(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا صخر ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبيع حاضر لباد"، وكان يقول:" لا تلقوا البيوع، ولا يبع بعض على بيع بعض، ولا يخطب احدكم، او احد، على خطبة اخيه، حتى يترك الخاطب الاول، او ياذنه فيخطب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا صَخْرٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ"، وَكَانَ يَقُولُ:" لَا تَلَقَّوْا الْبُيُوعَ، وَلَا يَبِعْ بَعْضٌ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلَا يَخْطُبْ أَحَدُكُمْ، أَوْ أَحَدٌ، عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ، حَتَّى يَتْرُكَ الْخَاطِبُ الْأَوَّلُ، أَوْ يَأْذَنَهُ فَيَخْطُبَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا: ”ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لئے بیع کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تاجروں سے پہلے ہی مت ملا کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام نکاح نہ بھیجے الاّ یہ کہ اسے اس کی اجازت مل جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، وعفان , قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر , ان عمر رضي الله تعالى عنه , سال رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجعرانة , فقال: إني كنت نذرت في الجاهلية ان اعتكف في المسجد الحرام؟ قال عبد الصمد ومعه غلام من سبي هوازن، فقال له:" اذهب فاعتكف"، فذهب، فاعتكف، فبينما هو يصلي إذ سمع الناس , يقولون: اعتق رسول الله صلى الله عليه وسلم سبي هوازن، فدعا الغلام فاعتقه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ , سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعِرَّانَةِ , فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ؟ قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ وَمَعَهُ غُلَامٌ مِنْ سَبْيِ هَوَازِنَ، فَقَالَ لَهُ:" اذْهَبْ فَاعْتَكِفْ"، فَذَهَبَ، فَاعْتَكَفَ، فَبَيْنَمَا هُوَ يُصَلِّي إِذْ سَمِعَ النَّاسَ , يَقُولُونَ: أَعْتَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيَ هَوَازِنَ، فَدَعَا الْغُلَامَ فَأَعْتَقَهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جعرانہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں منت مانی تھی کہ مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی منت پوری کر نے کا حکم دیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں سے روانہ ہو گئے ابھی وہ نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ انہوں نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوازن کے قیدیوں کو آزاد کر دیا چنانچہ انہوں نے اپنے غلام کو بھی آزاد کر دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4320، م: 1656 نحوه مختصرا
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن ابن عمر , ان النبي صلى الله عليه وسلم" كساه حلة، فلبسها"، فرآها رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فذكر اسفل من الكعبين، وذكر النار، حتى ذكر قولا شديدا في إسبال الإزار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَسَاهُ حُلَّةً، فَلَبِسَهَا"، فَرَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَذَكَرَ أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَذَكَرَ النَّارَ، حَتَّى ذَكَرَ قَوْلًا شَدِيدًا فِي إِسْبَالِ الْإِزَارِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک ریشمی جوڑا دیا وہ ان کے ٹخنوں سے نیچے لٹکنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت بات کہی اور جہنم کا ذکر کیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قزع سے منع فرمایا: ”ہے قزع کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے بال کٹواتے وقت کچھ بال کٹوا لئے جائیں اور کچھ چھوڑ دیئے جائیں (جیسا کہ آج کل فیشن ہے)
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا هارون بن إبراهيم الاهوازي ، حدثنا محمد ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" صلاة المغرب وتر صلاة النهار، فاوتروا صلاة الليل، وصلاة الليل مثنى مثنى، والوتر ركعة من آخر الليل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَهْوَازِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" صَلَاةُ الْمَغْرِبِ وِتْرُ صَلَاةِ النَّهَارِ، فَأَوْتِرُوا صَلَاةَ اللَّيْلِ، وَصَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، وَالْوَتْرُ رَكْعَةٌ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مغرب کی نماز دن کا وتر ہیں سو تم رات کا وتر بھی ادا کیا کرو اور رات کی نماز دو دو رکعت ہوتی ہے اور وتر رات کے آخری حصے میں ایک رکعت ہوتے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح دون قوله: صلاة المغرب وتر صلاة النهار فأتروا صلاة الليل
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قزع سے منع فرمایا: ”ہے قزع کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے بال کٹواتے وقت کچھ بال کٹوا لئے جائیں اور کچھ چھوڑ دیئے جائیں (جیسا کہ آج کل فیشن ہے)
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا هشام يعني ابن سعد ، عن زيد يعني بن اسلم ، عن ابيه ، قال: دخلت مع ابن عمر على عبد الله بن مطيع، فقال مرحبا بابي عبد الرحمن، ضعوا له وسادة. فقال ابن عمر : إنما جئت لاحدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" من نزع يدا من طاعة، فإنه ياتي يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وهو مفارق للجماعة، فإنه يموت ميتة جاهلية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ يَعْنِي بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ، فَقَالَ مَرْحَبًا بِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ضَعُوا لَهُ وِسَادَةً. فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِنَّمَا جِئْتُ لِأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ نَزَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَهُوَ مَفَارِقٌ لِلْجَمَاعَةِ، فَإِنَّهُ يَمُوتُ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً".
زید بن اسلم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ عبداللہ بن مطیع کے یہاں گیا، اس نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو خوش آمدید کہا اور لوگوں کو حکم دیا کہ انہیں تکیہ پیش کرو، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”کہ میں آپ کو ایک حدیث سنانے آیا ہوں جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص صحیح حکمران وقت سے ہاتھ کھینچتا ہے قیامت کے دن اس کی کوئی حجت قبول نہ ہو گی اور جو شخص " جماعت " کو چھوڑ کر مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1851 ، وهذا إسناد حسن
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بكر ، اخبرنا يحيى بن قيس الماربي ، حدثنا ثمامة بن شراحيل ، قال: خرجت إلى ابن عمر ، فقلت: ما صلاة المسافر؟ قال: ركعتين ركعتين، إلا صلاة المغرب ثلاثا , قلت: ارايت إن كنا بذي المجاز؟ قال: ما ذو المجاز؟ قلت: مكان نجتمع فيه، ونبيع فيه، ونمكث عشرين ليلة، او خمس عشرة ليلة , فقال: يا ايها الرجل، كنت باذربيجان، لا ادري، قال اربعة اشهر او شهرين، فرايتهم يصلونها ركعتين ركعتين، ورايت نبي الله صلى الله عليه وسلم بصر عيني يصليها ركعتين، ثم نزع إلي بهذه الآية لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيُّ ، حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ شَرَاحِيلَ ، قَالَ: خَرَجْتُ إِلَى ابْنِ عُمَرَ ، فَقُلْتُ: مَا صَلَاةُ الْمُسَافِرِ؟ قَالَ: رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، إِلَّا صَلَاةَ الْمَغْرِبِ ثَلَاثًا , قُلْتُ: أَرَأَيْتَ إِنْ كُنَّا بِذِي الْمَجَازِ؟ قَالَ: مَا ذُو الْمَجَازِ؟ قُلْتُ: مَكَانٌ نَجْتَمِعُ فِيهِ، وَنَبِيعُ فِيهِ، وَنَمْكُثُ عِشْرِينَ لَيْلَةً، أَوْ خَمْسَ عَشْرَةَ لَيْلَةً , فَقَالَ: يَا أَيُّهَا الرَّجُلُ، كُنْتُ بِأَذْرَبِيجَانَ، لَا أَدْرِي، قَالَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ أَوْ شَهْرَيْنِ، فَرَأَيْتُهُمْ يُصَلُّونَهَا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، وَرَأَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَصَرَ عَيْنِي يُصَلِّيهَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ نَزَعَ إِلَيَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21.
ئثمامہ بن شراجیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا ہم نے ان سے مسافر کی نماز کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا: ”کہ اس کی دو دو رکعتیں ہیں سوائے مغرب کے کہ اس کی تین ہی رکعتیں ہیں میں نے پوچھا اگر ہم " ذی المجاز " میں ہوں تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے پوچھا " ذوالمجاز " کس چیز کا نام ہے؟ میں نے کہا کہ ایک جگہ کا نام ہے جہاں ہم لوگ اکٹھے ہوتے ہیں خریدو فروخت کرتے ہیں اور بیس پچیس دن وہاں گزارتے ہیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”اے شخص میں آذربائجان میں تھا وہاں چار یا دو ماہ رہا (یہ یاد نہیں) میں نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو وہاں دو دو رکعتیں ہی پڑھتے ہوئے دیکھا پھر میں نے اپنی آنکھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران سفر دو دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی کہ " تمہارے لئے پیغمبر اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ "
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بكر ، اخبرنا حنظلة بن ابي سفيان ، سمعت سالما , يقول: عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" رايت عند الكعبة، مما يلي المقام، رجلا آدم، سبط الراس، واضعا يده على رجلين، يسكب راسه، او يقطر، فسالت: من هذا؟ فقيل: عيسى ابن مريم , او المسيح ابن مريم، لا ادري اي ذلك، قال، ثم رايت وراءه رجلا احمر، جعد الراس، اعور عين اليمنى، اشبه من رايت به ابن قطن، فسالت: من هذا؟ فقيل: المسيح الدجال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، سَمِعْتُ سَالِمًا , يَقُولُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" رَأَيْتُ عِنْدَ الْكَعْبَةِ، مِمَّا يَلِي الْمَقَامَ، رَجُلًا آدَمَ، سَبْطَ الرَّأْسِ، وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى رَجُلَيْنِ، يَسْكُبُ رَأْسُهُ، أَوْ يَقْطُرُ، فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ , أَوْ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَ، ثُمَّ رَأَيْتُ وَرَاءَهُ رَجُلًا أَحْمَرَ، جَعْدَ الرَّأْسِ، أَعْوَرَ عَيْنِ الْيُمْنَى، أَشْبَهُ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ ابْنُ قَطَنٍ، فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے ایک مرتبہ خواب میں خانہ کعبہ کے پاس گندمی رنگ اور سیدھے بالوں والے ایک آدمی کو دیکھا جس نے اپنا ہاتھ دو آدمیوں پر رکھا ہوا تھا اس کے سر سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ پتہ چلا کہ یہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں پھر ان کے پیچھے میں نے سرخ رنگ میں کے گھنگھریالے بالوں والے دائیں آنکھ سے کانے اور میری دید کے مطابق ابن قطن سے انتہائی مشابہہ شخص کو دیکھا میں نے پوچھا یہ کون ہے تو پتہ چلایہ مسیح دجال ہے
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، سمعت يونس ، عن الزهري ، عن حمزة بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" اتيت وانا نائم بقدح من لبن، فشربت منه حتى جعل اللبن يخرج من اظفاري، ثم ناولت فضلي عمر بن الخطاب"، فقال: يا رسول الله، فما اولته؟ قال:" العلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، سَمِعْتُ يُونُسَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أُتِيتُ وَأَنَا نَائِمٌ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ، فَشَرِبْتُ مِنْهُ حَتَّى جَعَلَ اللَّبَنُ يَخْرُجُ مِنْ أَظْفَارِي، ثُمَّ نَاوَلْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا أَوَّلْتَهُ؟ قَالَ:" الْعِلْمُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ خواب میں میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا میں نے اسے اتناپیا کہ میرے ناخنوں سے دودھ نکلنے لگا پھر میں نے اپنا پس خوردہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کودے دیا کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم۔