بالبيت، معلقا نعليه بيده، فقلنا له: هل حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين يكلمه التميمي يوم حنين؟ قال: نعم، اقبل رجل من بني تميم، يقال له: ذو الخويصرة، فوقف على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يعطي الناس، قال: يا محمد، قد رايت ما صنعت في هذا اليوم! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجل، فكيف رايت؟"، قال: لم ارك عدلت! قال: فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" ويحك، إن لم يكن العدل عندي فعند من يكون؟" فقال عمر بن الخطاب: يا رسول الله، الا نقتله؟ قال:" لا، دعوه، فإنه سيكون له شيعة يتعمقون في الدين، حتى يخرجوا منه، كما يخرج السهم من الرمية، ينظر في النصل، فلا يوجد شيء، ثم في القدح فلا يوجد شيء، ثم في الفوق، فلا يوجد شيء، سبق الفرث والدم"، قال ابو عبد الرحمن هو عبد الله بن احمد: ابو عبيدة هذا اسمه محمد، ثقة واخوه سلمة بن محمد بن عمار، لم يرو عنه إلا علي بن زيد، ولا نعلم خبره، ومقسم ليس به باس، ولهذا الحديث طرق في هذا المعنى، وطرق اخر في هذا المعنى صحاح، والله سبحانه وتعالى اعلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، عَنْ مِقْسَمٍ أَبِي الْقَاسِمِ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَتَلِيدُ بْنُ كِلَابٍ اللَّيْثِيُّ، حَتَّى أَتَيْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، مُعَلِّقًا نَعْلَيْهِ بِيَدِهِ، فَقُلْنَا لَهُ: هَلْ حَضَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يُكَلِّمُهُ التَّمِيمِيُّ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، يُقَالُ لَهُ: ذُو الْخُوَيْصِرَةِ، فَوَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُعْطِي النَّاسَ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قَدْ رَأَيْتَ مَا صَنَعْتَ فِي هَذَا الْيَوْمِ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَجَلْ، فَكَيْفَ رَأَيْتَ؟"، قَالَ: لَمْ أَرَكَ عَدَلْتَ! قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" وَيْحَكَ، إِنْ لَمْ يَكُنْ الْعَدْلُ عِنْدِي فَعِنْدَ مَنْ يَكُونُ؟" فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَقْتُلُهُ؟ قَالَ:" لَا، دَعُوهُ، فَإِنَّهُ سَيَكُونُ لَهُ شِيعَةٌ يَتَعَمَّقُونَ فِي الدِّينِ، حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْهُ، كَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ فِي النَّصْلِ، فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ، ثُمَّ فِي الْقِدْحِ فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ، ثُمَّ فِي الْفُوقِ، فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ، سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هو عَبْدُ اللهَ بن احمد: أَبُو عُبَيْدَةَ هَذَا اسْمُهُ مُحَمَّدٌ، ثِقَةٌ وَأَخُوهُ سَلَمَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارٍ، لَمْ يَرْوِ عَنْهُ إِلَّا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، وَلَا نَعْلَمُ خَبَرَهُ، وَمِقْسَمٌ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ، وَلِهَذَا الْحَدِيثِ طُرُقٌ فِي هَذَا الْمَعْنَى، وَطُرُقٌ أُخَرُ فِي هَذَا الْمَعْنَى صِحَاحٌ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
مقسم کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ تلید بن کلاب لیثی کے ساتھ نکلاہم لوگ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے وہ اس وقت ہاتھوں میں جوتے لٹکائے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے ہم نے ان سے پوچھا کہ غزوہ حنین کے موقع پر جس وقت بنوتمیم کے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تھی کیا آپ وہاں موجود تھے؟ انہوں نے فرمایا: ”ہاں بنوتمیم کا ایک آدمی جسے ذوالخولصیرہ کہا جاتا ہے آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے وہ کہنے لگا کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آج میں نے آپ کو مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تمہیں کیسا لگا؟ اس نے کہا کہ میں نے آپ کو عدل سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا اور فرمایا: ”تجھ پر افسوس! اگر میرے پاس ہی عدل نہ ہو گا تو اور کس کے پاس ہو گا؟
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ!! کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں اسے چھوڑ دو عنقریب اس کے گروہ کے کچھ لوگ ہوں گے جو تعمق فی الدین کی راہ اختیار کر یں گے، وہ لوگ دین سے سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے تیر کے پھل کو دیکھا جائے تو اس پر کچھ نظر نہ آئے دستے پر دیکھآ جائے تو وہاں کچھ نظر نہ آئے اور سوار پر دیکھا جائے تو وہاں کچھ نظر نہ آئے بلکہ وہ تیر لید اور خون پر سبقت لے جائے۔