(حديث مرفوع) قال يعقوب : حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وحدثني يحيى بن عروة بن الزبير ، عن ابيه عروة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قلت له: ما اكثر ما رايت قريشا اصابت من رسول الله، فيما كانت تظهر من عداوته؟ قال: حضرتهم وقد اجتمع اشرافهم يوما في الحجر، فذكروا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: ما راينا مثل ما صبرنا عليه من هذا الرجل قط، سفه احلامنا، وشتم آباءنا، وعاب ديننا، وفرق جماعتنا، وسب آلهتنا، لقد صبرنا منه على امر عظيم، او كما قالوا، قال: فبينما هم كذلك، إذ طلع عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقبل يمشي، حتى استلم الركن، ثم مر بهم طائفا بالبيت، فلما ان مر بهم غمزوه ببعض ما يقول، قال: فعرفت ذلك في وجهه، ثم مضى، فلما مر بهم الثانية، غمزوه بمثلها، فعرفت ذلك في وجهه، ثم مضى، ثم مر بهم الثالثة، فغمزوه بمثلها، فقال:" تسمعون يا معشر قريش، اما والذي نفس محمد بيده، لقد جئتكم بالذبح"، فاخذت القوم كلمته، حتى ما منهم رجل إلا كانما على راسه طائر واقع، حتى إن اشدهم فيه وصاة قبل ذلك ليرفؤه باحسن ما يجد من القول، حتى إنه ليقول: انصرف يا ابا القاسم، انصرف راشدا، فوالله ما كنت جهولا، قال: فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كان الغد، اجتمعوا في الحجر وانا معهم، فقال بعضهم لبعض: ذكرتم ما بلغ منكم وما بلغكم عنه، حتى إذا باداكم بما تكرهون تركتموه! فبينما هم في ذلك، إذ طلع رسول الله صلى الله عليه وسلم فوثبوا إليه وثبة رجل واحد، فاحاطوا به، يقولون له: انت الذي تقول كذا وكذا؟ لما كان يبلغهم عنه من عيب آلهتهم ودينهم، قال: فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم، انا الذي اقول ذلك"، قال: فلقد رايت رجلا منهم اخذ بمجمع ردائه، قال: وقام ابو بكر الصديق رضي الله تعالى عنه، دونه يقول وهو يبكي: اتقتلون رجلا ان يقول ربي الله سورة غافر آية 28؟ ثم انصرفوا عنه، فإن ذلك لاشد ما رايت قريشا بلغت منه قط.(حديث مرفوع) قَالَ يَعْقُوبُ : حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: مَا أَكْثَرَ مَا رَأَيْتَ قُرَيْشًا أَصَابَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ، فِيمَا كَانَتْ تُظْهِرُ مِنْ عَدَاوَتِهِ؟ قَالَ: حَضَرْتُهُمْ وَقَدْ اجْتَمَعَ أَشْرَافُهُمْ يَوْمًا فِي الْحِجْرِ، فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: مَا رَأَيْنَا مِثْلَ مَا صَبَرْنَا عَلَيْهِ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ قَطُّ، سَفَّهَ أَحْلَامَنَا، وَشَتَمَ آبَاءَنَا، وَعَابَ دِينَنَا، وَفَرَّقَ جَمَاعَتَنَا، وَسَبَّ آلِهَتَنَا، لَقَدْ صَبَرْنَا مِنْهُ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، أَوْ كَمَا قَالُوا، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ يَمْشِي، حَتَّى اسْتَلَمَ الرُّكْنَ، ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ طَائِفًا بِالْبَيْتِ، فَلَمَّا أَنْ مَرَّ بِهِمْ غَمَزُوهُ بِبَعْضِ مَا يَقُولُ، قَالَ: فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ مَضَى، فَلَمَّا مَرَّ بِهِمْ الثَّانِيَةَ، غَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا، فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ مَضَى، ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ الثَّالِثَةَ، فَغَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا، فَقَالَ:" تَسْمَعُونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِالذَّبْحِ"، فَأَخَذَتْ الْقَوْمَ كَلِمَتُهُ، حَتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا كَأَنَّمَا عَلَى رَأْسِهِ طَائِرٌ وَاقِعٌ، حَتَّى إِنَّ أَشَدَّهُمْ فِيهِ وَصَاةً قَبْلَ ذَلِكَ لَيَرْفَؤُهُ بِأَحْسَنِ مَا يَجِدُ مِنَ الْقَوْلِ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَقُولُ: انْصَرِفْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، انْصَرِفْ رَاشِدًا، فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ جَهُولًا، قَالَ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ، اجْتَمَعُوا فِي الْحِجْرِ وَأَنَا مَعَهُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: ذَكَرْتُمْ مَا بَلَغَ مِنْكُمْ وَمَا بَلَغَكُمْ عَنْهُ، حَتَّى إِذَا بَادَأَكُمْ بِمَا تَكْرَهُونَ تَرَكْتُمُوهُ! فَبَيْنَمَا هُمْ فِي ذَلِكَ، إِذْ طَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَثَبُوا إِلَيْهِ وَثْبَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَأَحَاطُوا بِهِ، يَقُولُونَ لَهُ: أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ كَذَا وَكَذَا؟ لِمَا كَانَ يَبْلُغُهُمْ عَنْهُ مِنْ عَيْبِ آلِهَتِهِمْ وَدِينِهِمْ، قَالَ: فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، أَنَا الَّذِي أَقُولُ ذَلِكَ"، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ أَخَذَ بِمَجْمَعِ رِدَائِهِ، قَالَ: وَقَامَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، دُونَهُ يَقُولُ وَهُوَ يَبْكِي: أَتَقْتُلُونَ رَجُلا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ سورة غافر آية 28؟ ثُمَّ انْصَرَفُوا عَنْهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَأَشَدُّ مَا رَأَيْتُ قُرَيْشًا بَلَغَتْ مِنْهُ قَطُّ.
عروہ بن زبیررحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے کسی ایسے سخت واقعے کے متعلق بتایئے جو مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روا رکھا ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن اشراف قریش حطیم میں جمع تھے میں بھی وہاں موجود تھا وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکر ہ کر نے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے جیساصبر اس آدمی پر کیا ہے کسی اور پر کبھی نہیں کیا اس نے ہمارے عقلمندوں کو بیوقوف کہا، ہمارے آباؤ اجداد کو برا بھلا کہا ہمارے دین میں عیوب نکالے ہماری جماعت کو منتشر کیا اور ہمارے معبودوں کو برابھلا کہا ہم ان کے معاملے میں بہت صبر کر لیا اسی اثناء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے آگے بڑھے اور حجر اسود کا استلام کیا اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے اس دوران وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتوں میں عیب نکالتے ہوئے ایک دوسرے کو اشارے کر نے لگے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک پر اس کے اثرات محسوس ہوئے تین چکروں میں اسی طرح ہوا بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گروہ قریش تم سنتے ہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے میں تمہارے پاس قربانی لے کر آیا ہوں لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملے پر بڑی شرم آئی اور ان میں سے ایک آدمی بھی ایسا نہ تھا جس کے سر پر پرندے نہ بیٹھے ہوئے محسوس نہ ہوئے ہوں حتیٰ کہ اس سے پہلے جو آدمی انتہائی سخت تھا وہ اب اچھی بات کہنے لگا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم آپ خیر و عافیت کے ساتھ تشریف لے جایئے واللہ آپ نا و قف نہیں ہیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے۔
اگلے دن وہ لوگ پھر حطیم میں جمع ہوئے میں بھی ان کے ساتھ تھا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ پہلے تو تم نے ان سے پہنچنے والی صبر آزما باتوں کا تذکر ہ کیا اور جب وہ تمہارے سامنے ظاہر ہوئے جو تمہیں پسند نہ تھا تو تم نے انہیں چھوڑ دیا ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے وہ سب اکٹھے کودے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرے میں لے کر کہنے لگے کیا تم ہی اس اس طرح کہتے ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! میں ہی اس طرح کہتا ہوں راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو گردن سے پکڑ لیا (اور گھونٹنا شروع کر دیا) یہ دیکھ کر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لئے کھڑے ہوئے وہ روتے ہوئے کہتے جا رہے تھے کیا تم ایک آدمی کو صرف اس وجہ سے قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اس پر وہ لوگ واپس چلے گئے یہ سب سے سخت دن تھا جس میں قریش کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی سخت اذیت پہنچی تھی۔