سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”والدین کا کوئی نافرمان، کوئی احسان جتانے والا اور کوئی عادی شرابی اور کوئی ولد زنا جنت میں داخل نہ ہو گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «ولا ولد زنية» ، وهذا إسناد ضعيف لجهالة جابان
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ عورت اپنے بچے کی زیادہ حقدار ہے جب تک وہ کسی اور سے شادی نہیں کر لیتی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن منصور ، عن هلال بن يساف ، عن ابي يحيى ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي قاعدا، فقلت: يا رسول الله، إني حدثت انك قلت:" ان صلاة القاعد على النصف من صلاة القائم"، وانت تصلي جالسا؟ قال:" اجل ولكني لست كاحد منكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ ، عَنْ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرو ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي قَاعِدًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حُدِّثْتُ أَنَّكَ قُلْتَ:" أَنَّ صَلَاةَ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ"، وَأَنْتَ تُصَلِّي جَالِسًا؟ قَالَ:" أَجَلْ وَلَكِنِّي لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر نوافل پڑھتے ہوئے دیکھا میں نے عرض کیا مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے سے آدھا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله لا ينزع العلم من الناس بعد ان يعطيهم إياه، ولكن يذهب بالعلماء، كلما ذهب عالم ذهب بما معه من العلم، حتى يبقى من لا يعلم، فيتخذ الناس رؤساء جهالا، فيستفتوا، فيفتوا بغير علم، فيضلوا، ويضلوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْزِعُ الْعِلْمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ أَنْ يُعْطِيَهُمْ إِيَّاهُ، وَلَكِنْ يَذْهَبُ بِالْعُلَمَاءِ، كُلَّمَا ذَهَبَ عَالِمٌ ذَهَبَ بِمَا مَعَهُ مِنَ الْعِلْمِ، حَتَّى يَبْقَى مَنْ لَا يَعْلَمُ، فَيَتَّخِذَ النَّاسُ رُؤَسَاءَ جُهَّالًا، فَيُسْتَفْتَوْا، فَيُفْتُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَيَضِلُّوا، وَيُضِلُّوا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے درمیان سے کھینچ لے گا بلکہ علماء کو اٹھا کر علم اٹھالے گا حتٰی کہ جب ایک عالم بھی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے اور انہیں سے مسائل معلوم کیا کر یں گے وہ علم کے بغیر انہیں فتویٰ دیں گے نتیجہ یہ ہو گا کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر یں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن ابن المسيب ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" المقسطون في الدنيا على منابر من لؤلؤ يوم القيامة، بين يدي الرحمن عز وجل، بما اقسطوا في الدنيا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمُقْسِطُونَ فِي الدُّنْيَا عَلَى مَنَابِرَ مِنْ لُؤْلُؤٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْنَ يَدَيْ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، بِمَا أَقْسَطُوا فِي الدُّنْيَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دنیا میں عدل و انصاف کر نے والے قیامت کے دن اپنے اس عدل و انصاف کی برکت سے رحمان کے سامنے موتیوں کے منبر پر جلوہ افروز ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني عمرو بن شعيب ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال:" بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ببعض اعلى الوادي، نريد ان نصلي، قد قام وقمنا، إذ خرج علينا حمار من شعب ابي دب، شعب ابي موسى، فامسك النبي صلى الله عليه وسلم فلم يكبر، واجرى إليه يعقوب بن زمعة، حتى رده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ:" بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَعَلَى الْوَادِي، نُرِيدُ أَنْ نُصَلِّيَ، قَدْ قَامَ وَقُمْنَا، إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا حِمَارٌ مِنْ شِعْبِ أَبِي دُبٍّ، شِعْبِ أَبِي مُوسَى، فَأَمْسَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُكَبِّرْ، وَأَجْرَى إِلَيْهِ يَعْقُوبَ بْنَ زَمْعَةَ، حَتَّى رَدَّهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی وادی کے بالائی حصے میں تھے نماز پڑھنے کا ارادہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے اچانک شعب ابی دب کی جانب سے ایک گدھا ہمارے سامنے نکل آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور اس وقت تک تکبیر نہیں کہی جب تک یعقوب بن زمعہ نے دوڑ کر اسے بھگا نہ دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لا نقطاعه ، عمرو بن شعيب لم يدرك عبدالله بن عمرو
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی خائن مرد و عورت کی گواہی اور کسی ناتجربہ کار آدمی کی اپنے بھائی کے متعلق گواہی مقبول نہیں نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوکر کی گواہی اس کے مالکان کے حق میں قبول نہیں فرمائی البتہ دوسرے لوگوں کے حق میں قبول فرمائی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا نصر بن باب ، عن الحجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، انه قال: إن امراتين من اهل اليمن اتتا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعليهما سواران من ذهب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتحبان ان سوركما الله سوارين من نار؟" قالتا: لا، والله يا رسول الله، قال:" فاديا حق الله عليكما في هذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ امْرَأَتَيْنِ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ أَتَتَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَيْهِمَا سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتُحِبَّانِ أَنْ سَوَّرَكُمَا اللَّهُ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟" قَالَتَا: لَا، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" فَأَدِّيَا حَقَّ اللَّهِ عَلَيْكُمَا فِي هَذَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ دو یمنی عورتیں آئیں جن کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں اس بات کو پسند کر تی ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے؟ وہ کہنے لگیں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر تمہارے ہاتھوں میں جو کنگن ہیں ان کا حق ادا کرو۔