سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ چالیس نیکیاں جن میں سے سب سے اعلیٰ نیکی بکر ی کا تحفہ ہے ایسی ہیں کہ جو شخص ان میں سے کسی ایک نیکی پر اس کے ثواب کی امید اور اللہ کے وعدے کو سچا سمجھتے ہوئے عمل کر لے اللہ اسے جنت میں داخلہ عطا فرمائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا محمد بن مهاجر ، اخبرني عروة بن رويم ، عن ابن الديلمي الذي كان يسكن بيت المقدس، قال: ثم سالته هل سمعت يا عبد الله بن عمرو رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شارب الخمر بشيء؟ قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يشرب الخمر احد من امتي فيقبل الله منه صلاة اربعين صباحا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ رُوَيْمٍ ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ الَّذِي كَانَ يَسْكُنُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، قَالَ: ثُمَّ سَأَلْتُهُ هَلْ سَمِعْتَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَارِبَ الْخَمْرِ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي فَيَقْبَلَ اللَّهُ مِنْهُ صَلَاةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا".
عبداللہ بن دیلمی رحمہ اللہ جو بیت المقدس میں رہتے تھے " کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے عبداللہ بن عمرو کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شرابی کے متعلق کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ”ہاں! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص شراب کا ایک گھونٹ پی لے چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الله خلق خلقه، ثم جعلهم في ظلمة، ثم اخذ من نوره ما شاء فالقاه عليهم، فاصاب النور من شاء ان يصيبه، واخطا من شاء، فمن اصابه النور يومئذ فقد اهتدى، ومن اخطا يومئذ ضل، فلذلك قلت جف القلم بما هو كائن".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ خَلْقَهُ، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِي ظُلْمَةٍ، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ نُورِهِ مَا شَاءَ فَأَلْقَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَصَابَ النُّورُ مَنْ شَاءَ أَنْ يُصِيبَهُ، وَأَخْطَأَ مَنْ شَاءَ، فَمَنْ أَصَابَهُ النُّورُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ اهْتَدَى، وَمَنْ أَخْطَأَ يَوْمَئِذٍ ضَلَّ، فَلِذَلِكَ قُلْتُ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ".
اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر اسی دن ان پر نور ڈالا جس پر وہ نور پڑگیا وہ ہدایت پا گیا اور جسے وہ نور نہ مل سکا وہ گمراہ ہو گیا اسی وجہ سے کہتا ہوں کہ اللہ کے علم کے مطابق لکھ کر قلم خشک ہوچکے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دنیا مؤمن کا قیدخانہ اور قحط سالی ہے جب وہ دنیاکو چھوڑے گا تو قید اور قحط سے بھی نجات پآ جائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن إسحاق ، اخبرنا عبد الله ، اخبرنا سعيد بن يزيد ، عن ابي السمح ، عن عيسى بن هلال الصدفي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو ان رصاصة مثل هذه، واشار إلى مثل جمجمة، ارسلت من السماء إلى الارض، وهي مسيرة خمس مائة سنة، لبلغت الارض قبل الليل، ولو انها ارسلت من راس السلسلة، لسارت اربعين خريفا، الليل والنهار، قبل ان تبلغ اصلها، او قعرها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي السَّمْحِ ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ أَنَّ رَصَاصَةً مِثْلَ هَذِهِ، وَأَشَارَ إِلَى مِثْلِ جُمْجُمَةٍ، أُرْسِلَتْ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَهِيَ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، لَبَلَغَتْ الْأَرْضَ قَبْلَ اللَّيْلِ، وَلَوْ أَنَّهَا أُرْسِلَتْ مِنْ رَأْسِ السِّلْسِلَةِ، لَسَارَتْ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا، اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، قَبْلَ أَنْ تَبْلُغَ أَصْلَهَا، أَوْ قَعْرَهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اتنا سا پتھریہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھوپڑی کی طرف اشارہ کیا آسمان سے زمین کی طرف پھینکآ جائے جو کہ پانچ سو سال کی مسافت بنتی ہے تو وہ رات ہونے سے پہلے زمین تک پہنچ جائے گا اور اگر اسے زنجیر کے سرے سے پھینکا جائے تو وہ دن رات چالیس سال تک مسلسل لڑھکتا رہے گا اور اس کے بعد وہ اپنی اصل تک پہنچ سکے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، وبهز ، قالا: حدثنا شعبة ، عن حبيب بن ابي ثابت ، قال: سمعت ابا العباس ، وكان رجلا شاعرا، سمعت عبد الله بن عمرو ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستاذنه في الجهاد، فقال:" احي والداك؟" قال: نعم، قال:" ففيهما فجاهد". قال بهز: اخبرني ابن ابي ثابت، عن ابي العباس، قال: سالت عبد الله بن عمرو.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَبَهْزٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ ، وَكَانَ رَجُلًا شَاعِرًا، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَهُ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ:" أَحَيٌّ وَالِدَاكَ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ". قَالَ بَهْزٌ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لئے آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے والدین حیات ہیں؟ اس نے کہا کہ جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور ان ہی میں جہاد کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، اخبرني يعلى بن عطاء ، عن ابيه ، قال: اظنه عن عبد الله بن عمرو ، قال: شعبة شك، قام رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يستاذنه في الجهاد، فقال:" فهل لك والدان"، قال: نعم، قال: امي، قال:" انطلق فبرها"، قال: فانطلق يتخلل الركاب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَظُنُّهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: شُعْبَةُ شَكَّ، قَامَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْذِنُهُ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ:" فَهَلْ لَكَ وَالِدَانِ"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أُمِّي، قَالَ:" انْطَلِقْ فَبِرَّهَا"، قَالَ: فَانْطَلَقَ يَتَخَلَّلُ الرِّكَابَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شرکت جہاد کی اجازت حاصل کے لئے حاضر ہوا اور کہنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا کہ جی ہاں میری والدہ زندہ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو چنانچہ وہ سواریوں کے درمیان سے گزرتا ہوا چلا گیا۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا بهز ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، عن ثابت ، حدثنا رجل من الشام، وكان يتبع عبد الله بن عمرو بن العاص ويسمع، قال كنت معه فلقي نوفا، فقال: نوف ذكر لنا ان الله تعالى قال لملائكته:" ادعوا لي عبادي"، قالوا: يا رب، كيف والسموات السبع دونهم، والعرش فوق ذلك؟ قال:" إنهم إذا قالوا: لا إله إلا الله استجابوا". (حديث قدسي) (حديث موقوف) قال: قال: يقول له عبد الله بن عمرو : صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة المغرب او غيرها، قال: فجلس قوم انا فيهم ينتظرون الصلاة الاخرى، قال: فاقبل إلينا يسرع المشي، كاني انظر إلى رفعه إزاره، ليكون احث له في المشي، فانتهى إلينا، فقال:" الا ابشروا، هذاك ربكم امر بباب السماء الوسطى او قال: بباب السماء ففتح، ففاخر بكم الملائكة، قال: انظروا إلى عبادي، ادوا حقا من حقي، ثم هم ينتظرون اداء حق آخر يؤدونه".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنَ الشَّامِ، وَكَانَ يَتْبَعُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَيَسْمَعُ، قَالَ كُنْتُ مَعَهُ فَلَقِيَ نَوْفًا، فَقَالَ: نَوْفٌ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِمَلَائِكَتِهِ:" ادْعُوا لِي عِبَادِي"، قَالُوا: يَا رَبِّ، كَيْفَ وَالسَّمَوَاتُ السَّبْعُ دُونَهُمْ، وَالْعَرْشُ فَوْقَ ذَلِكَ؟ قَالَ:" إِنَّهُمْ إِذَا قَالُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ اسْتَجَابُوا". (حديث قدسي) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: يَقُولُ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ أَوْ غَيْرَهَا، قَالَ: فَجَلَسَ قَوْمٌ أَنَا فِيهِمْ يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ الْأُخْرَى، قَالَ: فَأَقْبَلَ إِلَيْنَا يُسْرِعُ الْمَشْيَ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَفْعِهِ إِزَارَهُ، لِيَكُونَ أَحَثَّ لَهُ فِي الْمَشْيِ، فَانْتَهَى إِلَيْنَا، فَقَالَ:" أَلَا أَبْشِرُوا، هَذَاكَ رَبُّكُمْ أَمَرَ بِبَابِ السَّمَاءِ الْوُسْطَى أَوْ قَالَ: بِبَابِ السَّمَاءِ فَفُتِحَ، فَفَاخَرَ بِكُمْ الْمَلَائِكَةَ، قَالَ: انْظُرُوا إِلَى عِبَادِي، أَدَّوْا حَقًّا مِنْ حَقِّي، ثُمَّ هُمْ يَنْتَظِرُونَ أَدَاءَ حَقٍّ آخَرَ يُؤَدُّونَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ اور نوف کسی مقام پر جمع ہوئے نوف کہنے لگے کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے فرمایا: ”میرے بندوں کو بلاؤ فرشتوں نے عرض کیا پروردگار یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ان کے درمیان سات آسمان اور اس سے آگے عرش حائل ہے؟ اللہ نے فرمایا: ”جب وہ لاالہ اللہ اللہ کہہ لیں تو ان کی پکار قبول ہو گی۔ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے ایک دن مغرب کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی کچھ لوگ " جن میں میں بھی شامل تھا " دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے ہماری طرف آتے ہوئے دیکھائی دیئے میری نگاہوں میں اب بھی وہ منظر محفوظ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند اٹھا رکھا تھا تاکہ چلنے میں آسانی ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس پہنچ کر فرمایا: ”تمہیں خوشخبری ہو تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھولا ہے اور وہ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرما رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرے ان بندوں نے ایک فرض ادا کر دیا ہے اور دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ناحق کسی چڑیا کو بھی مارے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اس کی باز پرس کرے گا کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! حق کیا ہے؟ فرمایا: ”اسے ذبح کرے گردن سے نہ پکڑے کہ اسے توڑ ہی دے۔