واسع بن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ہر مرتبہ سر جھکاتے اور اٹھاتے وقت تکبیر کا ذکر کیا اور دائیں جانب السلام علیکم ورحمتہ اللہ علیہ کا اور بائیں جانب السلام علیکم ورحمتہ اللہ کا ذکر کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني عمرو بن دينار ، انه سمع رجلا سال عبد الله بن عمر , ايصيب الرجل امراته قبل ان يطوف بالصفا , والمروة؟ قال:" اما رسول الله صلى الله عليه وسلم فقدم فطاف بالبيت، ثم ركع ركعتين، ثم طاف بين الصفا , والمروة، ثم تلا لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ , أَيُصِيبُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالصَّفَا , وَالْمَرْوَةِ؟ قَالَ:" أَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ طَافَ بَيْنَ الصَّفَا , وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ تَلَا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21".
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا (اگر کوئی آدمی عمرہ کا احرام باندھے) تو کیا صفا مروہ کے درمیان سعی کر نے سے پہلے اس کے لئے اپنی بیوی کے پاس آنا حلال ہوجاتا ہے یا نہیں؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ تشریف لائے طواف کے سات چکر لگائے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی پھر فرمایا: ”پیغمبر اللہ کی ذات میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، سمعت ابا إسحاق ، سمعت عبد الله بن مالك ، قال:" صليت مع ابن عمر بجمع، فاقام، فصلى المغرب ثلاثا، ثم صلى العشاء ركعتين، بإقامة واحدة"، قال: فساله خالد بن مالك، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل مثل هذا في هذا المكان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ:" صَلَّيْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ بِجَمْعٍ، فَأَقَامَ، فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ"، قَالَ: فَسَأَلَهُ خَالِدُ بْنُ مَالِكٍ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ هَذَا فِي هَذَا الْمَكَانِ.
عبداللہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مزدلفہ میں نماز پڑھی انہوں نے ایک ہی اقامت سے مغرب کی تین رکعتیں اور عشاء کی دو رکعتیں پڑھائی خالد بن مالک نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ نمازیں اس جگہ ایک ہی اقامت کے ساتھ پڑھی ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، قال: بلغني عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" كان ينحر يوم الاضحى بالمدينة"، قال:" وكان إذا لم ينحر ذبح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: بَلَغَنِي عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَنْحَرُ يَوْمَ الْأَضْحَى بِالْمَدِينَةِ"، قَالَ:" وَكَانَ إِذَا لَمْ يَنْحَرْ ذَبَحَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ذی الحجہ کو مدینہ منورہ میں ہی قربانی کیا کرتے تھے اور نحر نہ کر سکنے کی صورت میں اسے ذبح ہی کر لیتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه بين ابن جريج وبين نافع
(حديث مرفوع) حدثنا حماد بن مسعدة ، عن ابن عجلان ، وصفوان ، قال: اخبرنا ابن عجلان ، المعنى، عن القعقاع بن حكيم , ان عبد العزيز بن مروان كتب إلى عبد الله بن عمر ان ارفع إلي حاجتك، قال: فكتب إليه عبد الله بن عمر , إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" ابدا بمن تعول، واليد العليا خير من اليد السفلى"، وإني لاحسب اليد العليا المعطية، والسفلى السائلة، وإني غير سائلك شيئا، ولا راد رزقا ساقه الله إلي منك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، وَصَفْوَانُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عَجْلَانَ ، الْمَعْنَى، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ , أَنَّ عَبْدَ الْعَزِيزِ بْنَ مَرْوَانَ كَتَبَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنْ ارْفَعْ إِلَيَّ حَاجَتَكَ، قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" ابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى"، وَإِنِّي لَأَحْسِبُ الْيَدَ الْعُلْيَا الْمُعْطِيَةَ، وَالسُّفْلَى السَّائِلَةَ، وَإِنِّي غَيْرُ سَائِلِكَ شَيْئًا، وَلَا رَادٍّ رِزْقًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيَّ مِنْكَ.
قعقاع بن حکیم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبدالعزیزبن مروان نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو خط لکھا کہ آپ کی جو ضروریات ہیں وہ میرے سامنے پیش کر دیجئے (تاکہ میں انہیں پورا کر نے کا حکم دوں) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور دینے میں ان لوگوں سے ابتداء کرو جن کی پرورش تمہاری ذمہ داری میں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اوپر والے ہاتھ سے مراد دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے والے ہاتھ سے مراد مانگنے والا ہاتھ ہے میں تم سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتا اور نہ ہی اس رزق کو لوٹاؤں گا جو اللہ مجھے تمہاری طرف سے عطاء فرمائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل ابن عجلان
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر ، اخبرنا يونس ، عن الزهري ، عن سالم بن عبد الله ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله تعالى هذا الكتاب، فهو يقوم به آناء الليل وآناء النهار، ورجل اعطاه الله تعالى مالا، فتصدق به آناء الليل وآناء النهار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ تَعَالَى هَذَا الْكِتَابَ، فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ أَعْطَاهُ اللَّهُ تَعَالَى مَالًا، فَتَصَدَّقَ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ ارشاد نبوی منقول ہے کہ سوائے دو آدمیوں کے کسی اور پر حسد (رشک) کرنا جائز نہیں ہے ایک وہ آدمی جسے اللہ نے قرآن کی دولت دی ہو اور وہ رات دن اس کی تلاوت میں مصروف رہتا ہو اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے مال و دولت عطاء فرمایا: ”ہو اور اسے راہ حق میں لٹانے پر مسلط کر دیا ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر ، اخبرنا يونس ، عن الزهري ، قال: بلغنا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان إذا رمى الجمرة الاولى التي تلي المسجد، رماها بسبع حصيات، يكبر مع كل حصاة، ثم يقوم امامها، فيستقبل البيت، رافعا يديه يدعو، وكان يطيل الوقوف، ثم يرمي الثانية بسبع حصيات، يكبر مع كل حصاة، ثم ينصرف ذات اليسار إلى بطن الوادي، فيقف، ويستقبل القبلة رافعا يديه يدعو، ثم يمضي حتى ياتي الجمرة التي عند العقبة، فيرميها بسبع حصيات، يكبر عند كل حصاة، ثم ينصرف ولا يقف" , قال الزهري: سمعت سالما يحدث , عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل هذا، وكان ابن عمر يفعل مثل هذا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: بَلَغَنَا أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ إِذَا رَمَى الْجَمْرَةَ الْأُولَى الَّتِي تَلِي الْمَسْجِدَ، رَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمَّ يَقُومُ أَمَامَهَا، فَيَسْتَقْبِلُ الْبَيْتَ، رَافِعًا يَدَيْهِ يَدْعُو، وَكَانَ يُطِيلُ الْوُقُوفَ، ثُمَّ يَرْمِي الثَّانِيَةَ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ ذَاتَ الْيَسَارِ إِلَى بَطْنِ الْوَادِي، فَيَقِفُ، وَيَسْتَقْبِلُ الْقِبْلَةَ رَافِعًا يَدَيْهِ يَدْعُو، ثُمَّ يَمْضِي حَتَّى يَأْتِيَ الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الْعَقَبَةِ، فَيَرْمِيَهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ عِنْدَ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ وَلَا يَقِفُ" , قَالَ الزُّهْرِيُّ: سَمِعْتُ سَالِمًا يُحَدِّثُ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ هَذَا، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ مِثْلَ هَذَا.
امام زہری رحمہ اللہ سے مرسلاً مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جمرہ اولیٰ جو مسجد کے قریب ہے کی رمی فرماتے تو سات کنکر یاں مارتے اور ہر کنکر ی پر تکبیر کہتے تھے پھر اس کے سامنے کھڑے ہو کر بیت اللہ کا رخ کرتے ہاتھ اٹھا کر دعاء کرتے اور طویل وقوف فرماتے پھر جمرہ ثانیہ کو سات کنکر یاں مارتے اور ہر کنکر ی پر تکبیر کہتے اور بائیں جانب بطن وادی کی طرف چلے جاتے وقوف کرتے بیت اللہ کا رخ کرتے اور ہاتھ اٹھا کر دعاء کرتے پھر جمرہ عقبہ پر تشریف لاتے اسے بھی سات کنکر یاں مارتے اور ہر کنکر ی پر تکبیر کہتے اس کے بعد وقوف نہ فرماتے بلکہ واپس لوٹ جاتے تھے۔
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سالم رحمہ اللہ کو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اسی طرح بیان کرتے ہوئے سنا ہے اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر ، اخبرنا يونس ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا عدوى ولا طيرة، والشؤم في ثلاثة في المراة، والدار، والدابة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ، وَالشُّؤْمُ فِي ثَلَاثَةٍ فِي الْمَرْأَةِ، وَالدَّارِ، وَالدَّابَّةِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور بد شگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے نحوست تین چیزوں میں ہوسکتی تھی گھوڑے میں عورت میں اور گھر میں۔
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود ، اخبرنا شعبة ، عن محمد بن ابي يعقوب ، سمعت ابن ابي نعم , يقول: شهدت ابن عمر ، وساله رجل من اهل العراق عن محرم قتل ذبابا، فقال: يا اهل العراق، تسالوني عن محرم قتل ذبابا! وقد قتلتم ابن بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟! وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هما ريحانتاي من الدنيا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي نُعْمٍ , يَقُولُ: شَهِدْتُ ابْنَ عُمَرَ ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ عَنْ مُحْرِمٍ قَتَلَ ذُبَابًا، فَقَالَ: يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ، تَسْأَلُونِي عَنْ مُحْرِمٍ قَتَلَ ذُبَابًا! وَقَدْ قَتَلْتُمْ ابْنَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا".
ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عراق کے کسی آدمی نے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر محرم کسی مکھی کو ماردے تو کیا حکم ہے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”یہ اہل عراق آ کر مجھ سے مکھی مارنے کی بارے میں پوچھ رہے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو (کسی سے پوچھے بغیر ہی) شہید کر دیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں نواسوں کے متعلق فرمایا: ”تھا کہ یہ دونوں میری دنیا کے ریحان ہیں۔