(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: لما فتح على رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة، قال:" كفوا السلاح، إلا خزاعة عن بني بكر"، فاذن لهم، حتى صلوا العصر، ثم قال:" كفوا السلاح"، فلقي من الغد رجل من خزاعة رجلا من بني بكر بالمزدلفة، فقتله، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام خطيبا، فقال:" إن اعدى الناس على الله من عدا في الحرم، ومن قتل غير قاتله، ومن قتل بذحول الجاهلية"، فقال رجل: يا رسول الله إن ابني فلانا عاهرت بامه في الجاهلية؟ فقال:" لا دعوة في الإسلام، ذهب امر الجاهلية، الولد للفراش، وللعاهر الاثلب"، قيل: يا رسول الله، وما الاثلب؟ قال:" الحجر، وفي الاصابع عشر عشر، وفي المواضح خمس خمس، ولا صلاة بعد الصبح حتى تشرق الشمس، ولا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا تنكح المراة على عمتها، ولا على خالتها، ولا يجوز لامراة عطية إلا بإذن زوجها، اوفوا بحلف الجاهلية، فإن الإسلام لم يزده إلا شدة، ولا تحدثوا حلفا في الإسلام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةُ، قَالَ:" كُفُّوا السِّلَاحَ، إِلَّا خُزَاعَةَ عَنْ بَنِي بَكْرٍ"، فَأَذِنَ لَهُمْ، حَتَّى صَلَّوْا الْعَصْرَ، ثُمَّ قَالَ:" كُفُّوا السِّلَاحَ"، فَلَقِيَ مِنَ الْغَدِ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ رَجُلًا مِنْ بَنِي بَكْرٍ بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَقَتَلَهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ:" إِنَّ أَعْدَى النَّاسِ عَلَى اللَّهِ مَنْ عَدَا فِي الْحَرَمِ، وَمَنْ قَتَلَ غَيْرَ قَاتِلِهِ، وَمَنْ قَتَلَ بِذُحُولِ الْجَاهِلِيَّةِ"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي فُلَانًا عَاهَرْتُ بِأُمِّهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ فَقَالَ:" لَا دَعْوَةَ فِي الْإِسْلَامِ، ذَهَبَ أَمْرُ الْجَاهِلِيَّةِ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْأَثْلَبُ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْأَثْلَبُ؟ قَالَ:" الْحَجَرُ، وَفِي الْأَصَابِعِ عَشْرٌ عَشْرٌ، وَفِي الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ خَمْسٌ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَشْرُقَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، وَلَا عَلَى خَالَتِهَا، وَلَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا، َأَوْفُوا بِحِلْفِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَإِنَّ الْإِسْلَامَ لَمْ يَزِدْهُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا تُحْدِثُوا حِلْفًا فِي الْإِسْلَامِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بنوخزاعہ کے علاوہ سب لوگ اپنے اسلحے کو روک لو اور بنوخزاعہ کو بنو بکر پر نماز عصرتک کے لئے اجازت دے دی، پھر ان سے بھی فرمایا: ”کہ اسلحہ روک لو اس کے بعد بنوخزاعہ کا ایک آدمی مزدلفہ سے اگلے دن بنو بکر کے ایک آدمی سے ملا اور اسے قتل کر دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمرخانہ کعبہ کے ساتھ لگا رکھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں لوگوں میں سے اللہ کے معاملے میں سب سے آگے بڑھنے والا وہ شخص ہے جو کسی حرم شریف میں قتل کرے یا کسی ایسے شخص کو قتل کرے جو قاتل نہ ہو یا دور جاہلیت کی دشمنی کی وجہ سے کسی کو قتل کرے۔ اسی اثناء میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگے کہ فلاں بچہ میرا بیٹا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں اس دعویٰ کا کوئی اعتبار نہیں جاہلیت کا معاملہ ختم ہوچکا، بچہ بستر والے کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں پھر دیت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں سر کے زخم میں پانچ پانچ اونٹ ہیں پھر نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نفل نماز نہیں ہے اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک بھی کوئی نفل نماز نہیں ہے اور فرمایا: ”کہ کوئی شخص کسی عورت سے اس کی پھوپھی یا خالہ کی موجودگی میں نکاح نہ کرے اور کسی عورت کے لئے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی عطیہ قبول کر نے کی اجازت نہیں اور زمانہ جاہلیت کے معاہدے پورے کیا کرو کیونکہ اسلام نے اس کی شدت میں اضافہ ہی کیا ہے البتہ اسلام میں ایسا کوئی نیا معاہدہ نہ کرو۔