(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا طلاق فيما لا تملكون، ولا عتاق فيما لا تملكون، ولا نذر فيما لا تملكون، ولا نذر في معصية الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا طَلَاقَ فِيمَا لَا تَمْلِكُونَ، وَلَا عَتَاقَ فِيمَا لَا تَمْلِكُونَ، وَلَا نَذْرَ فِيمَا لَا تَمْلِكُونَ، وَلَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان جس خاتون کا (نکاح یاخرید کرے ذریعہ) مالک نہ ہو اسے طلاق دینے کا بھی حق نہیں رکھتا اپنے غیر مملوک کو آزاد کر نے کا بھی انسان کو کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی غیر مملوک چیز کی منت ماننے کا اختیار ہے اور اللہ کی معصیت میں منت نہیں ہوتی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: لما فتح على رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة، قال:" كفوا السلاح، إلا خزاعة عن بني بكر"، فاذن لهم، حتى صلوا العصر، ثم قال:" كفوا السلاح"، فلقي من الغد رجل من خزاعة رجلا من بني بكر بالمزدلفة، فقتله، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام خطيبا، فقال:" إن اعدى الناس على الله من عدا في الحرم، ومن قتل غير قاتله، ومن قتل بذحول الجاهلية"، فقال رجل: يا رسول الله إن ابني فلانا عاهرت بامه في الجاهلية؟ فقال:" لا دعوة في الإسلام، ذهب امر الجاهلية، الولد للفراش، وللعاهر الاثلب"، قيل: يا رسول الله، وما الاثلب؟ قال:" الحجر، وفي الاصابع عشر عشر، وفي المواضح خمس خمس، ولا صلاة بعد الصبح حتى تشرق الشمس، ولا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا تنكح المراة على عمتها، ولا على خالتها، ولا يجوز لامراة عطية إلا بإذن زوجها، اوفوا بحلف الجاهلية، فإن الإسلام لم يزده إلا شدة، ولا تحدثوا حلفا في الإسلام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةُ، قَالَ:" كُفُّوا السِّلَاحَ، إِلَّا خُزَاعَةَ عَنْ بَنِي بَكْرٍ"، فَأَذِنَ لَهُمْ، حَتَّى صَلَّوْا الْعَصْرَ، ثُمَّ قَالَ:" كُفُّوا السِّلَاحَ"، فَلَقِيَ مِنَ الْغَدِ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ رَجُلًا مِنْ بَنِي بَكْرٍ بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَقَتَلَهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ:" إِنَّ أَعْدَى النَّاسِ عَلَى اللَّهِ مَنْ عَدَا فِي الْحَرَمِ، وَمَنْ قَتَلَ غَيْرَ قَاتِلِهِ، وَمَنْ قَتَلَ بِذُحُولِ الْجَاهِلِيَّةِ"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي فُلَانًا عَاهَرْتُ بِأُمِّهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ فَقَالَ:" لَا دَعْوَةَ فِي الْإِسْلَامِ، ذَهَبَ أَمْرُ الْجَاهِلِيَّةِ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْأَثْلَبُ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْأَثْلَبُ؟ قَالَ:" الْحَجَرُ، وَفِي الْأَصَابِعِ عَشْرٌ عَشْرٌ، وَفِي الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ خَمْسٌ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَشْرُقَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، وَلَا عَلَى خَالَتِهَا، وَلَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا، َأَوْفُوا بِحِلْفِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَإِنَّ الْإِسْلَامَ لَمْ يَزِدْهُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا تُحْدِثُوا حِلْفًا فِي الْإِسْلَامِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بنوخزاعہ کے علاوہ سب لوگ اپنے اسلحے کو روک لو اور بنوخزاعہ کو بنو بکر پر نماز عصرتک کے لئے اجازت دے دی، پھر ان سے بھی فرمایا: ”کہ اسلحہ روک لو اس کے بعد بنوخزاعہ کا ایک آدمی مزدلفہ سے اگلے دن بنو بکر کے ایک آدمی سے ملا اور اسے قتل کر دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمرخانہ کعبہ کے ساتھ لگا رکھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں لوگوں میں سے اللہ کے معاملے میں سب سے آگے بڑھنے والا وہ شخص ہے جو کسی حرم شریف میں قتل کرے یا کسی ایسے شخص کو قتل کرے جو قاتل نہ ہو یا دور جاہلیت کی دشمنی کی وجہ سے کسی کو قتل کرے۔ اسی اثناء میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگے کہ فلاں بچہ میرا بیٹا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں اس دعویٰ کا کوئی اعتبار نہیں جاہلیت کا معاملہ ختم ہوچکا، بچہ بستر والے کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں پھر دیت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں سر کے زخم میں پانچ پانچ اونٹ ہیں پھر نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نفل نماز نہیں ہے اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک بھی کوئی نفل نماز نہیں ہے اور فرمایا: ”کہ کوئی شخص کسی عورت سے اس کی پھوپھی یا خالہ کی موجودگی میں نکاح نہ کرے اور کسی عورت کے لئے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی عطیہ قبول کر نے کی اجازت نہیں اور زمانہ جاہلیت کے معاہدے پورے کیا کرو کیونکہ اسلام نے اس کی شدت میں اضافہ ہی کیا ہے البتہ اسلام میں ایسا کوئی نیا معاہدہ نہ کرو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ”یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے اگر اللہ اپنے حکم سے اس سے نہ بچاتا تو یہ زمین پر موجود ساری چیزیں تباہ کر دیتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مولى عبد الله بن عمرو.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا حق نہ پہچانے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس وعنعن.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت رجلا من مزينة وهو يسال النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر نحو حديث ابن إدريس، قال: و ساله عن الثمار وما كان في اكمامه، فقال:" من اكل بفمه، ولم يتخذ خبنة فليس عليه شيء، ومن وجد قد احتمل ففيه ثمنه مرتين وضرب نكال، فما اخذ من جرانه، ففيه القطع، إذا بلغ ما يؤخذ من ذلك ثمن المجن"، قال: يا رسول الله، ما نجد في السبيل العامر من اللقطة، قال:" عرفها حولا، فإن جاء صاحبها، وإلا فهي لك"، قال: يا رسول الله، ما نجد في الخرب العادي؟ قال:" فيه وفي الركاز الخمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ مُزَيْنَةَ وَهُوَ يَسْأَلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ إِدْرِيسَ، قَالَ: وَ سَأَلَهُ عَنِ الثِّمَارِ وَمَا كَانَ فِي أَكْمَامِهِ، فَقَالَ:" مَنْ أَكَلَ بِفَمِهِ، وَلَمْ يَتَّخِذْ خُبْنَةً فَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ، وَمَنْ وُجِدَ قَدْ احْتَمَلَ فَفِيهِ ثَمَنُهُ مَرَّتَيْنِ وَضَرْبُ نَكَالٍ، فَمَا أَخَذَ مِنْ جِرَانِهِ، فَفِيهِ الْقَطْعُ، إِذَا بَلَغَ مَا يُؤْخَذُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَجِدُ فِي السَّبِيلِ الْعَامِرِ مِنَ اللُّقَطَةِ، قَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا، وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَجِدُ فِي الْخَرِبِ الْعَادِيِّ؟ قَالَ:" فِيهِ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتے ہوئے سنا۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی اور فرمایا: ”کہ اس نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص خوشوں سے توڑ کر پھل چوری کر لے تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جو پھل کھا لئے اور انہیں چھپا کر نہیں ان پر تو کوئی چیز واجب نہیں ہو گی لیکن جو پھل وہ اٹھا کر لے جائے تو اس کی دوگنی قیمت اور پٹائی اور سزا واجب ہو گی اور اگر وہ پھلوں کو خشک کر نے کی جگہ سے چوری کئے گئے اور ان کی مقدار کم از کم ایک ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اس نے پوچھا یا رسول اللہ!! اس گری پڑی چیز کا کیا حکم ہے جو ہمیں کسی آباد علاقے کے راستے میں ملے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورے ایک سال تک اس کی تشہیر کر اؤ اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کے حوالے کر دو ورنہ وہ تمہاری ہے اس نے کہا کہ اگر یہی چیز کسی ویرانے میں ملے تو؟ فرمایا: ”اس میں اور رکاز میں خمس واجب ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نتف الشيب، وقال:" هو نور المؤمن"، وقال:" ما شاب رجل في الإسلام شيبة، إلا رفعه الله بها درجة، ومحيت عنه بها سيئة، وكتبت له بها حسنة". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس منا من لم يوقر كبيرنا، ويرحم صغيرنا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَتْفِ الشَّيْبِ، وَقَالَ:" هُوَ نُورُ الْمُؤْمِنِ"، وَقَالَ:" مَا شَابَ رَجُلٌ فِي الْإِسْلَامِ شَيْبَةً، إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، وَمُحِيَتْ عَنْهُ بِهَا سَيِّئَةٌ، وَكُتِبَتْ لَهُ بِهَا حَسَنَةٌ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يُوَقِّرْ كَبِيرَنَا، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید بالوں کو نوچنے سے منع فرمایا ہے کہ یہ مسلمانوں کا نور ہے جس مسلمان کے بال حالت میں اسلام میں سفید ہوتے ہیں اس کے ہر بال پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے، ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے یا ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا احترام نہ کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا الحجاج بن ارطاة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رد ابنته إلى ابي العاص بمهر جديد ونكاح جديد، قال عبد الله بن احمد: قال ابي: في حديث حجاج رد زينب ابنته، قال: هذا حديث ضعيف، او قال: واه، ولم يسمعه الحجاج من عمرو بن شعيب، إنما سمعه من محمد بن عبيد الله العرزمي، والعرزمي لا يساوي حديثه شيئا، والحديث الصحيح الذي روي ان النبي صلى الله عليه وسلم اقرهما على النكاح الاول.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ ابْنَتَهُ إِلَى أَبِي الْعَاصِ بِمَهْرٍ جَدِيدٍ وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ، قًَالَ عَبِدُ اللهَ بْنُ أَحَمْد: قَالَ أَبِي: فِي حَدِيثِ حَجَّاجٍ رَدَّ زَيْنَبَ ابْنَتَهُ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ ضَعِيفٌ، أَوْ قَالَ: وَاهٍ، وَلَمْ يَسْمَعْهُ الْحَجَّاجُ مِنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، إِنَّمَا سَمِعَهُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الْعَرْزَمِيِّ، وَالْعَرْزَمِيُّ لَا يُسَاوِي حَدِيثُهُ شَيْئًا، وَالْحَدِيثُ الصَّحِيحُ الَّذِي رُوِيَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَرَّهُمَا عَلَى النِّكَاحِ الْأَوَّلِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی سیدنا زینب رضی اللہ عنہ کو اپنے داماد ابوالعاص کے پاس نئے مہر اور نئے نکاح کے بعد واپس بھیجا تھا۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ حجاج کا سماع عمرو بن شعیب سے ثابت نہیں صحیح حدیث یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کا پہلا نکاح ہی برقرار شمار کیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الحجاج بن أرطاة كثير الخطأ والتدليس.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا الحجاج بن ارطاة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاءت امراتان من اهل اليمن إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليهما اسورة من ذهب، فقال:" اتحبان ان يسوركما الله باسورة من نار؟" قالتا: لا، قال:" فاديا حق هذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَتَانِ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِمَا أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ:" أَتُحِبَّانِ أَنْ يُسَوِّرَكُمَا اللَّهُ بِأَسْوِرَةٍ مِنْ نَارٍ؟" قَالَتَا: لَا، قَالَ:" فَأَدِّيَا حَقَّ هَذَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ دو یمنی عورتیں آئیں جن کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں اس بات کو پسند کر تی ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے؟ وہ کہنے لگیں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر تمہارے ہاتھوں میں جو کنگن ہیں ان کا حق ادا کرو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی خائن مرد و عورت کی گواہی مقبول نہیں نیز جس شخص کو اسلام میں حد لگائی گئی ہو یا وہ آدمی جو ناتجربہ کار ہو اس کی گواہی بھی اس کے بھائی کے حق میں مقبول نہیں۔