عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا، میرے والد نے پوچھا: کیا آپ نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”ندامت بھی توبہ ہے“؟ فرمایا: ہاں!
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن ذر ، عن وائل بن مهانة ، عن عبد الله بن مسعود ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" تصدقن يا معشر النساء، ولو من حليكن، فإنكن اكثر اهل النار"، فقامت امراة ليست من علية النساء، فقالت: لم يا رسول الله؟ قال:" لانكن تكثرن اللعن، وتكفرن العشير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ مَهَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تَصَدَّقْنَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ"، فَقَامَتِ امْرَأَةٌ لَيْسَتْ مِنْ عِلْيَةِ النِّسَاءِ، فَقَالَتْ: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لِأَنَّكُنَّ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے گروہ نسواں! صدقہ دیا کرو خواہ اپنے زیور ہی میں سے کیوں نہ دو، کیونکہ تم جہنم میں اکثریت ہو“، ایک عورت - جو اونچی عورتوں میں سے نہ تھی - کھڑی ہو کر کہنے لگی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ”اس کی وجہ یہ ہے کہ تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری و نافرمانی بہت کرتی ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، ان النبي صلى الله عليه وسلم سجدهما بعد السلام، وقال مرة: إن النبي صلى الله عليه وسلم" سجد السجدتين في السهو بعد السلام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَهُمَا بَعْدَ السَّلَامِ، وَقَالَ مَرَّةً: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سَجَدَ السَّجْدَتَيْنِ فِي السَّهْوِ بَعْدَ السَّلَامِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دو سجدے سلام پھیرنے کے بعد کئے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان بن عيينة ، حدثنا عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" لا تقوم الساعة حتى يلي رجل من اهل بيتي، يواطئ اسمه اسمي"، قال عبد الله: قال ابي: حدثنا به في بيته، في غرفته، اراه ساله بعض ولد جعفر بن يحيى، او يحيى بن خالد بن يحيى.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَلِيَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي، يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي"، قَالَ عبد الله: قال أَبِي: حَدَّثَنَا بِهِ فِي بَيْتِهِ، فِي غُرْفَتِهِ، أُرَاهُ سَأَلَهُ بَعْضُ وَلَدِ جَعْفَرِ بْنِ يَحْيَى، أَوْ يَحْيَى بْنِ خَالِدِ بْنِ يَحْيَى.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک میرے اہل بیت میں سے ایک ایسے شخص کی حکومت نہ آ جائے جس کا نام میرے نام کے موافق ہو گا۔“ عبداللہ بن احمد کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہم سے ہمارے والد نے اپنے گھر میں اپنے کمرے میں بیان فرمائی تھی، شاید جعفر بن یحییٰ، یا یحییٰ بن خالد کی اولاد میں سے کسی نے ان سے اس کے متعلق سوال کیا تھا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دن اور رات کا چکر اور زمانہ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا یعنی قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک عرب میں میرے اہل بیت میں سے ایک ایسے شخص کی حکومت نہ آ جائے جس کا نام میرے نام کے موافق ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سفيان ، حدثني عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تذهب الدنيا او قال: لا تنقضي الدنيا حتى يملك العرب رجل من اهل بيتي، ويواطئ اسمه اسمي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا أَوْ قَالَ: لَا تَنْقَضِي الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي، وَيُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دن اور رات کا چکر اور زمانہ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا یعنی قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک عرب میں میرے اہل بیت میں سے ایک ایسے شخص کی حکومت نہ آ جائے جس کا نام میرے نام کے موافق ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في غار، فنزلت عليه: والمرسلات عرفا فاخذتها من فيه، وإن فاه لرطب بها، فلا ادري بايها ختم فباي حديث بعده يؤمنون سورة الاعراف آية 185 او وإذا قيل لهم اركعوا لا يركعون سورة المرسلات آية 48؟ سبقتنا حية، فدخلت في جحر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" قد وقيتم شرها، ووقيت شركم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَارٍ، فَنَزَلَتْ عَلَيْهِ: وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا فَأَخَذْتُهَا مِنْ فِيهِ، وَإِنَّ فَاهُ لَرَطْبٌ بِهَا، فَلَا أَدْرِي بِأَيِّهَا خَتَمَ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ سورة الأعراف آية 185 أَوْ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لا يَرْكَعُونَ سورة المرسلات آية 48؟ سَبَقَتْنَا حَيَّةٌ، فَدَخَلَتْ فِي جُحْرٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ وُقِيتُمْ شَرَّهَا، وَوُقِيَتْ شَرَّكُمْ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غار میں تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ مرسلات نازل ہوئی جسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلتے ہی یاد کر لیا، ابھی وہ سورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک پر تازہ ہی تھی، مجھے یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سی آیت ختم کی «﴿فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ﴾» یا «﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا يَرْكَعُونَ﴾» کہ اچانک ایک سانپ نکل آیا اور جلدی سے ایک سوراخ میں گھس گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے شر سے تمہاری اور تمہارے شر سے اس کی بچت ہو گئی۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، خ: 1830، م: 2234
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عاصم ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: كنا نسلم على النبي صلى الله عليه وسلم إذا كنا بمكة قبل ان ناتي ارض الحبشة، فلما قدمنا من ارض الحبشة، اتيناه فسلمنا عليه، فلم يرد، فاخذني ما قرب وما بعد، حتى قضوا الصلاة، فسالته، فقال:" إن الله عز وجل يحدث في امره ما يشاء، وإنه قد احدث من امره ان لا نتكلم في الصلاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كُنَّا بِمَكَّةَ قَبْلَ أَنْ نَأْتِيَ أَرْضَ الْحَبَشَةِ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ، أَتَيْنَاهُ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ، فَأَخَذَنِي مَا قَرُبَ وَمَا بَعُدَ، حَتَّى قَضَوْا الصَّلَاةَ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحْدِثُ فِي أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ، وَإِنَّهُ قَدْ أُحْدِثَ مِنْ أَمْرِهِ أَنْ لَا نَتَكَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سر زمین حبشہ جانے سے پہلے ابتدا میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران نماز سلام کرتے (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دے دیتے تھے)، لیکن جب ہم نجاشی کے یہاں سے واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، اس پر مجھے دور اور نزدیک کے اندیشے ہونے لگے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ”اللہ تعالیٰ جو فیصلہ چاہتا ہے کر لیتا ہے، اس معاملے میں اللہ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم دوران نماز باتیں نہ کیا کریں۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد حسن، خ: 1199، م: 538
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن جامع ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من حلف على يمين، يقتطع بها مال مسلم، لقي الله وهو عليه غضبان"، وقرا علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مصداقه من كتاب الله عز وجل إن الذين يشترون بعهد الله وايمانهم ثمنا قليلا اولئك لا خلاق لهم في الآخرة ولا يكلمهم الله سورة آل عمران آية 77.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَامِعٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ، يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ"، وَقَرَأَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِصْدَاقَهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا أُولَئِكَ لا خَلاقَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ وَلا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ سورة آل عمران آية 77.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی معاملے میں قسم اٹھا کر کسی مسلمان کا مال حاصل کر لے تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے ناراض ہو گا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تائید کے لئے قرآن کریم کی یہ آیت ہمارے سامنے تلاوت فرمائی: «﴿إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ﴾ [آل عمران: 77] »”جو لوگ اللہ کے وعدے اور اپنی قسموں کے بدلے معمولی سی قیمت لے لیتے ہیں، آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور اللہ ان سے کلام تک نہیں کرے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن جامع ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" لا يمنع عبد زكاة ماله إلا جعل له شجاع اقرع يتبعه، يفر منه وهو يتبعه، فيقول: انا كنزك"، ثم قرا عبد الله مصداقه في كتاب الله سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة سورة آل عمران آية 180، قال سفيان مرة: يطوقه في عنقه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَامِعٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَمْنَعُ عَبْدٌ زَكَاةَ مَالِهِ إِلَّا جُعِلَ لَهُ شُجَاعٌ أَقْرَعُ يَتْبَعُهُ، يَفِرُّ مِنْهُ وَهُوَ يَتْبَعُهُ، فَيَقُولُ: أَنَا كَنْزُكَ"، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ مِصْدَاقَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سورة آل عمران آية 180، قَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: يُطَوَّقُهُ فِي عُنُقِهِ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ روک کر رکھتا ہے اس کے مال کو گنجا سانپ بنا دیا جائے گا، وہ اس سے بچ کر بھاگے گا اور وہ سانپ اس کے پیچھے پیچھے ہو گا اور کہے گا کہ میں ہی تیرا خزانہ ہوں“، پھر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی تائید میں قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی: «﴿سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ [آل عمران: 180] »”عنقریب ان کی گردن میں قیامت کے دن وہ مال و دولت طوق بنا کر ڈالاجائے گا جس میں وہ بخل کرتے تھے۔“